رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بحثیت سپہ سالار، غزوات اور جنگوں کا احوال - 16

تبلیغ اسلام کے سلسلے میں چند پیچیدگیاں اور ان کے حل
6 ہجری کا آغاز
یہ سال، سیاسی اور جنگی اعتبار سے تاریخ اسلام میں اہم ترین سال شمار کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ لشکر احزاب کی شکست اور ہجرت کے پانچویں سال یہودیوں پر مسلمانوں کی کامیابی کے بعد لشکر اسلام کے حملے شروع ہوئے۔ اس طرح کہ اس سال42 جنگی دستے (سریہ) مختلف ذمہ داریوں کے ساتھ بھیجے گئے اور ان میں سے بہت سے گروہ اہم کامیابی اور بہت زیادہ مالِ غنیمت کے ساتھ مدینہ واپس آئے۔ اس سال4 غزوات واقع ہوئے کل82 جنگی حملے یا جنگی مہم واقع ہوئیں اور صلح حدیبیہ کا اہم معاہدہ بھی اسی سال طے پایا۔

غزوہ بنی لحیان
4ہجری میں رجیع کا بدترین واقعہ جو بنی لحیان کے ہاتھوں مبلغین اسلام کی شہادت پر منتہی ہوا اس نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اسی واقعہ کے عاملین کی تنبیہ کے لئے آمادہ کر دیا۔ اب دو سال کے بعد یکم ربیع الاول 6 ہجری کو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مکتوم کو مدینہ میں اپنا جانشین معین فرمایا اور لشکر اسلام کے ہزار افراد کے ساتھ نزدیک ترین راستہ سے شمال کی طرف روانہ ہوگئے اور ایسا ظاہر کیا کہ جیسے آپ شام جا رہے ہوں لیکن منزلیں طے کرنے کے بعد آپ داہنی طرف مڑ گئے اور نہایت تیزی سے بنی لحیان کی طرف آگئے۔ مگر لشکر اسلام کی آمد سے دشمن پہلے سے آگاہ تھے وہ پہاڑوں کی طرف بھاگ گئے تھے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جنگی مشق کی اور لشکر اسلام کے دستوں کے ساتھ راہ مکہ میں ”عسفان“ کی طرف روانہ ہوئے اور پھر آپ نے2 جاسوسوں کو مامور کیا کہ وہ قریش کی اطلاع لائیں جو قبائل قریب قریب آباد تھے اس جنگی مشق نے ان کے حوصلوں پر بڑا اثر کیا اور قریش کی شان و شوکت اور ان کا وقار ان کی نظروں سے گر گیا۔ لشکر اسلام اس مشق کے بعد واپس آگیا۔

زمین پر فساد پھیلانے والوں کا قتل
شوال 6ہجری۔۔۔قبیلہ عرینہ سے آٹھ آدمی مدینہ آئے اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ مدینہ کی آب و ہوا ان کو راس نہیں آئی اور وہ بیمار پڑ گئے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اپنے اونٹوں کی چراگاہ پر بھیج دیا تاکہ وہ لوگ کھلی ہوا میں تازہ دودھ پی کر صحت مند ہو جائیں۔ چند دنوں تک جو ان لوگوں نے اونٹوں کا دودھ استعمال کیا تو تندرست و توانا ہوگئے لیکن بجائے اس خدمت کی قدردانی کے انہوں نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے چرواہے یسار کو نہایت بیدردی سے قتل کر دیا۔ اس کے ہاتھ پاؤں اور سر قلم کردیا۔ زبان اور آنکھوں میں کانٹے چبھو دیئے اور پھر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اونٹوں کو چرالے گئے۔

آپ نے ”کرزبن جابر“ کو 102افراد کے ساتھ ان کا پیچھا کرنے کے لئے بھیجا۔ کرز اور اس کے ساتھی ان کو اسیر کر کے مدینہ لائے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ زمین پر فساد پھیلانے والوں کے ہاتھ پیر کاٹ کر دار پر لٹکا دیا جائے اور اس طرح سے ان کو خیانت کی سزا مل گئی اور یہ آیت مفسدین کے لئے نازل ہوئی کہ”ان لوگوں کی سزا جو خدا اور رسول کے ساتھ جنگ کرتے اور زمین پر فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا دار پر چڑھائے جائیں یا ان کے ہاتھ پیر اس طرح کاٹے جائیں کہ اگر داہنا پیر ہو تو بایاں ہاتھ ہو اور داہنا ہاتھ ہو تو بایاں پیر ہو یا ان کو شہر بدر کر دیا جائے ان کے لئے دنیا میں تباہی اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔(سورہ مائدہ:۳۳)

