زندگی اور وہ

زندگی اور وہ

 زندگی میں بہت سے طوفان آتے ہیں اور بہت سی آندھیاں۔ کچھ لوگ کہانیوں کی طرح ہوتے ہیں تو کچھ لوگ چٹانوں کی طرح اٹل حقیقت۔ جن سے نہ تو منہ موڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کی حقیقت سے منہ گرداں ہوا جا سکتا ہے۔ ایسے ہی میری زندگی میں بھی بہت سے اتار چڑھاوٴ اے اور شاید سب کی زندگی میں آتے ہیں یا شاید زندگی نام ہی اتار چڑھاؤ کا ہے ۔الفاظ کو جان بخشتے ہیں کردار اور کردار زندگی کا اہم جزو ہیں جو زندگی کی عکاسی وقت کے پردے پر کرتے ہیں ۔ اور میں نے تو اپنے لڑکپن کے ایام سے ہی سن رکھا تھا کے وقت کی لاٹھی بہت پر زور ہے جس پر بھی آن پڑے پھر وہ سمبھلتا مشکل سے ہی ہے ۔لہٰذا ! ہم بھی چل پڑے کچھ کردار لیے وقت کے پردے پر ان کرداروں کی عکاسی کرنے ۔ زمانہ تھا لڑکپن کا اور دن تھے کھیل کود کے پر خدا گواہ ہے مجھے قدرت نے کچھ خاص ہی احساس بخشے تھے اور کردار سنجیدہ ۔ مجھے ہمیشہ ہی لگتا تھا کے جب زندگی اپنا امتحان لے گی تو میں اس کے سامنے ٹک نہیں پاؤں گا اسی خوف میں میرے شب و روز گزرتے چلے گیۓ اور وقت مظبوتی سے مجھے اپنے شکنجے میں کسطرح کستہ چلا گیا میں یہ سمجھتا کے پہلے ہی وقت مجھ پے اپنی اک گہری چھاپ چھوڑ چکا تھا ۔اپنی کہانی بیان کرتے کرتے مجھے لگنے لگا کے شاید میں ہی ہوں وہ جس سے وقت اپنا انتقام لے رہا ہے مگر آئنے کا دوسرا رخ ابھی موصوف نے دیکھا ہی کہاں تھا ۔میرے ارد گرد ہر طرح کے نقاب اوڑھے لوگ تھے کون ساتھی ہے اور کون دشمن کون جانے !!! بظاھر مسکراتے چھرے جو اپنے دکھ چھپانے کی ناکام کوشش کرتے دکھائی دیتے ۔ان مردہ صفت افراد کا معاشرہ مجھے روز احساس دلاتا کے میں بھی شاید ان سا ہی ہوں ۔

اور میں کون ہوں ؟؟؟ یے سوال لیے میں روز خود کو تلاش کرتا مگر ناکام ٹھرتا اور یے ناکامی کا احساس کسی حادثے سے کم وارد ہوتا اور نہ ہی اس کے اثرات جلدی جذب ہوتے ۔ لیکن ان سوالوں کو بہت سمجھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کے جواب جو بی ہو ہم سمجھنا وہی چاھتے ہیں جو ہم خود سوچتے ہیں مگر سوال یے ہے کے کیا ہم درست ہیں ؟؟
زندگی کے دو پہلو ہوتے ہیں اک وہ جس سے ہم جانتے ہیں اور اک وہ جسے ہم جاننا ہی نہیں چاہتے اور ہم وقت کے پردے پر اپنی ناکامی کے کردار چھاپھتے چلے جاتے ہیں ۔

خیر !!! یےتو تھی زندگی مگر میری زندگی کے بابِ ُسخن میں ( وہ) کا کردار کون تھا یے بہت ہی دلچسپ ہے اگرچے (وہ) اک کردار نہیں کرداروں کا اک مجموعہ ہے ۔
اس کہانی میں کرداروں کی وقت کے پردے پر عکاسی کا آغاز عمر کے اُس حِصے سے ہوا جس میں بچے عموماً گلییوں میں کنچے کھیلتے ہیں جسا کے میں نے آغاز میں ہی واضح کردیا تھا کے میں آغاز سے ہی غیرمعمولی احساسات کا مالک تھا لہٰذا میں آغاز سے ہی ان مشغلوں سے عاری تھا ۔ آٹھ سالہ عشق
جی ہاں عشق !!!
میرے دماغ کا اک خطیر حصہ اس عشق کے لئے وقف ہو چکا تھا اور میں بھی عین وہی سوچ پا رہا تھا جو عشق میں پڑا شخص سوچ سکتا ہے خیالاً ایسا کہ محبوب کا بناؤ سنگھار اور محبوب اور بس محبوب
میرا محبوب ۔ وہ تو میری لفاظی سے بہت پرے ، لازوال حسن کا مالک ،خدا کی کاریگری کا اک شاندار نمونہ ، افق کی لالی سے گہرے ہونٹ رات سےگہری زلف اور مذید کچھ اسی طرح ۔

