آپ ﷺ کی سماجی حیثیت کے بارے میں استشراقی زاویہ نگاہ کا ناقدانہ تجزیہ

مستشرقین کا چونکہ مقصد ہی رسول اللہ ﷺ کی ذات پاک کو اور نبوت کو مشکوک بنانا ہےاس لیے یہ لوگ مسلمانوں کے ایمان کو کمزور کرنے اور غیر مسلموں کو اس کی طرف متوجہ ہونے سے روکنے کےلیے ایسے اقدامات کرتےرہتے ہیں۔ مستشرقین کے اس طرح کے اقدامات کا امت محمدی ﷺ نے ہر دور میں منہ توڑ جواب دیا ہے۔
پس منظر:
مستشرقین کا چونکہ مقصد ہی رسول اللہ ﷺ کی ذات پاک کو اور نبوت کو مشکوک بنانا ہےاس لیے یہ لوگ مسلمانوں کے ایمان کو کمزور کرنے اور غیر مسلموں کو اس کی طرف متوجہ ہونے سے روکنے کےلیے ایسے اقدامات کرتےرہتے ہیں۔ مستشرقین کے اس طرح کے اقدامات کا امت محمدی ﷺ نے ہر دور میں منہ توڑ جواب دیا ہے۔
مستشرقین کے اس طرح کے اقدامات میں سے ایک اقدام رسول اللہ ﷺ کی سماجی زندگی کو مشکوک بنانے کے لیے بھی کیا ۔ اس اقدام کے چند اہم نکات مندرجہ ذیل یہ ہیں:

