مذہب اسلام دنیائے انسانیت کا وہ آفاقی اور ہمہ گیر مذہب
ہے جس کی اہمیت وفوقیت پوری دنیا پر مسلم ہے اس کی تمام تر تعلیمات رشد
وہدایت ،خیر خواہی ،آپسی الفت ومحبت اوربھائی چارگی کاپیش خیمہ ہیں،نبی
آخرالزماںﷺکی سیرت اوراخلاق وکردار اس جوہر نابدار سے پر ہے ،آپ کی سیرت
کا مطالعہ کرنے والے صاحب شعور افراد اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ نبی کی
پوری زندگی صلح وآشتی ،امن وسلامتی اور رحمت و شفقت کی ایک بہترین مثال ہے
،آپ نے اپنوں کے علاوہ غیروں کے ساتھ بھی الفت و محبت کاوہ اعلیٰ نمونہ
پیش کیا ہے جس سے کفا ر ومشرکین کا ایک بڑا طبقہ متائثر ہوئے بغیرنہ رہ سکا
جس کی اعلیٰ مثال ابوسفیان کا وہ قول ہے جو انہوں نے نجاشی کے دربار میں
کہاتھا انہیں ستودہ صفات اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے کفار ومشرکین آج بھی
آپ کی شخصیت کے معترف ہیں ،آپ دنیائے انسانیت پرجن صفات حمیدہ سے متصف
تھے کہ دنیا آج تک ایسا بشر اپنی نظروں سے دیکھنے سے قاصر ہے ، آپ لوگوں
کے لئے ایک أیڈئیل ، اسوہ اورنمونہ کی حیثیت رکھتے تھے آپ کی سیرت دنیا
کے لئے ایک انمول تحفہ اور خدائے ذولجلال کی طرف سے ایک عظیم نعمت تھی،آپ
نےاپنےامیروں،غریبوں ، فقیروں، بوڑھوں ،بچوں، عورتوں، قیدیوں، غلاموںحتیٰ
کہ جانوروں کے ساتھ بھی ایسا ہمدردانہ اور مشفقانہ سلوک کیاجسے دیکھ کر
دنیادنگ رہ گئی اور انہیں میں سے باشعورافراد کا ایک بڑا طبقہ حلقہ بگوش
اسلام ہوگیا ۔آپ کی پوری زندگی اخوت و بھائی چارگی اورعدل وانصاف سے لبریز
ہے ،ہجرت مدینہ کے بعد انصار ومہاجرین کے درمیان مواخات اور بھائی چارگی اس
کی زندہ جاوید مثال ہے جسے دیکھ کر اہل عرب انگشت بدنداں رہ گئے غرض کہ
اسلام کا کوئی بھی اصول فطرکے مخالف نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اس دین کو دین
رحمت اور اس کے حامل شخصیت کو رحمۃ للعالمین کے عزو شرف سے نوازاگیا ،
چنانچہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے
مترادف قرار دیتاہےاور ایک انسان کی جان کی حفاظت کی صورت میں ساری انسانیت
کو زندگی بخشنے کی خوشخبری دی ہے،انہیں عظیم اسلامی تعلیمات کا خاصہ ہے کہ
اسلام نے بدامنی پھیلاکرمعاشرہ و سماج کے چین وسکون کو چھیننے والوں کے لئے
سخت سزا متعین کی ہے:﴿إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللہ َ
وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُواْ أَوْ
يُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلافٍ
أَوْ يُنفَوْاْ مِنَ الأَرْضِ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾
’’کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد
پھیلانے میں لگے رہتے ہیں ان کا بدلہ یہ ہے کہ انہیں قتل کردیاجائے ،یا
انہیں سولی پر لٹکا دیاجائے ،یا ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوںسے کاٹ
دئیے جائیں،یا انھیں جلا وطن کردیاجائے یہ رسوائی ان کے لئے دنیامیں ہے اور
آخرت میں انھیں عذاب عظیم دیاجائےگا‘‘۔
ان عظیم اورسخت قوانین کے بعدمذہب اسلام ملک وسماج میں انتہاپسندی اور دہشت
گردی کاجواز کیسے دے سکتاہے؟ بے قصوروںاورمعصوموں کے جان سے ہولی کھیلنے،
نہتھوں پر وار کرنے اور خواتین کے ساتھ درندگی کامظاہرہ کرنے کا جواز کیسے
پیش کرسکتاہے ؟جب کہ یہی وہ مذہب ہے جس کی آفاقی تعلیم ہر خاص وعام کے لئے
واضح اورعام ہےاور انسان تو کجا ایک جانور کے ساتھ الفت ومحبت کاوہ والہانہ
جذبہ پیش کرتاہے کہ ایک بلی کو جان سے ماردینے کی صورت میں جہنم کی وعید
اور کتے کو پانی پلا دینے کی صورت میں جنت کی بشارت دیتاہے ۔
لیکن افسوس کہ آج کے اس پرفتن وپرآشوب دور میں ان تمام واضح تعلیمات کے