یے تمام تصورات اک عاشق کے لیے عموم ہیں لیکن میرے نزدیک تو حسن کا میعار چشمِ بصیرت میں ہوتا ہے اور عشق تو حسن کی پرواہ کئے بغیر اپنی منزل حاصل کرتا ہے اور شاید وہ منزل ہے وصل !
جی ہاں وصل ۔ کیوں کہ وصل ہی نصیب ہے اک کامل عشق کا
وگرنہ حوس کو جسم میسر ھو ہی جاتے ہیں خیر اک آٹھ سالہ بچہ مبتلا ہتا ہے عشق کے مرض میں ۔اور راہ میں حائل کئی رکاوٹیں دم توڑتی ہیں اور یار سے یار کا ملن ہوتا ہے ۔زندگی نام ہے بہاؤ کا دن ڈھلتے گیۓ سیاہ راتیں سفید ہوتیں گیں اور زندگی کے کئی سال گزر گیۓ ۔لیکن عشق کو کون سمجھائے صاحب یے وہ آگ ہے جو نہ لگاے لگے اور بجھاۓ نہ بوجھۓ اک اک دن عشقِ مجازی کی طلب میں گزرا اک اک رات محبوب کی یاد میں کٹی ۔جوں جوں وقت گزرتا گیا وہ جذبہ بی جوان ہوتا گیا دل میں پنپتے جذبات اور گہرے اور جوان ہوتے چلے گیۓ مگر قدرت کے کھیل بھی نرالے عشق وہ عشق جو ابھی حاصل بھی نا کیا تھا جس کے لیے ہر دن وقف کردیا تھا اچانک خبر ملی کے زینب بلڈ کینسر کی وجہ سے چل بسی ۔ہاے صّد ہاے افسوس !!!
( إِنَّا للهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ‎)

قیامت صغریٰ برپا تھی دنیا ختم ہوتی دکھائی دی محبوب کے رخ کا آخری دیدار بھی نصیب نا ہوا اس کو وقت کا انتقام کہیں یا بد قسمتی مگر یے حقیقت تھی وہ اٹل حقیقت جسے چاہ کر بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا اب زندگی کا سفر طویل تھا اور وقت کے پردے پر اک اور کردار کا اضافہ اب اس کردار کا بوجھ لیے چلنا تھا اور زمانے کے ریت رواج بھی ادا کرنے تھے اور کچھ ذمہ داریاں بھی تو ادا کرنی تھیں لہٰذا ہمت کی اور اپنی دھاڑس خود ہی باندھ کر آیان نے فیصلہ کیا کے وہ اپنی تعلیم مکمل کر کے اپنے بوڑھے ماں باپ کا سہارا بنے گا لیکن یے سفر بھی آسان نا تھا آیان اپنی تمام توجہ تعلیم پر مرکوز کرتا تو جبھی اسکے خیال میں زینب کی آخری آرام گاہ اس کو ستانے لگتی اور بے اختیار آنسو ٹپکنے لگتے کچھ عرصہ تو وہ اپنے نا مکمل عشق کے لئے آنسو بھاتا رہا لیکن اب تو اسکے بوڑھےماں باپ بھی جہاں فانی سے کوچ کر چکے تھے مگر زندگی کا اصول ہے کسی اک کے لیے نا رکتی ہے اور نا ہی ٹھرتی وقت پانی کی طرح بہتا گیا لہٰذا آیان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اب وہ سمبھل چکا تھا اور کافی تک تعلیم بھی مکمل کر چکا تھا اور اک کامیاب زندگی کی جانب گامزن بھی تھا کچھ ہی عرصہ بعد آیان کی تعلیم مکمل ہوئی تو وہ معاش کے حصول کیلئے بیرون ملک رھائش پزیر ہوگیا ۔ کچھ ہی عرصہ میں آیان کو ٹھیک ٹھاک نوکری مل گی اور آیان نے کام شروع کردیا اور بس پھر قسمت مہربان ہوتی چلی گیئی اور آیان کے پاس کچھ ہی عرصے میں کشادہ گھر نوکر چاکر قصہ مختصر اک نفیس اور آرام دہ زندگی میسر تھی لیکن آیان تنہائی کے مارےبہت گھٹتا چلا جا رھا تھا اور نا ہی کام پر دھیان دے پا رھا تھا یہی وقت تھا کے وہ رشتہِ ازدواج میں بندھ جاتا ۔

کچھ ہوا بھی یوں ہی ۔ آیان اک بہت دلکش اور خوبصورت نوجوان تھا ۔ جس جگہ آیان کام کرتا تھا اسی جگہ اسکے ساتھ کافی دو شئیزایٰں بھی کام کرتیں تھیں اور کافی بار اسے شادی کے لیے لکھے گیۓ خط موصول ہوتے لیکن تب آیان کا دھیان صرف اپنے روشن مستقبل پے تھا کیوں کے آیان نے فیصلہ کرلیا تھا کے وہ جو کچھ زینب کے لیے کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اب وہ اپنی ہونے والی بیوی کے لیے کرے گا اور ساری زندگی اسی کے لئے وقف کریگا لہٰذا اس بار اسے اک خط موصول ہوا یے کچھ سنجیدہ اور دیگر تمام خطوط سے یکسر مختلف تھا ۔