نسل دولت اور امتیاز:
آپ ﷺ نے اعلان کیا کہ انسانی معاشرے میں نہ نسل وجہ امتیاز قرار پاسکتی ہے اور نہ دولت۔ بلکہ انسانی معاشرے میں زیادہ باعزت وہی ہے جس میں انسانی خوبیاں دوسرے انسانوں کی نسبت زیادہ ہوں۔
مگر مستشرقین نے آپ ﷺکے اس فرمان کو غلط رنگ دے کر بیان کیا اور اس پر بہت بحث کی اور یہ چیز ثابت کرنے کی کوشش کی کہ نسل اور دولت کی وجہ سے امتیاز حاصل ہوتا ہے کسی بھی شخص کو۔
معمولی خاندان:
مستشرقین نے یہ بات بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آپ ﷺ معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے انسان کی حیثیت سے تھے۔ (نعوذ باللہ) اور آپ ﷺ کا تعلق معمولی خاندان سے تھا۔ مستشرقین کی ان کوششوں کا مقصد صرف آپ ﷺ کو احساس محرومی کا شکار ثابت کرنا ہے۔ جب کہ حقیقت میں رسول اللہ ﷺ کی ذات پاک تما م عیبوں سے پاک ہے۔ اور آپ ﷺ کا تعلق قریش کے ایک معزز خاندان سے تھا۔
یتیمی کی حالت میں پیدا ہونا:
مستشرقین اس بات کو بھی بنیاد بناتےہیں کہ آپ ﷺ کے سر پر والدین کا سایہ بچپن سےہی نہیں تھا اس وجہ سے آپ ﷺ احساس محرومی کا شکار تھے۔ اور خاموش طبعیت کے مالک تھے۔
رضاعی ماں پر اعتراض:
مستشرقین کی یہ منطق بڑی عجیب ہے کہ وہ کسی بچے کو رضاعی ماں کے سپرد کرنے کو اس بچے کی غربت، بے بسی اور بے کسی کی دلیل قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ بچوں کو رضاعی ماؤں کے حوالے وہی لوگ کرتے ہیں جو رضاعت کے اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
مستشرقین نےاپنےذہین کی ذرخیزی سے اس بات کو جو حضورﷺ کے معزز خاندان کی طرف اشارہ کرتی ہے اس کو آپ ﷺ کی کمزوری بنا کر پیش کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اپنے بچوں کو رضاعت کے لئے دیہاتی علاقوں کی عورتوں کے سپرد کرنا مکہ کے معزز گھرانوں کا معمول تھا اور یہ عمل باعث عزت سمجھا جاتا تھا۔
مہاجرین کے سردار جیسا مقام:
مستشرقین نے صرف حضور ﷺ کی زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہی آپ ﷺ کو معاشی اورر سماجی طور پر کمزور ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہجرت کےبعد جب آپ ﷺمدینہ شریف تشریف لے آئے اس وقت بھی یہ لوگ آپ ﷺ کو مہاجرین کے سردار کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں دیتےتھے۔ مستشرقین نے اپنی ریسرچ میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آپ ﷺ مدینہ میں ایک مہاجر کی حیثیت سے تھے اور اپنے ساتھ ہجرت کرکے آنے والوں کے سردار تھے۔
مشاوارت کو کمزوری ظاہر کرنا:
مستشرقین یہ بھی کہتے ہیں کہ حضور ﷺ اپنی مرضی سے فیصلے نہیں کرسکتے تھے بلکہ فیصلہ کرنے کےلئے آپ ﷺدوسرے سرداروں کے محتاج ہوتے تھے۔ اور آپ ﷺ کی مدنی زندگی کے ابتدائی ایام میں اس سے کم اختیارات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بات غلط ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ کا یہ معمول تھا کہ آپ ﷺ اہم فیصلے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مشورے سے کرتے تھے۔ واقعہ افک اور بنوقریظہ کی قسمت کا فیصلہ بھی آپ ﷺ نے خود نہیں کیا تھا بلکہ اصحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے اس کے بارے میں مشورہ کیا تھا۔
جابر حکمران والی صفت کا نہ ہونا:
مستشرقین کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کی طبعیت میں جابر حکمرانوں والی سختی موجود نہیں تھی۔ اورایسی وجہ سے مدینہ منورہ کے قبائل نے اہم فیصلوں کے اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ کے اختیارات کو محدود کیا ہوا تھا۔ بلکہ یہ ہی نہیں وہ اس طرح کی بہت ساری من گھڑت کہانیاں پیش کرتے ہیں جن کا حقیقت سےکوئی تعلق نہیں ہے۔
مضبوط سیاسی حیثیت:
مستشرقین یہ بھی کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو ابتداء میں مدینہ منورہ میں کوئی خاص حیثیت حاصل نہیں تھی مگر فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ کو مضبوط سیاسی حیثیت ملی تھی۔ یہ بھی ایک بہت بڑا جھوٹ ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اگررسول اللہ ﷺ کو کوئی مضبوط سیاسی حیثیت نہ ملتی تو میثاق مدینہ کیسے ہو سکتا تھا۔
عام درجے کے آدمی:
مستشرقین نے آپ ﷺکو اپنے اعتراضات میں ایک عام درجےکا آدمی ثابت کرنےکی کوشش کی ہے۔ جو ذہنی طور پر احساس کمتری کا شکار ہے جس کے پاس دولت نام کی کوئی چیز نہیں اور وہ اپنے آپ سردار ظاہر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں پیغمبر خدا ہوں۔
مرگی کا مریض:
مستشرقین آپ ﷺ کو مرگی کا مریض ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کے دلوں سے آپ ﷺ کی محبت کو کم کیا جاسکے۔ ایسے لیے یہ لوگ آپ ﷺ کی حیات طیبہ کے مختلف پہلوں پر اعتراضات کرتے ہیں ۔ ان اعتراضات کا بنیادی مقصد صرف اور صرف اسلام دشمنی ہے ۔
 
Hafiz Irfan Ullah Warsi
About the Author: Hafiz Irfan Ullah Warsi Read More Articles by Hafiz Irfan Ullah Warsi: 19 Articles with 283466 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.