جس طرح شب قدر کا ادراک مشکل ہے اسی طرح اس کی منزلت کو
سمجھنا بھی دشوار امر ہے جس کی حقیقت کو صرف وہی لو گ بیان کر سکتے ہیں
جنہیں اس شب کا ادراک ہو چکا ہو ، کیوں کہ قرآن پیغمبر اکرم کو مخاطب کر کے
فرماتا ہے : "وما ادراک ما لیلۃ القدر " اے پیغمبر! آپ کو کیا معلوم شب قدر
کیا ہے ؟
اس کی عظمت کےلئے یہی کافی ہے کہ یہ رات "ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے "
ہزار مہینہ تریاسی سال بنتے ہیں یعنی ایک رات کی عبادت تریاسی سالوں کی
عبادت سے افضل ہے اس کے علاوہ بھی اس کی دیگر فضیلتیں ہیں جن میں سے چند
فضیلتیں مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ قرآن کا نزول
پروردگار عالم کی سب سے باعظمت جامع و کامل کتاب جسے ہمیشہ باقی رہنا ہے وہ
اسی شب میں نازل ہوئی جیسا کہ قرآن گواہی دیتا ہے : " شہر رمضان الذی انزل
فیہ القرآن " (ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ) لیکن
رمضان کی کس شب میں قرآن نازل ہوا ؟ اس کا بیان دوسری آیت میں ہے " انا
انزلناہ فی لیلۃ مبارکہ "( بیشک!ہم نے قرآن کو بابرکت رات میں نازل کیا )
اور سورہ قدر میں اس بابرکت رات کو اس طرح بیان کیا " انا انزلناہ فی لیلۃ
القدر "(بیشک! ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ) لہٰذا یہ کہنا
بالکل بجا ہے کہ قرآن کے نزول نے بھی اس شب کی عظمت میں اضافہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ قرآن کا یہ نزول دو طرح کا رہا ہے ایک نزول دفعی یعنی ایک بار
نازل ہوا۔ شب قدر میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک
پر ایک ساتھ نازل ہوا ہے اور دوسرا نزول ، نزول تدریجی ہے جو کہ پیغمبر
اکرم( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چالیس کی عمر میں بعثت کے دن نازل ہونا
شروع ہوا اور آنحضرت کی عمر مبارک کے 63 ویں سال تک نازل ہوتا رہا ہے، جوکہ
23 سال نازل ہوتا رہا ہے۔ یعنی قرآن ایک ساتھ ایک بار شب قدر میں نازل ہوا
ہے اور دوسری مرتبہ 23 سال آہستہ آةستہ نازل ہوتا رہا ہے۔
۲۔ تقدیر کا معین کرن
اس شب کو لیلۃ القدر کہنے کی وجہ کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں ان
میں سے ایک یہ ہے کہ یہ رات با برکت و با عظمت ہے " لیلۃ العظم"اور قرآن
مجید میں لفظ قدر عظمت و منزلت کےلئے استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت میں ہے "
ما قدروا اللہ حق قدرہ " (انھوں نے اللہ کی عظمت کو اس طرح نہ پہچانا جس
طرح پہچاننا چاہئے )
قدر کے معنی تقدیر اور اندازہ گیری اور منظم کرنے کے ہیں ، اس معنی کو بھی
اہل لغت نے بیان کیا ہے قرآن و روایات میں بھی یہ لفظ اس معنی میں استعمال
ہوا ہے ،راغب اصفہانی کہتے ہیں : " لیلۃ القدر ای لیلۃ قیضھا لامور مخصوصہ