السلام و علیکم
پیارے آیان !
مجھے ہمیشہ سے ھی معلوم نہ تھا کے میں کبی زندگی کے اس مقام پی آن کھڑی ہوں گی ۔جہاں زندگی ریگستان کی تپتی ریت کی طرح جلاے گی تو دوسری طرف تمہارے جیسا کوئی پیارا آبِ حیات بن کر دوبارہ حیات بخشے گا تمہارے ساتھ کام کرتے کرتے معلوم ہی نہ ہو سکا کے کب تم میرے لیے اس قدر اہم ہو گیۓ ۔ مجھے نہیں معلوم میں یے خط کیوں اور کس تعلق کی بنا پر لکھ رہی ہوں مجھے اس کے سہی اور غلط ہونے کا بھی اندازہ نہیں مجھے تو فقط یے معلوم ہے کے تم مجھے زندگی کے ہر نشیب و فراز میں اپنے ساتھ پہاڑوں کی طرح اٹل پاؤ گے ۔ جو ٹوٹ کر ریزه ریزہ ہو سکتا ہے مگر پیارے آیان کبی منہ گرداں نہیں ہوگا اپنی زندگی کے تمام اوراق تمہارے لئے وقف کر دیے اب تم چاہو تو ان ویران ورقوں پر وقت کی سیاہی سے اپنی زندگی کے کچھ لمحات نقش کر دینا ۔تمھارے جواب کی طلب گار ۔
واسلام
( بنتِ ہوا )
آنزا شیخ ۔
یے خط پڑھ کر آیان خاصا متاثر تھا جبکہ اسکے وہم و خیال میں بھی نہیں تھا کے آنزا شیخ اسکے بارے میں اس قدر نفیس تاثرات رکھتی ہے ۔ آنزا شیخ کا تعلق اک امیر اور عزت دار گھرانے سے تھا اور آنزا باحثیت خود اک خوبصورت اور اعلٰی تعلیم یافتہ دو شیزا تھی تو عین امکان تھا کے آیان اس رشتے کو انکار کر پاتا لہذا اس نے آنزا شیخ سے ملاقات کرکے اپنے اہل و عیال سے بات کرنے کا عندیہ دیدیا اور کچھ ہی آیام بعد گھر والوں کی رضا مندی کے بعد دونوں کی منگنی طے پا گیئ ۔ آنزا کافی خوش تھی مگر فلحال حقیقت سے نا واقف ۔ آیان نے زندگی کی پچیس بہاریں دیکھ رہی تھیں اور اس دوران کئی خزاییں بھی ۔ زینب کی جدائی کا غم تو دوسری طرف ماں باپ کے چل بسنے کا دھچکہ ۔ آیان نے بیشتر زندگی تنہا ہی گزاری چناچہ آیان کے مذاج میں خاصی تلخی آچکی تھی اور وہ بات بات پہ چڑ بیٹھتا ۔ مگر وہ اس بات سے واقف بھی تھا کے اب اسکی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے اور اسے خود کو بدلنا بھی ہے مگر سال ہا سال تنہا رهنے کے بعد کسی کو زندگی میں شریک کرنا خاصا مشکل کام بھی تھا ۔ مگر اسی کشمکش میں دن رات اور رات دن ہوتے گیۓ ۔ اور آیان اور آنزا کی شادی کی تاریخ بھی طے پا گیئی اس دوران دونوں کی ایکا دکا ملاقاتیں بھی ہوئیں مگر نا قابلِ ذکر ۔ آیان اپنے آپ مسلسل تبدیل کرنے کی کوشش میں مگن رہتا تو کسی حد تک وہ اس میں کامیاب بھی رہا ۔ اور بل آخر دونوں رشتہ ازدواج سے منسلک ہو گیۓ ۔ آنزا آیان سے بے پناہ محبت کرتی تھی اس لئے وہ آیان کاہر طرح سے خیال رکھتی ۔ آیان کے تمام کام بھی آنزا خود کرنے لگی اور ملاذمہ کو بھی فارغ کردیا تھا دوسری طرف آیان عرصہ دراز سے اکیلا رهنے کی وجہ سے کافی چڑ چڑا ہو گیا تھا آغاز کے آیام کافی کشیدہ گزر رہے تھے آنزا بھی اس وجہ سے خاموش ہی رہنا شروع ہو گیئی تھی ۔ اک روز آنزا معمول کے کاموں میں مصروف تھی کے اچانک دروازے پر دستک ہوئی آنزا نے کام کاج چھوڑ کر دروازہ کھولا تو آیان کو قبل از وقت سامنے پایا ۔ آنزا آیان کو قبل از وقت دیکھ کر قدرے ششدر رہ گیی ۔ دروازہ کھلتے ہی آیان اندر آیا تو اسکی طبعیت کچھ ناساز دکھائی دی مگر کچھ کہے اور سنے بغیر ہی آیان نے اپنے کمرے کا رخ کیا اور کمبل اوڑھ کر لیٹ گیا ۔ آنزا نے معمولی سمجھ کر زیادہ توجہ نہ دی مگر سورج اپنی منزل پر پہنچ چکا تھا ستارنے افق پر نمودار ہو چکے تھے مگر آیان ابھی بھی بستر پر ہی تھا ۔ آنزا تھکاوٹ گردان کر رات کا کھانا پکانے میں مصروف ہو گیی ۔ کچھ ہی دیر میں کھانا تیار تھا اور دستر خوان پر لگ چکا تھا بل آخر آنزا آیان کی خواب گاہ میں گیی اور ہلانے پر آیان کو بیہوش پایا ۔ آیان کو بیہوش پا کر آنزا کے پیروں تلے زمین کھسک گیی مگر آنزا نے نہایت ہمت اور فہم سے کام لیتے ہوے ہسپتال سے ایمبولینس طلب کرلی اور کچھ ہی دیر میں آیان کو ہسپتال منتقل کردیا گیا ۔ گہما گہمی کا عالم تھا اور آنزا بہت ڈر گیی تھی کے ایمرجنسی وارڈ سے اک ڈاکٹر نکلا اور پوچھا کے ابھی انے والے مریض کے ساتھ کون ہے آنزا نے دھیمی اور کپکپاتی آواز میں کہا جی وہ میرے شوہر ہیں ڈاکٹر نے فوراً کہا میرے ساتھ ائے اور وارڈ کی جانب بڑھا۔ آنزا بھی ڈاکٹر کے پیچھے پیچھے چل دی ۔ دیکھئے مریض کا بلڈ پریشر تجاوز کر گیا تھا گھبرانے کی بات نہیں ہے انہں دوائی دیدی گئی ہے جلد ہی انہں ہوش آجاے گا لیکن آئندہ اس طرح کی حالت سے احتیاط برتنی ہوگی ۔ آپ بتایے کے کیا مریض کو کوئی پریشانی کا سامنا ہے؟

