عفو و درگزر ایسا فعل جسے میرے
مولا اور اس کے محبوب محمدﷺ نے پسند فرمایا ! اور آپﷺ نے تو ایک ایسی مثال
قائم کی کہ رہتی دنیا تک ہم جیسوں کے لئے روشن مثال ہے۔ اور اگر کبھی
بھٹکنے کی نوبت آ بھی جائے تو ہم بھٹک نہیں سکتے۔ غصہ کے بےلگام گھوڑا کو
قابو میں رکھنے کا ایک ایسا کوڑا جو اسے بدکنے اور سرکشی سے باز رکھنے میں
طاقت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ انسان معاشرے میں کہیں نہ کہیں ناانصافی
اور ظلم کا شکار ہو سکتا ہے۔ اور اگر بدلہ ہی اسے انصاف دلا سکے تو ہر فرد
اپنے خلاف کئے جانے والے تمام عوامل کے مد مقابل خود ہی بدلہ کے ترازو سے
انصاف کے پلڑا کو بھاری کرتا جائے مگر یہ مشیت الہی نہیں ہے۔ کیونکہ اس طرح
معاشرے کے بدلہ کی آگ سے انتقام کی حدود سے بھی آگے گزر جانے کا احتمال رہے
گا۔ اور بدلہ ظلم کے خلاف ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال سے پھر ظالم
مظلومیت کے کٹہرے میں جا کھڑا ہوگا۔ جو ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے۔ ظالم قانون
سے بھی سزا یافتہ ہو تب بھی ظلم سہنے والے ہی کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔
کیونکہ شیطان کا بہکاوہ انسان کو کسی بھی پل اس احساس سے خالی نہیں جانے
دیتا کہ اس کا کوئی بھی عمل ظلم و اذیت دینے میں نا انصافی پر مبنی ہے۔ حتی
الوسع کوشش یہی ہونی چاہیے کہ کسی سے نا انصافی نہ ہو اور اپنے عمل سے ہی
اور خاص طور پر ظلم سہنے اور نقصان اٹھانے کے بعد معافی کا راستہ اختیار
کیا جائے۔ کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر اللہ تبارک تعالیٰ اور اس کے
محبوب محمد ﷺ سے محبت کا ثبوت ثبت ہو سکتا ہے۔ چیخنے کی زیادہ آوازیں انہیں
انسانوں کے گلے سے نکلتی ہیں۔ جو اپنے نفس کے شکار ہوتے ہیں اور اللہ کی
ہدایت اور اسکے رسول ﷺ اسوہ حسنہ پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ اور جو راہ ہدایت
پر ہوتے ہیں وہ محبوب ہو جاتے ہیں۔ ان سے محبت رکھنے والے کبھی بھی ایسا
فعل سر انجام نہیں دیتے کہ جس سے دیکھنے والا فعل کی نسبت محبوبیت سے جدا
کر سکے۔ ایک پل کے لئے انا، ضد، تکبر اور اعلیٰ مرتبت کے بت کو دوسرے کے
ہاتھوں نقصان اٹھائے جانے سے ٹھیس پہنچتی ہے اور یہی شیطانی خیالات کا
بہکاوہ انسان کو اپنی راہ سے بہکانے کا سبب بنتا ہے۔ اور اللہ تبارک تعالیٰ
کی نظر میں وہ بدلہ جو انتقام کی آگ میں جلا ہو۔ نا پسندیدہ عمل قرار پا
جاتا ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ خود معاف کرنے والا ہے غفور و رحیم ہے۔ یہی
خوبی اپنے بندے میں دیکھنا پسند فرماتا ہے۔ اس سے ڈرنے والے دوسروں کو
ڈراتے نہیں بلکہ اپنے حسن اخلاق سے نرم خوئی کے بیج بوتے ہیں۔ جس سے عفو و
در گزر کے پھول اگائے جاتے ہیں۔ اور محبت کی خوشبو مہکائی جاتی ہے۔ بہت
آسان ہے کہہ دینا کہ معاف کر دوں گا۔ مگر ظلم و نقصان اٹھانے کے بعد عملی
طریقہ سے یوں کہ بدلہ لینے کی طاقت ہو اور پھر معاف کرنا۔ پسندیدہ عمل ہو
جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول اور محبوب ہو جاتا ہے۔ |