" شب قدر یعنی وہ رات جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مخصوص امور کی تنظیم و
تعیین کے لئے آمادہ کیا ہے ، قرآن کریم بھی ارشاد فرماتا ہے " یفرق کل امر
حکیم ( ہر کام خداوند عالم کی حکمت کے مطابق معین و منظم کیا جاتا ہے )
امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ہیں : " یقدر فیھا ما یکون فی السنة من
خیر او شر او مضرلاو منفعہ او رزق او اجل و لذالک سمیت لیلۃ القدر " ( شب
قدر میں جو بھی سال میں واقع ہونے والا ہے سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے نیکی
،برائی ، نفع و نقصان ،رزق اور موت اسی لئے اس رات کو لیلۃ القدر کہا جاتا
ہے )
اللہ نے انسان کو اپنی تقدیر بنانے یا بگاڑنے کا اختیار خود انسان کے ہاتھ
دیا ہے وہ سعادت کی زندگی حاصل کرنا چاہے گا اسے مل جائے گی وہ شقاوت کی
زندگی چاہے گا اسے حاصل ہو جائے گی۔ <<یا ایھا النّاس انّما بغیکم علی
انفسکم>> (یونس:23) لوگو! اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ تمہاری سرکشی صرف
تمہیں نقصان پہنچائے گی۔ جو کوئی سعادت کا طلبگار ہے وہ شب قدر میں صدق دل
کےساتھ اللہ کی بار گاہ میں توبہ کرے، برائیوں اور برے اعمال سے بیزاری کا
عہد کرے گا۔
اللہ سے اپنے خطاﺅں کے بارے میں دعا اور راز و نیاز کے ذریعہ معافی مانگے
گا یقینا اس کی تقدیر بدل جائےگی اور امام زماں (ارواحنا فداہ) اس تقدیر کی
تائید کریں گے۔ اور جو کوئی شقاوت کی زندگی چاہے وہ شب قدر میں توبہ کرنے
کے بجائے گناہ کرے ، یا توبہ کرنے سے پرہیز کرے ، تلاوت قرآن ، دعا اور
نماز کو اہمیت نہیں دے گا ، اسطرح اس کے نامہ اعمال سیاہ ہوں گے اور یقینا
امام زماں (ارواحنا فداہ) اسکی تقدیر کی تائید کریں گے۔
جو کوئی عمر بھر شب قدر میں سال بھر کےلئے سعادت اور خوشبختی کی تقدیر طلب
کرنے میں کامیاب ہوا ہوگا وہ اسکی حفاظت اور اس میں اپنے لئے بلند درجات
حاصل کرنے میں قدم بڑھائے گا اور جس نے شقاوت اور بد بختی کی تقدیر کو
اختیار کیا ہوا وہ توبہ نہ کرکے بدبختی کی زندگی میں اضافہ کرے گا۔
شب قدر کے بارے میں اللہ نے تریاسی سالوں سے افضل ہونے کےساتھ ساتھ اس رات
کو سلامتی اور خیر برکت کی رات قرار دیا ہے۔ << سلام ھی حتی مطلع الفجر>>
اس رات میں صبح ہونے تک سلامتی ہی سلامتی ہے اس لئے اس رات میں انسان اپنے
لئے دنیا اور آخرت کے لئے خیر و برکت طلب کرسکتا ہے۔
اگر دل کو شب قدر کی عظمت اور بزرگی کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوتے
ہیں۔ جس شب کے بارے میں اللہ ملائکہ سے کہہ رہا ہے کہ جاو اور فریاد کرو کہ
کیا کوئی حاجت مند، مشکلات میں مبتلا ، گناہوں میں گرفتار بندہ ہے جسے اس