کچھ دیر گہری سوچ کے بعد آنزا نے دھیمی آواز میں جواب دیا کے جی ۔ وہ خاموش طبع انسان ہیں اور نہ ہی زیادہ سماجی روابط رکھتے ہیں تنہائی کو پسند کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر نے بات کاٹتے ھے کہا دیکھئے مریض گہرے صدمے سے دو چار ہے لا پرواہی کی صورت میں نا قابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے اور کچھ عرصہ مریض کو کام کاج سے دور رکھنے اور مریض کو سیاحتی مقام کی طرف لے جانے کا مشورہ دیا تا کہ مریض کو صدمے سے نکالا جا سکے ۔ یے کچھ ادویات اور استمال کے اوقات لکھ دیے ہیں انشاء اللّه جلد افاقہ ہوگا ۔ کچھ ہی دیر میں آیان کو ہوش آگیا۔

حوش اتے ہی تمام واجبات ادا کرکے آنزا آیان کو گھر لے گیئی ۔چونکہ آنزا آیان کی خاموشی کی وجہ سے قدرے نالاں بھی تھی ۔ اس لیے وہ واپسی پر تمام راستے آیان کی سرزنش کرتی رہی ۔ گھر آتے ہی آنزا نے رسوئی میں جاکر کھانا دوبارہ گرم کیا اور دستر خوان پر لگا دیا ۔ اور بغیر کھانا کھاے اپنے بستر پر جاکر لیٹ گیی ۔ ایسا شادی کے بعد پہلی دفع ہوا تھا کے آنزا نے آیان کے ہمراہ کھانا نہ کھایا ہو ۔ جسے آیان نے بھی کافی محسوس کیا ۔ آپ سب نے سن تو رکھا ہوگا کے شادی کی ریل پٹری پر تب ہی گامزن رہتی ہے جب اسے میاں اور بیوی دونوں کی طرف سے سہارا ملے ۔اس کو آیان قدرے بہتر سمجھتا تھا ۔ لہذا آیان کو فکر لاحق ہوئی اور موصوف نے آنزا کو منانے کا فیصلہ کیا ۔ فوراً آنزا کے کمرے میں گیا ۔ اہم اہم گلہ صاف کرنے کے بعد !!! آنزا

کمرے میں اک نہایت خوش سماعت آواز گونجتی ہوئی سنائی دی ۔ جو کہ آنزا پر بہت خوش گوار گزری ۔ آنزا جذبات پر قابو پاتی کے فوراً ہی بیگم ! کے الفاظ سنائی دئیے ۔ آنزا ناجانے کیوں دل ہی دل میں خوشی کے لڈو کھا رہی تھی تاہم فلحال آنزا نے چپ سادھ رکھی تھی ۔ آیان کو معلوم ہو چکا تھا کے آنزا اسکی خاموشی کی وجہ سے قدرے نالاں ہے ۔ آیان نے جدوجہد جاری رکھی اور بلآخر آنزا اس مطالبے پر راضی ہو گیئی کے آیان پندرہ دن کے لئے اسے وادیِ نیلم لے جایگا ۔ جوکہ آیان نے تسلیم کرلیا رات کا درمیانی پہر تھا اور دونوں کو بھوک ستا رہی تھی دونوں دستر خوان پر گیۓ اور کھانا کھایا ۔ یہی آغاز تھا آیان اور آنزا کے درمیان تعلقات کی بہتری کی جانب پہلے قدم کا۔ اگلے ہی روز آنزا نے تمام تر انتظامات مکمل کرلیے ۔ اور شام کو دونوں نے فلائٹ پکڑی اور پاکستان آگیے۔پاکستان آکر آیان بھی کافی خوش تھا تو کہں پرانی یادیں پھر سے تازہ تھیں ۔ اک دن اور اک رات کے مسلسل دشوار گزار سفر کے بعد آیان اور آنزا کافی تھک چکے تھے ۔ ہوٹل میں پہنچتے ہی بستر پر جانے میں عافیت جانی ۔صبح آیان کی آنکھ کھلی تو آنزا بستر پر موجود نا تھی آیان کو فکر لاحق ہوئی تو فوراً اٹھ کر دیکھا اگرچے یے اک اشارہ تھا آیان اور آنزا کی قربت کا ۔ تلاش کرنے پر آنزا کو کمرے سے منسلق کھڑکی میں کھڑا پایا ۔ جہاں وہ ہوروں کی کہی جانے والی وادی کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہورہی تھی ۔وہ صبح کا وقت اور سورج کی چہمکتی کرنیں پرندوں کی چہچہانا ۔ اک مکمل دل فریب نظارہ ۔ آیان کی سرسراہٹ سے آنزا کو آیان کی موجودگی کا احساس ہوا تو اک دم سے چونک اٹھی۔ اور بے اختیار کہنے لگی بہت حسین نظارہ ہے نا !!!

