چچا برساتی قسط8 آخری قسط

اکبر وہاں سے اپنے بیوی بچے کو لے کر اپنے سسرال گیا تھا مگر وہاں بھی اسکی غریبی کے باعث اسکو کوئی ہمیت نہ دی گئی اور اسکی عزت نفس کچلنے کی باربار کوشش کی گئی تو مجبورأ اسے کرائے کے گھر میں شفٹ ہونا پڑا اسے اپنا سفر نئے سرے سے شروع کرنا تھا وہ بازار گیا اور اپنی دکان سے ذرا ہٹ کر اک دکان پر سیلزمین کا کام کرنے لگا چچا برساتی کو جب لوگوں نے چور اور بھائی کا مال ہڑپ کر جانے کے طعنے دیے تو اس نے سر پیر کا زور لگا کر اکبر کو اس دکان سے نکلوا دیا وہ نہیں چہتا تھا کہ اکبر اسی بازار میں رہتا اور لوگ اسے اس حال میں دیکھتے وہ اسے ہر جگہ سے اپنے پیسے کے بل بوتے پر نکلوا دیتا حالانکہ یہ سب لوگ اکبر کو زیادہ اچھی طرح جانتے تھے مگر دنیا کی فطرت ہے وہ اسی کا ساتھ دیتے ہیں جس کے پاس وقت کا حاکم پیسہ ہو اکبر کی زندگی میں دس سال گزرے اور یہ دس سال اس نے سنیار سے لے کر منیاری اور منیاری سے لے کر بزازی تک کی دکان پر کام کیا مگر چچا برساتی ہمیشہ اسکے رہ کی رکاوٹ بنتا پیسہ اکٹھا کرنے میں اس کا قد کئی گنا بڑھ گیا تھا اور اکبر کی قمر مزید جھکتی جارہی تھی اسنے کبھی یہ تک نہ سوچا کہ اس کے ایسا کرنے سے اکبر کی بیوی اوردو بیٹے کن محرومیوں کا شکار ہو رہے ہیں مگر جو سگے بھائی کو بھول جائے وہ مزید کیا یاد رکھے گا - حالات کے تھپیڑے کھاتے اور اپنوں کے دھوکے نے اکبر کو وقت سے پہلے بہت بوڑھا کر دیا تھا اک دن گھر کا سودا سلف لیتے اسکی ملاقات اصغر سے ہوئی وہ کچھ ہی دن ہوئے پاکستان آیا تھا وہ بمشکل تمام اسے پہچان پایا تھا اکبر ان دنوں ایک جنرل سٹور پہ سیلز مین تھا اصغر اسے پکڑ کر اپنے ہمرہ گھر لے گیا اسکے حالات جان کر پہلے تو بہت دکھی ہوا اور پھر اکبر پر ہی برس پڑا-

" تمہیں کتنا سمجھاتا تھا میں مگر تم نے میری ایک نہیں سنی اندھے کو بھی تمہارے بھائی کی کھوٹی نیت نظر آجاتی تھی مگر تم دیکھنا کہاں چہتے تھے - اور چلو اس نے تو جو کیا سو کیا مگر تم نے مجھے کیوں اتنا پرایا کر دیا کہ کچھ بتانا بھی گوارا نہ کیا پانچ سال پہلے میں پاکستان آیا تو تمہارے گھر گیا تھا مگر وہاں کسی نے زحمت نہ کی مجھے تمہارا اتا پتہ دینے کی بلکہ کسی نے تمہارا نام سنتے ہی مجھے پانی تک نہ پوچھا-"
" بس یار حالات نے ایسا پھیر دکھایا کہ کچھ بتانے سننے کی ہمت ہی نہ چھوڑی خود سے شرمندگی محسوس ہوتی تھی کہ یہ وہ رشتے تھے جن پر میں فخر محسوس کرتا تھا اگر تیری بھابی ساتھ نہ ہوتی اور بچوں کا خیال نہ ہوتا تو نجانے کہاں نکل کھڑا ہوتا ؟"

وہ بھیگے لہجے میں بمشکل بول پا رہا تھا اصغر نے اسکے کندھے پہ اپنا مضبوط ہاتھ رکھ کر اسے اپنا احساس دلانا چہا - تو اکبر نے اس کا ہاتھ آخری سہارے کے طور پر مضبوطی سے تھام لیا-

اور اس کے بعد کے معاملات خود بخود طے ہوتے چلے گئے اکبر اک بار پھر بیوی بچوں کو تنہا چھوڑ کر اصغر کے ہمرہ پردیس کی خاک چھاننے جا رہا تھا مگر اس بار بہت سی تلخ یادیں اور بہت سا سبق بھی اسکے ساتھ تھا ان دس سالوں کی تلخی نے اس کا رشتوں سے اعتبار ضرور ختم کیا تھا مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس میں بہت ہاتھ اسکا اپنا تھا مشکل وقت میں کسی کا ساتھ دینا سہارا بننا اچھی بات ہے مگر اسکو یہ احساس دلانا کہ آپ کی ذات اگلے کی مقروض ہے اور اس کی ہر جائز ناجائز خوہش پوری کر دینا اس کو طمع کا درس دینے کے مترادف ہے - اس بار وہ پردیس کاٹ کر پیسہ کسی کے ہاتھ پر نہیں ڈالا وہ خود واپس آیا اور اپنا گھر بنا کر چلا گیا اب اسے رشتوں میں توازن رکھنا آگیا تھا اک بار اس نے ماں باپ کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیئے پردیس کی صعوبتیں جھیلی تھیں اور اب وہ اپنی اولاد کے لیئے جھیل رہا تھا تو محنت کے ساتھ عبادت بھی شامل تھی اس بار گھر فون کرنے پر اسکی بیوی نے اسے بتایا کہ ان کا چھوٹامگر خوبصورت گھر دیکھ کر دونوں کے بہن بھائیوں نے انہیں معزز اور مالدار گردانتے ہوئے ان سے رشتے داریوں کو تازہ کرنے کی کوشش کی تھی مگراب وہ ان کی اصلیت جانتے تھے کہ یہ وہ لوگ تھے جن کے آستین میں سانپ اور بچھو لٹک رہے تھے وہ گھنٹوں بیٹھ کر ان مکار رشتے داروں کے مضحکہ خیز لگاوٹ کے مظہروں پر ہنسا کرتے کیونکہ ظلم کرنے والے کی یادداشت تو ضرور کمزور ہو سکتی ہے اور وہ اگلے بندے کو بے وقوف سمجھتے ہوئے اسکے گھاؤوں پر اپنے پرفریب لفظوں کی ملمع قاری کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر مظلوم کو اپنی آپ بیتی بھولتی ہے اور نہ مشکل ترین لمحات میں برتے اپنوں کے رویے ہی وہ فراموش کر سکتا ہے اکبر اور اسکے ہل و ایال کو مشکل وقت میں جو لوگ پوچھنا گوارا نہ کرتے تھے انکے اب ہمدردی بھرے رویوں سے انہیں ھی کوئی سروکار نہ رہا تھا کہ مشکل وقت بہرحال گزر چکا تھا اور مشکل وقت کے ساتھیوں کا وقت تعین کر چکا تھا-
Farheen Naz Tariq
About the Author: Farheen Naz Tariq Read More Articles by Farheen Naz Tariq: 31 Articles with 31664 views My work is my intro. .. View More