شب کے طفیل بخش دیا جائے ؟ اگر اس نقطے کی طرف توجہ کرنے میں کامیاب ہوتے
ہیں کہ یہ رات ایک عمر بھر کی مخلصانہ عمل سے افضل ہے۔
اس بات کو نہیں بھولتے ہیں کہ یہ رات تقدیر لکھنے کی رات ہے۔ یہی وہ رات ہے
جس میں بندہ اللہ کی نظر رحمت کو اپنی طرف جلب کرکے سعادت دنیا اور آخرت
حاصل کرسکتا ہے تو یقینا ہمیں شب قدر کے ثواب حاصل ہوں گے۔ اس لئے ہمیں
چاہیئے فراخدلی کےساتھ اللہ کی بارگاہ میں تمام عالم کےلئے دعا کریں کہ اے
اللہ تم اسے بھی عطا کرتے ہو جو تمہیں مانتا ہے اور اسے بھی عطا کرتا ہے جو
تمہیں انکار کرتا ہے اس شب کے طفیل ہم سب کو صراط المستقیم کی طرف ہدایت
فرما۔
دنیا کے جس کونے میں جو کوئی بھی ظالم کے چنگل میں پھنسا ہے اسے آزادی نصیب
فرما۔ عالم اسلام کے مشکلات کو برطرف فرما۔ فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کو
عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہونے کےلئے راہ ہموار فرما۔ اسی طرح جامع الفاظ
میں اللہ کی بارگاہ میں درخواست کریں کہ ہم سب کا دنیا اور آخرت آباد
فرمائے۔ یہی تو رات ہے جس میں ہم سب اپنے اور دوسروں کےلئے سعادت اور
خوشبختی طلب کرسکتے ہیں۔
۳۔ لیلۃ القدر دلیل امامت
شب قدر کو شب امامت اور ولایت بھی کہا جاتا ہے کیونکہ خود قرآن کہتا ہے کہ
اس رات میں فرشتے ، ملائکہ اور ملائکہ سے اعظم ملک روح بھی نازل ہوتے ہیں۔
اس نقطے کو سمجھنا ضروری ہے کہ نازل ہوتے ہیں ، نازل ہوئے نہیں۔
کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے : << تنزّل الملائکة والروح فیھ>> تنزل فعل
مضارع ہے یعنی نازل ہوتے ہیں نازل ہوئے نہیں کہا گیا ہے۔ تو یہ جاننا ضروری
ہے کہ کس پر نازل ہوتے ہیں۔ آپ اور مجھ پر تو فرشتے نازل نہیں ہوتے ہیں۔
پیغمبر( اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں تو آنحضرت پر نازل
ہوتے تھے آنحضرت کے بعد کس پر نازل ہوتے ہیں؟
ظاہر سی بات ہے اس پر نازل ہوں گے جو پیغمبر کے بعد پیغمبر کا جانشین ہوگا
، جو معصوم ہوگا ، جو صاحب ولایت ہو۔جی ہاں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم) کے بعد حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام پر نازل ہوتے تھے اور
حضرت علی علیہ السلام کے بعد حضرت حسن مجتبیٰ اور آپ کے بعد حضرت حسین اور
آپ کے بعدحضرت علی زین العابدین اور آپ کے بعد حضرت محمد باقر اور آپ کے
بعد حضرت جعفر صادق اور آپ کے بعد حضرت موسی کاظم اور آپ کے بعد حضرت علی
الرضا اور آپ بعد حضرت محمد نقی جواد اور آپ کے بعد علی النقی اور آپ کے
بعد حسن عسکری علیہم السلام اور آپ کے بعد قطب عالم امکان مہدی آخر الزمان
(ارواحنافداہ) کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں <<تنزّل الملائکة >> اور انسانوں
