استشراقی نظریہ تعداد ازواج کا تحلیلی جائزہ

جب دینِ اسلام کا سورج طلوع ہوا تو انسانی زندگی کے اکثر شعبوں کی طرح یہ شعبہ بھی بغیر کسی قاعدے کلیے کے چل رہا تھا ۔ ایک مرد کی کئی کئی بیویاں تھیں اور ایک عورت کے کئی کئی خاوند ہوتے تھے۔ اس صورت حال کے پیشِ نظر انسانی معاشرہ بہت ساری برائیوں کا شکار تھا۔ یہودیت اور عیسائیت کا زمانہ دین ِ اسلام سے پہلے کا تھا مگر ان دونوں مذاہب کے پیروکاروں نے اس طرح کی معاشرتی برائیوں کا خاتمہ نہیں کیا۔ اور نہ ہی معاشرتی برائیوں کا کوئی ٹھوس حل پیش کیا۔ دینِ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے اس شعبے کے لیے قوانین کو پیش کیا۔ لیکن مستشرقین نے اسلام کی ان نورانی تعلیمات کو اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔
پس منظر:
انسانی نسل کی افزائش اور انسانوں کے باہمی تعلقات کا انحصار مرد اور عورت کے باہمی تعلق پر ہے ۔ کسی معاشرے میں یہ تعلق جتنا مضبوط ہوگا وہ معاشرہ اتنا ہی پر امن اور خیرات وبرکات کا حامل ہوگا۔ اور جس معاشرے میں اس تعلق کی کوئی سمت متعین نہ ہو گی وہ معاشرہ جنگل کی طرح کا ہو گا۔
جب دینِ اسلام کا سورج طلوع ہوا تو انسانی زندگی کے اکثر شعبوں کی طرح یہ شعبہ بھی بغیر کسی قاعدے کلیے کے چل رہا تھا ۔ ایک مرد کی کئی کئی بیویاں تھیں اور ایک عورت کے کئی کئی خاوند ہوتے تھے۔ اس صورت حال کے پیشِ نظر انسانی معاشرہ بہت ساری برائیوں کا شکار تھا۔
یہودیت اور عیسائیت کا زمانہ دین ِ اسلام سے پہلے کا تھا مگر ان دونوں مذاہب کے پیروکاروں نے اس طرح کی معاشرتی برائیوں کا خاتمہ نہیں کیا۔ اور نہ ہی معاشرتی برائیوں کا کوئی ٹھوس حل پیش کیا۔
دینِ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے اس شعبے کے لیے قوانین کو پیش کیا۔ لیکن مستشرقین نے اسلام کی ان نورانی تعلیمات کو اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔
تعداد ازواج سے پہلے دنیا کے حالات:
تعداد ازواج مقرر ہونےسے پہلے ایک مرد کی کئی کئی بیویاں ہوتی تھیں اور ایک عورت کے کئی کئی خاوند ہوتے تھے۔مگر دینِ اسلام نے اس برائی کا خاتمہ اس طرح کیا کہ اس کے لیے تعداد ازواج کا قانون مقرر کردیا۔ جس سے نا صرف معاشرتی برائی کا خاتمہ ہوا بلکہ عورت اور مرد کو بھی اخلاقی زوال سے بچایا گیا۔ مگر اس کے باوجود مستشرقین نے نہ صرف اس قانون کو اعتراضات کا نشانہ بنایا بلکہ اس قانون کے بانی حضرت محمد ﷺ کی ازواج پر اور آپ ﷺ کی ذات اقدس پر اعتراضات کرنا شروع کردیا۔ مستشرقین کے ان اعتراضات کے اہم نکات کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
تعداد ازواج:
تعداد ازواج کے مسئلے پروہ تین پہلوؤں سے حضور ﷺ کی ذات اقدس پر حملہ کرتے ہیں ، جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
 خواہش پررستانہ تعلیم
 ازواج کی تعداد کے قوانین سے انحراف
 منہ بولے بیٹےکی بیوی سے شادی کرنا
خواہش پررستانہ تعلیم:
اولاً: وہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت کو خواہش پررستانہ تعلیم قرار دیتے ہوئے دین ِاسلام کی تعلیمات پر حملہ قرار دیتے ہیں۔
مستشرقین قرآنِ پاک کی اس آیات مبارکہ کو سہارا بناکر کہتے ہیں کہ جن کی پہلے ایک بیوی ہوتی تھی قرآنِ پاک نےانہیں چار بیویاں رکھنےکا حکم دیا ہے اور جس کی پہلے زیادہ بیویاں تھیں ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
مستشرقین نے قرآنِ پاک کی اس آیات کو غلط انداز میں پیش کیا ہے جس کا ہرگز مطلب یہ
نہیں ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو مرد کیسی عورت کو پسند کرتا ہو اس کے ساتھ نکاح کرلیے، اگروہ عورت بھی اس کو پسند کرتی ہے تو۔ مگراس کے علاوہ اس کے ساتھ غیر شریعی حرکات سے دور رہے۔
اہم نقطہ :جب شادی کے تمام مقاصد پورے ہورہے ہوں تو شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جو کسی نئی تدبیر سے گھر کے اس رشک جنت ماحول کو خراب کرئے جو اسلامی تعلیمات کے مطابق مرتب ہوا ہو۔ اس صورت حال میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت بھی اسے دوسرے نکاح کی طرف مائل نہیں کرسکتی۔