باوجودہرمسلمان اور صاحب لحیہ تمام اقوام باطلہ کی نگاہ میںانتہا پسند نظر
آتاہے، ہر دن مسلمانوںکے خلاف کوئی نہ کوئی لسانی یا عملی پروپیگنڈہ پیدا
کرکے ان کی شبیہ کو مجروح کیا جاتاہے ،کبھی اکل حلا ل پر پابندی لگائی جاتی
ہے تو کبھی داعش ، ا ور انڈین مجاہدین جیسے خود ساختہ گروہ میں شامل کرکے
اسلام اور اہل اسلام کی دھجیاں ادھیڑتے ہیں ، کبھی وطن عزیز کےانتہا پسند
نیتائوں کے رذیل بیان کے ذیعہ مسلمانوںکے جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے اور
اگر ان کے جواب میں کوئی حق گو لب کشائی کردے تو زمین کو سر پر اٹھا کر ان
کا ناطقہ بند کرنے کا ہر حربہ استعمال کیاجاتاہے ۔ اور عالمی پیمانے صہیونی
اشاروںپر یورپ اورامریکہ بغض وکینہ سے آلود کوئی نہ کوئی فتنہ ہمیشہ
اٹھاتے رہتے ہیں، کبھی کارٹون کی شکل میں، کبھی تصویراور فلموں کے ذریعہ،
کبھی ناول کے روپ میں، کبھی سی ڈی کے پیکر میں،کبھی امہات المومین کی
شخصیات کو مجروح کرنے، کبھی قرآن کو جلانےاور اس کی بے حرمتی کی صورت
میںمسلمانوں کے جذبات کو بھڑکایا جاتاہے اور اسلام دشمنی میں سلمان رشدی
جیسے گھٹیا ناول نگار کو اعلیٰ اعزاز دے کر اپنے مسموم وملعون فکر وقلم سے
اہلِ اسلام کو تکلیف پہنچایاجاتاہے ۔ توکبھی تسلیمہ نسرین جیسی فحاشہ
وملعونہ کو سر پر بٹھاکر مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کیا جاتاہے غرض اینکہ
اسلام اور مسلمانوںکوبدنام کرنے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیاجاتا۔ اور
ملک میں کہیں بھی کسی بھی حادثےکا سہراسوچ سمجھ کریاسازشی طور پرانڈین
مجاہدین،اورطالبان وداعش کے سروں پر ڈال دیاجاتاہے ،جن تنظیموں کا گرچہ
اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ،پھربھی نام کی مشابہ رکھ کر مسلم اور اسلامی
دہشت گردی سے موسوم کردیاجاتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ اور اس کی
ہمنوا حکومتیںاور خبر رساں ایجنسیاں اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح بڑے شدومد
سے استعمال کررہی ہیں اسلام دشمن طاقتیں اپنے اس بے بنیاد اور غلط
پروپیگنڈہ کے ذریعہ عالمی برادری کو یہ باور کرانا چاہتی ہیں کہ عصر حاضر
میں امن عالم کے لیے سب سے بڑا خطرہ اسلام اور اسکے پیرو کارہیں، افسوس و
حیرت تو اس پر ہے کہ اہنسا کادعویدار ہندوستان بھی اپنے حکمرانوں کے غلط
افکار کی بناء پر آج امریکہ و اسرائیل کی اسلام مخالف سرگرمیوں میں ان کا
ہم نوا اور شریک کار بناہوا ہے۔جس کی وجہ سے آج ہر لیڈر اپنی سطح سے اسلام
اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دے کر اور مسلمانوں کے خلاف
مسموم فضا ہموار کرکے وطن عزیز کو اہل اسلام کے لئے تنگ کرنےکی کوشش کرتاہے
جس کے سبب ہر طرف عدم رواداری کا ماحول بنا ہوا ہے اور وطن کے غیور و انصاف
پسند افراد اسکے خلاف زبا ن وقلم سے آوازیں بلند کررہے ہیں اور قیمتی تمغے
اور ایوارڈ جو ان کو بطور اعزاز حکومت یا اکیڈمی اداروں سے ملے ہوئے ہیں
اسے واپس کرکے اپنی انصاف پسندی و رواداری کا ثبوت دے رہے ہیں ،کیونکہ وہ
﴿مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الأَرْضِ
فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا
أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا﴾کی واضح تعلیمات سے واقف و آشنا ہیں۔
اس لئے کہ دنیا کےتمام ادیان وملل میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کی ہر
تعلیم میں دہشت و وبربریت کے بجائے شفقت و رحمت کا عظیم پیغام پنہاں ہے،
اسلام کے نزدیک ساری مخلوق اللہ کی ایک کنبہ ہے اورسب کے ساتھ بھائی جیسا
معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے پیاری وہ مخلوق ہے جو