آیان نے ہاں میں سر ہلایا ۔ اور آنزا کے ہمراہ کھڑا ہوگیا۔ اور اس حسین نظارے سے لطف اندوز ہونے لگا

پہاڑوں کی آگوش سے روانہ ہوتیں آبشاریں جسے خدا نے جنت کا نظارہ دنیا میں ہی دکھا دیا ہو یا جنت کا اک حسین ٹکڑا اہل دنیا کے لئے انعام کردیا ہو۔ اس حسین نظارے کو دونوں میاں بیوی طویل وقت تک ٹک ٹکی باندھ کر دیکھتے رہے

یہی آنزا کے لئے آخری موقع تھا کے آنزا آیان کو ماضی کی اندھیری رات سے نکال کر حال کے اُجالوں سے روشناس کرواے ۔

آنزا کو ناکامی کا خوف تھا تو دوسری جانب اسے یے ہر حال میں کرنا ہی تھا

خیر دونوں ابھی نظارے سے لطف لے رہے تھے کے دروازے پر دستک ہوئی دونوں یک مُشت چونک اٹھے آیان نے دروازہ کھولا تو ناشتہ آچکا تھا گرماگرم حلوہ اور پوڑی ساتھ میں کابلی چنے ناشتے میں تڑکے کا کام کر رہے تھے اور لسی کے بگیر تو ناشتہ ادھورا سا تھا ۔ آیان کو یے کھانے بہت مرعوب تھے آیان نے سیر ہوکر کھایا۔ آیان کافی حد تک آنزا کی خدمت گزاری سے متاثر تھا مگر ان کے باہمی رشتے کو استوار کرنے کے لیے یے ناکافی بھی تھا ۔ ضرورت تھی باہمی اعتماد ،دلچسپی اور محبت کی ۔ اور فقدان بھی ِانھی کا تھا ۔ خیر کھانے سے فارغ ہوکر آنزا باہر سیر سپاٹے کے لئے جانا چاھتی تھی مگر کہتے ہوے ہچکچا رہی تھی جسے آیان محسوس کر رہا تھا ۔ مگر آیان کے لئے یے سب کافی دشوار تھا وہ ماضی کی تلخ یادوں کے دلدل میں اور پھنستا ھی چلا جارہا تھا ۔ اور آنزا بےبس دکھای دے رہی تھی ۔ آنزا ہر ممکن کوشش کر رہی تھی مگر آیان کے دل و دماغ میں فقط ماضی کی تلخ یادیں گھر کیں ہوئیں تھیں۔ آیان کی خاموشی آہستہ آہستہ آنزا کو اندر ہی اندر سے کھانے لگ گیی۔ مگر آنزا نے ڈٹ کر حوصلے اور ہمت سے کام لیا اور خود کو ہر مشکل وقت میں سمبھالا خیر پہلا دن تو اسی طرح کام کاج اور سامان ترتیب دینے میں گزر گیا اگلے دن سورج کی چمکدار کرنیں آیان کی انکھوں سے ٹکرایں تو آیان فوراً نیند سے بیدار ہوا تو آنزا یکسر مختلف حلیے میں دکھای دی لہراتے گیلے بال چاے کی پیالی تھامے آنزا نے دیدہ زیب لباس پہن رکھا تھا ۔ آیان جیسے سکتے کے عالم میں تھا۔ ابھی آیان سمبھلتا اور ٹھیک سے اٹھ کر بیٹھتا آنزا نے آیان کے ہاتھ میں چاے کی پیالی تھمائی اور اپنے ہاتھ سے آیان کے ہاتھوں کو سمبھالا دیا۔ آیان بہت ہی گھبرایا ہوا تھا اگرچہ تاریخ میں مرد ذات کو ہمیشہ ہی بارعب اور باہمت افشاں کیا گیا ہے مگر صاحب !
احساسات تو کسی بھی بشر پر ہاوی آن سکتے ہیں۔

آنزا آیان کی گھبراہٹ کو محسوس کر رہی تھی اور مسلسل مسکرا رہی تھی آیان کپکپاتے ہاتھوں سے چاۓ کی پیالی تھامے نظریں جھکاے بیٹھا تھا۔ کہ آنزا نے دھیمے لہجے میں نہایت شگفتگی سے پوچھا آیان اگر آپکو مناسب لگے تو آج کچھ دیر باہر وادی کا نظارہ کر آئیں ؟

آیان نے کپکپاتی ہوئی آواز میں حامی بھر لی آنزا خوشی کے مارے نہال تھی اور فوراً تیاری میں مصروف ہو گیی۔ کچھ ہی دیر میں آیان بھی تیار ہوا اور دونوں سیر سپاٹے کے لئے روانہ ہوگئے ۔ آیان کافی عرصے بعد پاکستان آیا تھا اور یوں سیر سپاٹے سے لطف اندوز ہو رہا تھا جو کے آیان کی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب کر رہا تھا۔ اور بھئی ایسا کیوں نا ہو ؟ آخر خوبصورت بیوی کا ساتھ اور اس قدر خیال انسان کو توانا بنا ہی دیتا ہے ۔ پاکستان کی اس خوبصورت وادی میں دیکھنے کو اس قدر حسین مناظر تھے کہ دن کب رات ہوگیا معلوم ہی نہ ہوا تھک ہار کر ہوٹل واپس پہنچے . آج کا دن اگرچے گفتگو کے لحاظ سے بہت زیادہ متاثر کن نہ تھا مگر اس سلسلے میں پیش رفت ضرور ہوئی . آیان نے کم از کم اپنے خیالات کا اظہار کیا جنہیں آنزا نے باخوبی جذب کیا. آیان نے خود سے کیا ہوا وعدہ فراموش کردیا تھا کہ وہ زینب کے لیے سوچی ہوئی ہر آسائش اپنی بیوی کو دیگا مگر آیان کی خاموشی اور ماضی کے گتھم گتھا خیالات اس وعدے کو تار تار کرنے میں بیشتر کردار ادا کر رہے تھے .
نہ جانےکیسے کیسے احساسات ابن آدم لیے جیتا ہے !!