کے سال بھر کے مقدرات بیان کرتے ہیں۔
شب قدر امامت اور اس کی بقاءاور جاودانگی پر سب سے بڑی دلیل ہے ، متعدد
روایات میں وارد ہوا ہے کہ شب قدر ہر زمانے میں امام کے وجود پر بہترین
دلیل ہے اس لئے سورہ قدر کو اہلبیت ؑ کی پہچان کہا جاتا ہے ،جیسا کہ بعض
روایات میں بھی وارد ہوا ہے۔
امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ مولائے کائنات اکثر فرمایا کرتے تھے
: جب بھی تیمی اور عدوی (ابوبکر و عمر) پیغمبر کے پاس ایک ساتھ آتے تو
پیغمبر اکرم ان کے سامنے سورہ انا انزلناہ کی تلاوت بڑے خضوع کےساتھ فرماتے
اور گریہ کرتے تھے ، وہ پوچھتے تھے کہ آپ پر اتنی رقت کیوں طاری ہوتی ہے تو
پیغمبر اکرم فرماتے کہ ان باتوں کی وجہ سے جنہیں ہماری آنکھوں نے دیکھا اور
میرے دل نے سمجھا ہے اور اس بات کی وجہ سے جسے یہ (علی علیہ السلام ) ہمارے
بعد دیکھیں گے ، وہ پوچھتے کہ آپ نے کیا دیکھا ہے اور یہ کیا دیکھیں گے ؟
پیغمبر نے انھیں لکھ کر دیا " تنزل الملائکة والروح فیھا باذن ربھم من کل
امر " ( ملائک اور روح اس رات میں خداوند عالم کے اذن سے ہر کام کی تقدیر
کےلئے نازل ہوتے ہیں ) پھر پیغمبر نے دریافت کیا کہ کیا "کل امر" (ہر کام )
کے بعد کوئی کام باقی رہ جاتا ہے ؟ وہ کہتے تھے نہیں ، پھر حضرت فرماتے تھے
: کیا تمہیں معلوم ہے کہ جس پر تمام امور نازل ہوتے ہیں وہ کون ہے ؟ وہ
کہتے کہ ،آپ ہیں یا رسول اللہ!
پھر رسول سوال کرتے کہ کیا میرے بعد شب قدر رہے گی یا نہیں ؟ وہ کہتے تھے ،
ہاں !
رسول پوچھتے کہ کیا میرے بعد بھی یہ امر نازل ہوں گے ؟ وہ کہتے تھے ہاں !
پھر رسول پوچھتے کہ کس پر نازل ہوں گے ؟ وہ کہتے کہ ہم نہیں جانتے۔ پھر
حضرت میرا (علی )سر پکڑتے اور میرے سر پر اپنا ہاتھ رکھ کر فرماتے : اگر
نہیں جانتے تو جان لو ! وہ شخص یہ ہے۔
پھر مولائے کائنات نے فرمایا: اس کے بعد یہ دونوں پیغمبر اکرم کے بعد بھی
شب قدر میں خوفزدہ رہا کرتے تھے اور شب قدر کی اس منزلت کو جانتے تھے
ایک دوسرے مقام پر علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ در حقیقت شب قدر ہر سال
آتی ہے اور امر خدا ہر سال نازل ہوتا ہے اور اس امر کےلئے صاحب الامر بھی
موجود ہے۔
جب دریافت کیا گیا کہ وہ صاحب الامر کون ہے تو آپ ؑ نے فرمایا : " انا و
احد عشر من صلبی ائمة محدثون " ( میں اور میرے صلب سے گیارہ دیگر ائمہ جو
محدث ہیں ) محدِّث یعنی ملائکہ کو آنکھوں سے نہیں دیکھتے لیکن ان کی آواز
سنتے ہیں۔
اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ شب قدر شب ولایت اور امامت ہے اور جن
روایات میں شب قدر کی تفسیر فاطمہ زہراالسلا م علیہ سے کی گئی ہے ان کا بھی
معنی ٰ واضح ہے کہ شب قدر ولایت اور امامت کی شب ہے اور امامت و ولایت کی
حقیقت فاطمہ زہرا ؑکی ذات گرامی ہے۔