دینِ اسلام نے تعداد ازواج کی اجازت دیتے وقت مرد اور عورت کے حالات کو بھی پیش ِ نظر رکھا ہے اور پورے معاشرے کے حالات کو بھی۔ مستشرقین دینِ اسلام کے اس حکیمانہ رویے سے خوش نہیں اور وہ تعداد ازواج کے رحیمانہ قانون کی وجہ سے دینِ اسلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ دین اپنے پیروکاروں کوخواہش پرستی کی تعلیم دیتا ہے۔
ازواج کی تعداد کے قوانین سے انحراف:
ثانیاً: وہ حضور ﷺ پر یہ اعتراض کرتےہیں کہ آپ ﷺ نے اپنی امت کے مردوں کے لئے بیویوں کی جو حد مقرر کی ،آپ ﷺ نے خود اس پر عمل نہیں کیااور اپنے لیے بیویوں کی تعداد کی کسی حدکو قبول نہیں کیا۔
دستور حیات:
اللہ تعالیٰ عزوجل نے حضور ﷺ پر انسانیت کے لئے ایک دستور حیات نازل فرمایا جس کی روشنی میں سفر کرکے وہ اپنی منزل مقصود کو پا سکے۔ اس دستور حیات کے قوانین عام انسانوں کی دنیوی اور اخروی کامیابی کی ضمانت تھے لیکن حضور ﷺ کی ذمہ داری چونکہ اپنی امت کے ہر فرد کی ذمہ داری سے کہیں زیادہ کٹھن تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے کچھ قوانین ایسے نازل فرمائے جو آپ کے لئے خاص تھے اور امت ان قوانین سے مستثنٰی تھی۔
حضور ﷺ کی بیویوں کی تعداد اور مستشرقین:
مستشرقین کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ حضور ﷺ نے اپنی امت کےلئے تو بیویوں کی تعداد کی حد مقرر کردی تھی اور آپ ﷺکے کسی امتی کو چار سے زیادہ عورتوں کو اپنے نکاح میں جمع کرنے کی اجازت نہ تھی۔ لیکن آپ ﷺ نے خود اس پابندی کو قبول نہ کیا اور جن عورتوں سے اور جتنی عورتوں سے چاہا شادی کرلی۔
حضور ﷺ کے لئے ازواج کے یہ قوانین اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام ِ پاک میں نازل فرمائے ہیں۔ یہ قوانین حضور ﷺ نے اپنی مرضی سے نہیں گھڑےتھے۔ لیکن مستشرقین چونکہ قرآن پاک کو حضورﷺ کے ذہن کی ایجاد قرار دیتے ہیں اس لئے وہ آپ ﷺ پر یہ الزام لگاتےہیں کہ آپ ﷺنے اپنی خواہشات کی تسکین کے لئے بیویوں کی تعداد کی اس حد کو نظر انداز کر دیا جو آپ ﷺ نے خود اپنی امت کے لیے مقرر کی تھی۔
یہ نہیں بلکہ اپنی خواہش پرستی کو جواز مہیا کرنے کے لئے وحی کا سہارا لیا اور یہ دعویٰ کیا کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی اجازت ملی ہےکہ آپ ﷺ جتنی عورتوں سے چاہیں شادی کرلیں۔ اگر ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے پر کسی انسان کے خلاف جنس پرستی کا الزام لگتا ہے تو یہ الزام پھر اُن لوگوں پر لگنا چاہیے جنہوں نے ایک سے زیادہ عورتوں کو اپنی زوجیت میں جمع کیا تھا۔
منہ بولے بیٹےکی بیوی سے شادی کرنا:
ثالثاً: وہ حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضورﷺ کی شادی کو ایک افسانہ محبت بناکر پیش کرتے ہیں اور اس طرح سے آپ ﷺ کو بندہ خواہشات ثابت کرنے کی کوشش کرتےہیں۔
حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا:
مستشرقین نے حضور ﷺ کی شادیوں کے سلسلے میں سب سے زیادہ اعتراض حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ آپ ﷺ کے نکاح کے متعلق کیا ہے۔ انہوں نے اس تاریخی واقعہ کو افسانوی رنگ دے کر لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے اور اسکے ذریعے مسلمانوں کے دلوں سےحضور ﷺ کی عظمت کے نقوش کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔
مُنہ بولا بیٹا اور عرب کا رواج:
حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ ﷺ کے منہ بولے بیٹے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طلاق یافتہ بیوی تھیں۔ جو حضورﷺ کے منہ بولے بیٹے تھے۔ عربوں کےنزدیک منہ بولا بیٹا بھی حقیقی بیٹے جیسا ہوتا ہے اس لیے آپ ﷺ اس سے شادی نہیں کرسکتے تھے۔
مگر حقیقت کچھ یوں تھی کہ اللہ تعالیٰ عزوجل نے آپ ﷺ کو حکم دیا کہ آپ ﷺ اپنے منہ بولے بیٹے کی طلاق یافتہ بیوی سے شادی کریں اور زمانہ جاہلیت کی اس رسم کو ختم کردیں۔
 
Hafiz Irfan Ullah Warsi
About the Author: Hafiz Irfan Ullah Warsi Read More Articles by Hafiz Irfan Ullah Warsi: 19 Articles with 283461 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.