غزوہ بنی مصطلق یا مریسیع
شعبان6 ہجری۔۔۔رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ملی کہ بنی مصطلق سپاہ اسلام سے جنگ کرنے کی غرض سے اسلحہ اور طاقتیں جمع کرنے کی فکر میں ہیں۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس رپورٹ کی صحت کی تحقیق کے لئے ”بریدة بن حصیدہ اسلمی“ کو اس علاقہ میں بھیجا، بریدہ، بنی مصطلق کی طرف روانہ ہوئے اور انجان بن کے قبیلہ کے سردار سے رابطہ قائم کیا اور واپسی پر ایک رپورٹ میں اس خبر کے صحیح ہونے کی تائید کی۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ابوذرغفاری کو مدیہ میں اپنا جانشین مقرر کیا اور ہزار جاں بازوں کے ساتھ دو شعبان کو دشمن کی طرف روانہ کیا جو چاہ مریسیع کے پاس خیمہ زن ہوئے اس غزوہ میں کچھ وہ منافقین بھی مالِ غنیمت کی لالچ میں لشکر اسلام کے ساتھ ہوگئے جو کسی جنگ میں حضرت کے ساتھ نہیں تھے۔ مقام مریسیع میں دونوں لشکروں کی صفیں آراستہ ہوئیں۔ فرمان رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بموجب تھوڑی دیر تک تیر اندازی کے نتیجہ میں بنی مصطلق ہار گئے اور ان میں ایک آدمی بھی فرار نہ کرسکا۔ ان کے دس آدمی مقتول اور بقیہ اسیر ہوئے اور اس حملہ میں ایک مسلمان بھی شہید نہیں ہوا۔ اس جنگ میں 2000 اونٹ5000 گوسفند ہاتھ آئے اور 200 خاندان اسیر ہوئے۔

کوچ کا حکم ہونے کے بعد لشکر اسلام ایک رات دن مسلسل چلتا رہا۔ یہاں تک کہ آفتاب ان کے سر پر پہنچ گیا۔ اس وقت ٹھہرنے کا حکم دیا گیا۔ جاں باز اسلام تھکن کی وجہ سے خاک پر پڑ رہے اور گہری نیند سو گئے۔ اس اطمینان اور خوشی کے ساتھ جو ایک لمبی اور غیر معمولی تھکن کے بعد روح و اعصاب کو حاصل ہوتی ہے۔ کدورتیں دلوں سے نکل گئیں اور کینہ کی آگ خودبخود بجھ گئی۔

باپ اور بیٹے میں فرق
عبداللہ بن ابی کے بیٹے نے سمجھا کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس کے باپ کے قتل کا فرمان صادر کریں گے۔ تو فوراً رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ اے رسول اللہ! سب لوگ جان گئے ہیں کہ کوئی بھی میری طرح باپ سے نیک برتاؤ نہیں کرتا لیکن اگر آپ کا فرمان یہ ہے کہ وہ قتل کیا جائے تو آپ حکم دیں میں خود قتل کروں گا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا نہیں تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ پیغمبر کے بزرگانہ سلوک نے ابن ابی کے دوستوں کے درمیان اس کی حیثیت و شخصیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ کھلم کھلا اس کی سرزنش کرنے لگے۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے عفو و درگزر کے حربہ سے خطرناک داخلی دشمن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ ایک دن جناب عمر سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ جس دن تم اس کو قتل کرنے کے لئے کہہ رہے تھے اگر میں اس کو قتل کر دیتا تو اس کے دفاع میں بجلیاں کوندتیں لیکن اگر آج ہم اس کے قتل کا حکم دے دیں تو لوگ اس کی جان کو آجائیں گے۔(تاریخ طبری ج۲ ص ۶۰۸)

جو انصار میں سے آپس میں الجھ گئے، سنان نے مدد کے لئے آواز دی اے انصار! اور جھجاہ نے مدد کے لیے پکارا۔ اے مہاجرین! نزدیک تھا کہ بہت بڑا ہنگامہ کھڑا ہو جائے۔ منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی نے موقع کو غنیمت جانا اور اپنے آس پاس کے لوگوں سے بولا”خدا کی قسم! ہمارا اور ان جلابیب کا معاملہ اس مثل جیسا ہے کہ اپنے کتے کو موٹا کرو تاکہ وہ تمہیں کو کاٹ کھائے لیکن خدا کی قسم! جب ہم مدینہ پلٹ کے جائیں گے تو چونکہ ہم مدینہ کے باعزت لوگ ہیں اس لیے ان زبوں حال اور بے چارہ مہاجرین کو باہر نکال دیں گے۔(طبقات ج۲ ص ۶۰۴، منافقون:۸)