۴۔ گناہوں کی بخشش
شب قدر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں گناہگاروں کی بخشش ہوتی ہے لہٰذا
کوشش کریں کہ اس عظیم شب کے فیض سے محروم نہ رہیں، وائے ہو ایسے شخص پر جو
اس رات میں بھی مغفرت و رحمت الٰہی سے محروم رہ جائے جیسا کہ رسول اکرم کا
ارشاد گرامی ہے : "من ادرک لیلۃ القدر فلم یغفر لہ فابعدہ اللہ جو شخص شب
قدر کودرک کرے اور اس کے گناہ نہ بخشے جائیں اسے خداوند عالم اپنی رحمت سے
دور کر دیتا ہے۔
ایک اور روایت میں اس طرح وارد ہوا ہے " من حرمھا فقد حرم الخیر کلہ ولا
یحرم خیرھا الا محروم " جو بھی شب قدر کے فیض سے محروم رہ جائے وہ تمام
نیکیوں سے محروم ہے ، اس شب کے فیض سے وہی محروم ہوتا ہے جو خود کو رحمت
خدا سے محروم کر لے۔
بحارالانوار کی ایک روایت میں پیغمبر اکرم سے اس طرح منقول ہے : " من صلّیٰ
لیلۃ القدر ایماناً و احتساباً غفر اللہ ما تقدم من ذنبہ "
جو بھی اس شب میں ایمان و اخلاص کےساتھ نماز پڑھے گا خداوند ر حمن اس کے
گزشتہ گناہوں کو معاف کر دے گا۔
شب قدر کے بہترین اعمال کیا ہیں؟
شب قدر کے اعمال بہت سارے ہیں یہاں پرہم بعض کاتذکرہ کریں گے۔
الف : شب قدر کی فرصت کو غنیمت سمجھنا۔
خداوند معتال نے قرآن کریم میں حضرت رسول اکرم سے مخاطب ہو کر فرمایا :
'' انّاانزلناہ فی لیلۃ القدر، وما ادراک ما لیلۃ القدر'' ''ہم نے قرآن کو
شب قدر نازل میں کیا ہے مگر آپ کیا جانتے ہیں کہ شب قدر کیا ہے ؟ ''
شب قدر کی فضیلت کےلئے اتنا کافی ہے کہ یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس
شب میں انسان کی تقدیر لکھی جاتی ہے اور جو انسان اس سے با خبر ہو وہ زیادہ
ہو شیاری سے اس قیمتی وقت سے استفادہ کرے گا۔لہٰذا شب قدر کے بہترین اعمال
میں سے ایک عمل یہی ہے کہ انسان اس فرصت کو غنیمت سمجھے یہ فرصت انسان کو
ہر بار نہیں ملتی ہے۔
(ب) توبہ :
اس شب کے بہترین اعمال میں سے ایک عمل توبہ ہے جیسا کہ شہید مطہری فرماتے
ہیں: خدا کی قسم ایک ورزش ایک دن کی ہے اس کا ایک گھنٹہ ایک گھنٹہ ہے اگر
ایک رات کی تاخیر کریں تو اشتباہ کیا، ایسا مت کہے کہ کل کی رات شب قدر کی
ایک رات ہے اور توبہ کےلئے بہتر ہے کہ نہیں۔آج کی رات کل کی رات سے بہتر ہے
آج کا ایک گھنٹہ آنےوالے کل کے گھنٹہ سے بہتر ہے ہر ایک لمحہ آنےوالے لمحہ
سے بہتر ہے عبادت توبہ کے بغیرقبول نہیں ہوتی پہلے توبہ کرلینا چاہیے ،پہلے
اپنے آپ کو دھونا چاہیے پھر اس پاک و پاکیزہ جگہ میں وارد ہونا چاہیے ہم تو
بہ نہیں کرتے ہیں تو کیسی عبادت کرتے ہیں ؟ !ہم توبہ نہیں کرتے ہیں اور
روزہ رکھتے ہیں ؟! توبہ نہیں کرتے ہیں اورنماز پڑھتے ہیں ؟!توبہ نہیں کرتے
ہیں اورحج پر چلے جاتے ہیں ؟! توبہ نہیں کرتے ہیںاور قرآن پڑھتے ہیں ؟!