ماضی کی یادیں جن کے لیے وہ اپنا آج ترک کر دیتا ہے اور آئندہ مستقبل کے لیے خود کو تیار کرتا ہے.
ابن آدم کو کون سمجھاے کہ وہ فقط آج اور صرف آج کو بہتر جینا شروع کردے تو مستقبل میں ماضی کا پشتاوا ہوگا نہ اسکا اس آج کی فکر جسے وہ مستقبل میں جئیے گا . خدا کے کھیل نرالے اس انسان کو بھی عجب فطرت پر تخلیق فرمایا ہے خیر ! اسکے کھیل وہ ہی جانے

آیان اگر تنہا خاموش ہی رہنا چاہتا تھا تو اس نے آنزا سے شادی کیوں کی ؟ اس سوال کا میرے اور آپکے خیال میں نہایت پیچیدہ ہوگا مگر اس سوال کا جواب نہایت سادہ اور عام نوعیت کا ہے ارے بھئ!
ہر انسان کی طرح وہ بھی اک مکمل زندگی کا طلبگار تھا لہذا اس نے شادی کی . ہر انسان اپنی طرز فکر سے سوچتا ہے اور اکثر سادہ اور عام معملات کو پیچیدہ ترین بنا دیتا ہے. اسی طرح آیان اپنی بیوی کے جائز اور سادہ جذبات کو سمجھنے سے عاری تھا کیوں کہ وہ ماضی کو اپنے آج پر زیادہ فوقیت دیئے ہوے تھا اور آج کو سمجھنے سے قاصر تھا مگر وہ اس بات سے باخوبی واقف تھا کہ اسکا خمیازہ آنزا بھی بھگت رہی ہے جو اسے بیشتر اوقات فکر لاحق کر دیتی مگر آنزا اک اچھی بیوی تھی جو اپنے کیے ہوے وعدے کے مطابق پہاڑ کی طرح اٹل کھڑی تھی جسکا سر فلق بوس اور ارادے بلند تھے . آیان کا ماضی درحقیقت انزا ہی بھگت رہی تھی جو اس ماضی کی وجہ سے اپنے آج کو مکمل جینے سے قاصر تھی. فکر،خوف،وہم ابن آدم کی زندگی کا اہم حصہ ہیں جنکی وجہ سے انسان کو اکثر فکر لاحق رہتی ہے کہں نہ کہں آیان کے دل میں آنزا سے دور ہونے کا ڈر اکیلے رہ جانے کا خوف اور یہ وہم بھی موجود تھا کہ آنزا اسکے سرد لہجے کی وجہ سے اس سے جلد جدائی اختیار کرلے گی. اور دوسری طرف آنزا کو آیان کی صحت کی فکر اور آیان کے ٹھیک نہ ھونے کا خوف اور یہ وہم لاحق تھا کے آیان ساری عمر اسی سرد لہجے میں ہی جی دے گا.مگر ان احساسات کو دبا کر پوشیدہ رکھنے کا فن بھی ابن آدم خوب جانتا ہے.
کاش یہ لوگ بھی اپنے جذبات بیان کر پاتے اپنے خوف اپنے وہم دور کر پاتے تو ان کا آنے والا کل انکے گزرے ہوے کل کی مانند خوف میں نہ گزرتا. رات گئے واپسی پر دونوں شدید تھکاوٹ کا شکار تھے اور جلد بستر کی آغوش میں نیند کے مزے لینے لگے رات کے آخری پہر میں آنزا بیدار ہوئی تو اسکی نظر آیان پر پڑی تو آنزا ٹکٹکی باندھ کر آیان کو یوں پیار سے تکتی چلی گیی کے آسمان پر آفتاب کی لالی نمودار ہونے لگی . آیان نے کروٹ بدلی تو آنزا چونکی اور کروٹ بدل لی . آنزا کی آنکھ پھر سے لگ گیئی اور وہ گہری نیند سو گیئی دوبارہ آنکھ کھلی تو نگاہ دیوار پر لٹکے گھڑیال پر گیئی صبح کے گیارہ بج رہے تھے آنزا فوراً اٹھ کر بیٹھ گیئی . چند منٹ بعد بستر کے دوسری جانب دیکھا تو آیان کو بستر پر نا پایا آنزا گھبرا کر بستر سے نکلی تو اسکی گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہوگیا جب آنزا نے چند قدم دور آیان زمین پر بیہوش پڑا پایا . اضطراب اور بے چینی کی حالت میں فہم اور عقل ساتھ چھوڑ جاتی ہے . گھبراہٹ میں آنزا نے ایمرجنسی کال کی اور ایمبولینس طلب کرلی . جتنی جلدی ممکن ہوسکا آیان کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں اسے ایمرجینسی وارڈ میں رکھا گیا . کچھ دیر میں ڈاکٹر وارڈ سے نکلا اور وہی کچھ دوہرآیا جو پچھلی دفع ڈاکٹر نے کہا تھا . مگر اس دفع کچھ اور بھی مزید شامل تھا اور وہ یہ کے
محترمہ !!! مجھے یہ دماغی مسلہ معلوم ہوتا ہے میں نے چند ٹیسٹ لکھ دئیے ہیں آپ براہ کرم جلد از جلد رپورٹس لیکر مریض کو دوبارہ چیک کروائیں . آیان کو ہسپتال میں ہی رکھا گیا . آنزا نے انتہائی پریشانی کی حالت میں اللّه اللّه کرکے رات بسر کی. صبح ہوتے ہی آیان کی رپورٹس آگیں جیسے دیکھنے کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ آیان کے سر پر کافی عرصہ قبل چوٹ ائی تھی جسکی وجہ سے اسے ان پیچدگیوں کا سامنا ہے جس حالت میں مریض اکثر تخیلاتی کرداروں میں پھنس جاتا ہے اور انہں ہی حقیقت جانتا ہے . ایسی حالت میں مریض کو ٹھیک کرنے کے لیے دوا کے ساتھ ساتھ ایسی صورتحال مہیا کی جاتی ہے جس میں اسے ان تخیلآتی کرداروں کی موجودگی کا احساس ہو . اگلے ہی روز آیان آنزا کے ہمراہ قطر واپس . اب آنزا آیان کو دوا تو دے رہی تھی مگر یہ سمجھنے سے قاصر تھی کے آیان کے دماغ میں چل کیا رہا تھا اور کن تخیلاتی کرداروں میں آیان پھنس چکا ہے .