"قاضی عیاض مالکی اور عقیدہ شفاعت "

"قاضی عیاض مالکی اور عقیدہ شفاعت "
علامہ یحییٰ بن شرف نواوی متوفی 676 ھ لکھتے ہیں :
قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ شفاعت کرنا عقلاً جائز ہے اور دلائل سمعیہ کے اعتبار سے شفاعت کا عقیدہ رکھنا اجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
یومئذ لاتنفع الشفاعۃ الا من اذن لہ الرحمٰن و رضی لہ قولاً ۔ (طہ ، 109)
اس دن اس کے سوا کسی کی شفاعت نفع نہیں پہنچائے گی جس کو رحمٰن نے اجازت دی ہو اور اس کے قول سے وہ راضی ہو ۔
ولایشفعون الا لمن ارتضیٰ (الانبیاء 28)
اور وہ صرف اس کی شفاعت کریں گے جس سے وہ راضی ہوگا ۔
اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شفاعت کے متعق اس کثرت سے احادیث فرمائی ہیں جو معنی متواتر ہیں اور آثار صحابہ اور انکے بعد تمام متقدمین اور متاخرین کا اس پر اجماع ہے کہ میدان حشر میں مسلمان گنہ گاروں کی شفاعت کی جائے گی ۔ خوارج اور معتزلہ نے شفاعت کا انکار کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ مسلمان گنہ گار دائما دوزخ میں رہیں گے اور ان کا استدلال ان آیات سے ہے :
فما تنفعھم شفاعۃ الشافعین (المدثر :48) ماللظلالمین من حمیم ولا شفع یطاع (المومن :18)
حالانکہ یہ آیات کفار کے متعلق ہیں ۔ وہ شفاعت کی احادیث کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ شفاعت درجات میں بلندی کے لئے ہوگی لیکن ان کی یہ تاویل باطل ہے اور شفاعت کی آیات اور احادیث میں یہ صراحت ہے کہ جو مسلمان دوزخ کا مستحق ہو چکا ہوگا اس کے لئے شفاعت کی جائے گی ۔
تاہم شفاعت کی پانچ اقسام ہیں :
(١) ایک شفاعت ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص ہے اور یہ میدان محشر کے خوف اور دہشت سے راحت پہنچانے اور حساب اور کتاب جلد شروع کرانے کے لئے ہوگی ۔
(٢) مسلمانوں کے ایک گروہ کو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل کرنے کے لئے آپ شفاعت کریں گے اور یہ شفاعت بھی ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص ہے ۔
(٣) جو گنہگار مسلمان دوزخ میں داخل کر دیئے گئے ہوں گے ، ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے ان کو دوزخ سے نکالا جائے گا اور ملائکہ کی شفاعت سے اور ان کے مسلمان بھائیوں کی شفاعت سے ، پھر اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو دوزخ سے نکال لے گا جس نے لا الہ الا اللہ کہا ہو ، حدیث میں ہے کفار کے سوا دوزخ میں کوئی نہیں رہے گا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤ )
(٥) اہل جنت کے درجات کی بلندی کے لئے شفاعت کی جائے گی ۔ معتزلہ اس قسم کا اور پہلی قسم کا انکار نہیں کرتے ۔
قاضی عیاض نے کہا ہے کہ نقل متواتر سے یہ ثابت ہے کہ سلف صلاحین رضی اللہ عنہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت کا سوال کرتے تھے اور آپ کی شفاعت کے حصول میں رغبت کرتے تھے ، اس لئے ان لوگوں کے قول کی طرف توجہ نہ کی جائے جو شفاعت کا سوال کرنے سے منع کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ شفاعت تو گناہگاروں کے لئے کی جائے گی سو جو شخص اپنے لئے شفاعت کا سوال کرتا ہے وہ درحقیقت اپنے آپ کو گناہگار قرار دیتا ہے ، ان لوگوں کا اس دلیل سے شفاعت کے سوال کو منع کرنا اس لئے صحیح نہیں ہے کہ جس طرح شفاعت گناہگاروں کے لئے کی جائے گی اسی طرح شفاعت تخفیف حساب کے لیء بھی کی جائے گی اور درجات کی بلندی کے لئے بھی کی جائے گی ، پھر ہر صاحب عقل اپنی تقصیر کا اعتراف کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت کا محتاج ہوتا ہے اور اپنے اعمال پر مغرور نہیں ہوتا اور ان کو لائق شمار نہیں گردانتا ، اور اس سے ڈرتا ہے کہ وہ عذاب میں مبتلا ہو جائے اور جو شخص اس وجہ سے شفاعت کے حصول کی دعا سے منع کرتا ہے کہ جب وہ کہے گا : اے اللہ ! مجھے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت عطا فرما تو اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو گناہگار قرار دے رہا ہے تو پھر اس شخص کو چاہئے کہ وہ اپنے لئے مغفرت اور رحمت کی دعا بھی نہ کیا کرے ۔
(صحیح مسلم بشرح النواوی ج ١ ص 1023-1025 مطبوعہ مکتبہ نزارمصطفی البازمکہ مکرمہ 1417 ھ)

 

syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 350575 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.