توبہ نہیں کرتے ہیںاورذکر کہتے ہیں؟! توبہ نہیں کرتے ہیں اور ذکر کی مجلسوں
میں شرکت کرتے ہیں ! خدا کی قسم اگر آپ پاک ہونے کےلئے ایک توبہ کریں تاکہ
پھر توبہ اور پاکیزکی کی حالت میں ایک دن اور ایک رات نماز پڑھیں وہی ایک
دن رات کی عبادت آپ کو دس سال آگے بڑھائے گی اور پروردگا کے مقام قرب کے
قریب پہنچائے گی ہم نے دعا کے سوراخ کو گم کیا ہے اور اس کے راستے کو بھی
نہیں جانتے ہیں۔ امام علی توبہ کے چھ رکن بیان کرتے ہیں :
۔ اپنے گناہوں پر پشیمان ہونا۔
۔ ارادہ کرے کہ اب دوبارہ کبھی بھی گناہ نہیں کرے گا۔
۔ حقوق الناس ادا کرنا۔
۔ حقوق الہٰی ادا کرنا۔
۔ جو گوشت رزق حرام سے بدن پر چڑھا ہے وہ پگھل کے رزق حلال سے نیا گوشت بدن
پر چڑھے۔
۔ جس طرح بدن نے گناہوں کا مزہ چکھا ہے اس طرح اطاعت کا مزہ چکھنا چاہیے پس
اسی صورت میں خدا نہ صرف اس کو دوست رکھتا ہے بلکہ اپنے محبوب بندوں میں
اسے قرار دیتا ہے۔
(ج)دعا:
اب جبکہ بندہ گمراہی اور ضلالت کے راستے کو چھوڑ کے ہدایت اور نور کے راستے
کی طرف چل پڑا ہے اور اپنے خدا کی جانب روا ںدو اںہے اب خدا کو پکارے اور
اس کے ساتھ ارتباط بر قرار کرے دعا کرے دعا کے اصل معنی یہی ہیں کہ انسان
اپنے دل کا حال بیان کرکے در واقع خدا سے ارتباط پیدا کرے۔
(د) تفکر اور معرفت :
اس کے بعد کہ انسان نے فرصت کو غنیمت سمجھ کے اپنے افکار اور اعمال کے
اشتباہات سے واقفیت حاصل کرکے یہ ارادہ کر لیا کہ اب کبھی بھی گناہ نہیں
کرے گا اپنی اصلاح کرے گا دل شناحت اور معرفت کےلئے آمادہ ہوجاتا ہے اور
اللہ تعالیٰ کی معرفت سب سے بڑی معرفت ہے اور اس سے دل نوارنی ہو جاتا ہے
اور حقیقی معرفت انسان کو بندگی کے اعلیٰ مرتبے تک پہنچا کے خلافت الہٰی کا
وارث بنا دیتی ہے البتہ خود شناسی اس معرفت حقیقی کےلئے پیش خیمہ ہے جیسا
کہ حدیث میں بھی آیا ہے: '' من عرف نفسہ فقد عرف ربہ '' یعنی خود شناسی
خداشناسی کا سبب بنتی ہے۔([1] - سورہ بقرہ ،آیت / ۱۸۵،[2] - سورہ دخان ،
آیت/ ۳[3] - سورہ قدر ،آیت / ۱[4] - مجمع البیان ،ج/۱، ص/۵۱۸
[5] - سورہ حج ،آیت/ ۷۴[6] - المفردات فی غریب القرآن ، ص/۳۹۵[7] - سورہ
دخان ،آیت / ۴[8] - وسائل الشیعہ ،ج/۷،ص/۲۵۹[9] - عیون اخبار الرضا، ج/۲،
ص/۱۱۶[10] - اصول کافی ،ج/۱ص/۳۶۳،۳۶۴ ترجمہ سید جواد مصطفوی
[11] - اثبات الھداة ، ج/۲، ص/۲۵۶[12] - بحارالانوار ،ج/۹۴ ص/۸۰ حدیث نمبر
۴۷[13] - کنز العمال متقی ہندی ، ج / ۸ص /۵۳۴ حدیث نمبر ،۲۸ و ۲۴[14] -
بحارالانوار ،ج/۹۳ ،ص/۳۶۶ ، حدیث ۴۲[15] - نہج البلاغہ، [16] - شب قدر
،پاسخھای دانشجوئی) |