اس کے کنبہ کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ اسلام سارے انسانوں کو انسانیت کے رشتہ
سے بھائی مانتا ہے اور ان کو بھائیوں کی طرح باہمی اتحاد و اتفاق کے ساتھ
رہنے کی تلقین کرتا ہے: ”لا تَقَاطَعُوا، وَلا تَدَابَرُوا، وَلا
تَبَاغَضُوا، وَلا تَحَاسَدُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إخْوَانًا“ ایک
دوسرے سے تعلقات نہ توڑو، ایک دوسرے سے منھ نہ پھیرو، ایک دوسرے سےبغض
وعناد نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اوراللہ کے بندو بھائی بھائی بن
کررہو۔ اوراللہ نے فرمایا ﴿ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ
فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُم﴾کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی
ہیں پس تم لوگ اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرادو ۔ اسلام کی تمام
تعلیمات واحکامات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ ایک دین رحمت
ہےجس میں ظلم و جبر، دہشت گردی اور جارحیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے
جو لوگ اسلام دشمنی میں اس کی جانب دہشت گردی و انتہاء پسندی کو منسوب کرتے
ہیں ان کا یہ رویہ بذات خود ایک دہشت گردی ہے ، اس لیے انھیں اپنے اس ناروا
رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
آج پوری دنیا میں اسی تعصبانہ ذہنیت اور عدم رواداری کی باعث انارکی پھیلی
ہوئی ہے جس کی وجہ سے آپسی الفت ومحبت کا جنازہ نکل چکاہے ،ہر چہار جانب
بدامنی اور بے اطمینانی ہے امن وامان غارت ہوچکاہے اور دنیا کا ہر امن پسند
انسان امن کا متلاشی نظر آتاہے ، اب سوال یہ ہے کہ یہ امن وامان حاصل کیسے
ہو؟اسکے لئے کیا تدابیر کی جائیں ؟ اور اس کا حل کیسے نکالا جائے ؟لیکن جب
ایک قاری کرہ ارضی کا گہرائی و گیرائی کے ساتھ جائزہ لےگا تویہ بات اظہر من
الشمس ہو جائے گی کہ اس کا حل صرف اور صرف مذہب اسلام میں ہے ، اس لئے کہ
اسلام ایک ایسا دین رحمت ہے جس کی تمام تعلیمات عدل و انصاف ،اخوت و بھائی
چارگی ،رواداری ومساوات پر مبنی ہیں ۔
ایسےناگفتہ بہ حالات میں امن و امان کے متلاشیوں کو تعصب کا عینک اتار
کراسلام کی شفاف تعلیمات کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اس کے آفاقی پیغمات کو
حرز جاں بناکرآگے بڑھنےکی کوشش کرنی چاہئے ،تاکہ ﴿ إِنَّمَا
الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُم﴾کے اعلیٰ
فلسفہ پر عمل کرنا ممکن ہوسکے،انہی روشن تعلیمات پر عمل پیراہوکردنیا میں
امن وامان کی بحالی کو ممکن بنایاجا سکتاہے ۔کیونکہ اسلام کی خمیرہی میںامن
وامان اور سکون و شانتی کو گوندھ دیاگیا ہے ،اورانتہاء پسندی وظلم وزیادتی
چوکر کے مثل نکال کر پھینک دیا گیا ہے۔
اس لئے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک وبیرون ملک کے سرکردہ افراداور
سربراہان مملکت اوردانشوران آپس میں مل بیٹھ کر یہ ایجنڈا پاس کریں اور یہ
لائحہ عمل بنائیںکہ سب آدم کی اولاد ہیںاوربھائی بھائی ہیں ، لہٰذاکسی کو
تکلیف پہنچانا اپنے بھائی کو تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے اسی کے خلاف
ہتھیار اٹھانا عقلمندی نہیں بلکہ پاگل پن و حماقت کی اعلیٰ نشانی ہے۔چاہے
یہ عمل کی صورت میں ہو یا رد عمل کی شکل میں ،جیسا کہ آج دنیا میں ہو رہا
ہے ۔اس لئے اگر فتنہ وفساد سے بچنا ہے اوردنیا کے ماحول کو خوشگوار بناناہے
تو دامن اسلام تھامنا پڑے گا یا اسلامی تعلیمات کے سایہ میں زندگی گذانے کی
راہ ہموار کرنی پڑے گی کیونکہ اسی صورت میں امن کی پیاسی دنیا کی پیاس بجھ
سکتی ہے اور وہ امن و شانتی کا گہوارہ بن سکتی ہے ۔ بقول شاعر؎
مزدکی ہو کہ فرنگی مس خام میں ہے
امن عالم تو فقط دامن اسلام میں ہے۔ |