ان دنوں آنزا آیان کی حرکات کا بغور جائزہ لے رہی تھی تا کہ وہ آیان کو سمجھ سکے. اسی کشمکش میں کئی دن گزر گیۓ اک روز آیان کسی کام کے سلسلے میں کسی دوسرے شہر گیا ہوا تھا کے اچانک آنزا کو معمول کے کاموں کے دوران آیان کی الماری میں سے اک ڈائری برامد ہوئی . پرانی مگر نفیس دکھنے والی یہ ڈائری یوں معلوم ہورہی تھی کے کافی عرصے سے اسے کھولا بھی نا گیا ہو.گرد و غبار جھاڑ کر کھولا تو آنزا حیران رہ گئی کیوں کہ یہ آیان کی ہی لکھی ہوئی آب بیتی تھی.آنزا نے پڑھنا شروع کیا تو یہ آیان کی عمر کے اس حصے کی روداد تھی جس حصے میں تحریر لکھنا کسی بھی انسان کے لیے نا ممکن ہوتا ہے. آنزا پڑھتی چلی گیئی جوں جوں آنزا تحریر پڑھتی گیئی اس کی سامنے تمام صورتحال واضح ہوتی گیئی یہ تحریر آنزا کی والدہ نے لکھی تھی اسی تحریر میں انہوں نے آغاز میں ہی اپنی علالت کا ذکر کردیا تھا اور انکے پاس زندگی کے چند ہی ایام باقی تھے اور وہ یہ تحریر اس لیے لکھ رہی تھیں تاکہ آیان جب بھی اس تحریر کو پڑھے تو حقیقت سے آشنا ہو سکے اور اپنا حق لے سکے . جی ہاں ! یہ حقِ وراثت ھی تھا جسے آیان کی مکار چچی اور چچا ہڑپ کرنا چاہتے تھے آیان کے ابا میاں عبدلکلیم بہت سادہ آدمی تھے جو حقیقت سے نا واقف تھے آیان انکا اکلوتا چشم و چراغ تھا .جوکہ میاں عبدلکلیم نے اپنی بیوی حاجرہ کی علالت کے باعث پرورش کی خاطر اپنے بھائی اور بھابی کے حوالے کیا ہوا تھا آیان شروع سے ھی بہت زہین اور قابل تھا اسکی تمام توجہ پڑھائی پر مرکوز رہتی اور یہی بات اسکے روشن مستقبل کی ضامن تھی . میاں عبدلکلیم کام کے سلسلے میں اکثر بیرون ملک رهتے اور کبھی کبھار آکر آیان سے مل جاتے. آیان اپنے اصلی والدین سے واقف تھا مگر بحثیت چچا اور چچی کیوں کے آیان کی حقیقی چچی نہیں چاہتی تھی کہ آیان حقیقت سے واقف ہو تاکہ صیح وقت آنے پر وہ اپنا مفاد لے سکے . آیان کی پرورش بظاہر اس انداز میں ہو رہی تھی کے آیان کے ابا مطمئن رهیں . اسی لئے آیان کو شہر کے بہترین اداروں سے تعلیم دلوائی گیئی. آیان کی والدہ لکھتی ہیں کہ شروع میں وہ بھی خاصی مطمئن تهیں . مگر وہ حقیقت سے تب آشنا ہوئیں جب انہوں نے آیان کی چچی کو آیان کے دودھ میں کچھ اسی دوا ملاتے دیکھا جو انسانی سوچ سمجھ زائل کرنے کے لئے بدنام زمانہ تھی . آیان کی والدہ نے یہ دیکھتے ہوے بھی خاموشی اختیار کی کیوں کہ وہ بات کی جڑ تک جانا چاہتی تھیں. انہوں نے دوا کا نام درج کیا اور دوا کی تاثیر جاننے کے لئے ڈاکٹر سے رابطہ کیا جس نے بتایا کے یہ دوا انسان کے دماغ کے سوچنے سمجھنے کا اثر زائل کردیتی ہے اور باز اوقات انسان حقیقی دنیا سے الگ تھلگ ہو کر خیالی دنیا میں کھویا رہتا ہے اورجس چیز کی اسے بار بار یادہانی کروائی جاے وہ چیز اسکے دماغ میں رچ بس جاتی ہے اور وہ ھی اسکی حقیقت بن جاتی ہے. آیان کی والدہ اب بہت مہتات رهنے لگیں تاکہ بات کی جڑ تک پہنچ سکیں. اسی لئے انہوں نے اب آیان کی چچی پر نظر رکھنا شروع کردیا تبھی انہوں نے آیان کے چچا اور چچی کی گفتگو سنی جس سے آیان کی والدہ کو انکی مکاری معلوم ہوئی. آیان کی چچی نے ھی زینب کا کردار آیان کے ذہن میں بٹھایا جس کی عکاسی آیان تا حال اپنے زندگی کے پردے پر کرتا آرہا تھا. آیان کی چچی نے ھی چھوٹی سی عمر سے عشق اور محبت کی باتیں آیان کے ذہن میں بٹھایں تاکے زینب کا کردار آیان کے ذہن میں مضبوط ہو سکے تاکہ بعداز وہ اس تخیلآتی زینب نامی کردار کو مار کر آیان کو ذہنی طور پر مفلوج کردیں. عام فہم انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ آٹھ سالہ عشق کیسے ممکن ہوسکتا ہے آپ کو بھی یہ بات کھٹکی ضرور ہوگی؟ خیر !!

یہ سب جان لینے کے بعد آیان کی والدہ نے آیان کے ابا سے بات کی انہوں نے اسے حاجره بیگم کا وہم قرار دیکر اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا . حاجره یعنی آیان کی والدہ جب نا امید ہو گیں تو انہوں نے یہ تحریر تخلیق کی تاکے جوان ہوکر اسے پڑھ کر حقیقت سے واقف ہو سکے اور ساتھ ھی انہوں نے اپنی اور آیان کے ابا اور ان تمام کی جو آیان کے خیر خواہ تھے ان سب کی تصاویر بھی چپساں کردیں تھیں تاکے آیان انکی شکل یاد رکھ سکے . بعد ازاں آیان کے والد جب حقیقت سے واقف ہوے تو آیان کی والدہ انتقال کر چکیں تھیں یہ وہی مرگ تھی جسے آیان کے مکار چچا اور چچی نے تخیلآتی کردار زینب کی مرگ بتایا اور سنگ دلوں نے آیان کو والدہ کا آخری دیدار بھی کرنے نا دیا آیان چونکہ تخیلاتی طور پر زینب نامی کردار سے بے حد محبت رکھتا تھا . لہذا آیان گہرےغم سے دو چار ہوا . اب کسی نہ کسی طرح آیان کے ابا بھی حقیقت سے واقف تھے اور اس واقعے سے خاصے پریشان بھی. لہذا انہوں نے آیان کو آیان کی والدہ کی ڈائری اور اس خط کے ہمراہ جو آیان کی والدہ نے آیان کی خالہ کے لئے لکھا تھا آیان کو آیان کی خالہ کیطرف بھیج دیا . یہ دیکھ کر آیان کے چچا اور چچی کو اپنے تمام منصوبے ناکام دکھائی دئیے اور دونوں نے غصے کی حالت میں اپنے بھائی کا قتل کردیا جسے آیان سے چھپایا گیا . اس واقعے کے بعد قانون حرکت میں آیا اور آیان کے چچا چچی کو انکے عمال کی سزاے موت ملی. چونکہ آیان انہی کو حقیقی والدین سمجھتا تھا لہذا اسے اس بات سے ناواقف رکھا گیا اگرچہ اب وہ جوان تھا لیکن اسے یہ ہی بتایا گیا کے اسکے والدین کار حادثےمیں چل بسے اور لاشیں لاپتا ہیں اور اب وہ خودمختار ہے جہاں جانا چاہے جاسکتا ہے. اور یہاں تحریر ختم ہو گیئی . مگر آنزا سمجھ نہیں پا رہی تھی کے آیان کی والدہ کی وفات کے بعد یہ تحریر کون لکھ رہا تھا آنزا اسی سوچ میں مگن تھی کہ اسکی نظر اچانک ڈائری کی جلد میں رکھے اک خط پر پڑی یہ وہی خط تھا جو آیان کی والدہ نے آیان کی خالہ کو لکھا تھا جس میں آیان کی خالہ کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا گیا تھا اور تلقین کی گیئی تھی کہ انکی ڈائری کو انکے بعد میں جو بھی ہو وہ ہوبہو لکھ کر مکمل کر دیا جائے. اب تمام گتھیاں سلجھ چکیں تھیں اور آنزا مکمل طور پر حقیقت جان چکی تھی. ابھی آنزا یہ سوچ ھی رہی تھی کے اس ڈائری کو آیان نے پڑھا ہگا یا نہیں اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی آنزا ہربراہٹ میں ڈائری وہیں چھوڑ گیئی . دروازے پر آیان تھا جو بہت تھکا ہوا دکھای دے رہا تھا آنزا فوراً باورچی خانے میں کھانا پکانے میں مصروف ہوگیی اتنے میں آیان کی آواز ائی آنزا ! یہ خالہ جانی کی ڈائری یہاں کسے آیی ؟ انزا گھبراہٹ کی حالت میں کمرے کی جانب لپکی مگر تب تک آیان نے تحریر پڑھنا شروع کردی تھی . آنزا بہت گھبراہٹ کا شکار تھی کہ آیان کا رد عمل کیا ہگا آیان نے ساری تحریر پڑھی اگرچےیہ سب سمجھنا خاصا مشکل تھا آیان کی آنکھیں اشکبار تھیں اور وہ زار و قطار رو رہا تھا یہ آنزا سے دیکھا نا گیا اور وہ آیان کے گلے لگ گیئی آنزا کی آنکھوں میں بھی آنسوں کا سیلاب تھا اور آیان شرمسار بھی تھا کے اسکی سوچ کی وجہ سے آنزا کو بے انتہا سہنا پرا اور آنزا بس روتی چلی جاری تھی آیان نے آنزا کے ماتھے پر بوسہ دیا اور وعدہ کیا کے وہ ماضی سے نا آشنا تھا مگر اب وہ آنزا کے ہمراہ اک مکمل اور خوشحال گھرانہ بناے گا آنزا کی گالوں پر لالی اور شرماہٹ اس بات کی گواہ تھی کہ وہ بھی ماضی کو بھلا کر نئے آنے والے خوشحال کل کی طرف گامزن ہونا چاہتی ہے. دو سال گزر گیۓ آیان کے مرض کی تشخیص ہوے اور اک سال سے زائد کا عرصہ بیت گیا آیان کو صحت مند خوشحال زندگی جیتے ہوے اور ہاں !! اب آیان اور آنزا کے گھر میں اک ننھا سا عمار بھی ہے اک خوش حال اور مکمل گھرانہ .
........ ختم شد .........
asfand arshad
About the Author: asfand arshad Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.