زید بن ارقم نے حضور کو خبر دی
زید بن ارقم نے جب عبداللہ بن ابی کی باتیں سنیں تو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے اور اس کی سازش آمیز اور منافقانہ باتوں کو پیغمبر کے سامنے نقل کر دیا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے زید کی خبر کے بارے میں وحی کے ذریعہ اطمینان حاصل کرلینے کے بعد زید کے کان کو پکڑ کر کہا کہ یہ اس شخص کے کان ہیں جس نے اپنے کانوں کے ذریعہ خدا سے وفا کی ہے۔

عبداللہ بن ابی نے جب زید کی رپورٹ کی خبر سنی تو رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچا اور حضرت کے سامنے جھوٹی قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں نے ایسی بات نہیں کہی ہے اور چونکہ وہ اپنے قبیلہ کے درمیان بزرگوں اور صاحب احترام شخصیتوں میں شمار کیا جاتا تھا اس لیے انصار میں سے کچھ لوگ پیغمبر کے حضور میں پہنچے اور ابی کے فرزند کی حمایت میں انہوں نے کہا کہ شاید زید نے ایسی بات کا وہم کیا ہو یا ان کے کانوں نے غلط سنا ہو۔ یہاں تک کہ سورہ منافقون کے نازل ہونے کے بعد اس پاک دل نوجوان کو اطمینان حاصل ہوا اور عبداللہ بن ابی ذلیل ہوا۔(تاریخ طبری ج۲ ص ۶۰۶)

عمر بن خطاب نے اس واقعہ کو سننے کے بعد رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے خواہش ظاہر کی کہ عبداللہ بن ابی کو قتل کر دیا جائے لیکن آنحضرت نے فرمایا کہ ایسی صورت میں دشمن کہیں گے کہ محمد اپنے اصحاب کو قتل کر رہے ہیں مصلحت یہ ہے کہ ہم جلد سے جلد نکل چلیں تاکہ باطل اندیشے دلوں نہ پنپ سکیں۔

بنی مصطلق، اسلامی تحریک میں شامل
جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مالِ غنیمت اور اسیروں کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کیا تو اس وقت رئیس قبیلہ ”حارث بن ضرار“ کی بیٹی ”جویریہ “ ایک مسلمان کے حصہ میں آئیں انہوں نے اپنے آقا سے قرارداد کرلی کہ میں اتنی رقم لے کر آزاد ہو جاؤں گی لیکن ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ ان کی صرف ایک امید تھی، پیغمبر کا لطف و مہربانی، پیغمبر کے پاس آئیں اور کہا”میں حارث کی بیٹی ہوں اور اسیر ہو کر آئی ہوں اور اس وقت میں نے یہ طے کرلیا ہے کہ کچھ پیسے ادا کر کے میں آزاد ہو جاؤں، اے اللہ کے رسول! میں آئی ہوں کہ اس پیسے کو ادا کرنے میں آپ میری مدد فرمائیں۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم کو یہ پسند ہے کہ میں تمہارے لیے اس سے بہتر کام انجام دوں۔ جن پیسوں کی تم قرض دار ہو اس کو میں ادا کر دوں پھر تم سے شادی کرلوں۔ جویریہ اس پیشکش سے مسرور ہوگئیں۔ جویریہ سے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شادی کی خبر اصحاب میں پھیل گئی لوگوں نے بنی مصطلق کے پیغمبر کے رشتہ دار بن جانے کے احترام میں اپنے اسیروں کو آزاد کر دیا۔ جب بنی مصطلق نے لشکر اسلام کا یہ بڑا پن اور درگزر دیکھا تو وہ لوگ مسلمان ہوگئے اور ایک بابرکت شادی کی بنا پر سب کے سب اسلامی تحریک میں شامل ہوگئے۔(تاریخ ج۲ ص۶۲)

ایک فاسق کی رسوائی
بنی مصطلق کے مسلمان ہو جانے کے بعد رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو ان کی طرف زکوٰة وصول کرنے کے لئے بھیجا۔ بنی مصطلق نے جب یہ سنا کہ پیغمبر کا نمائندہ ان کی طرف آرہا ہے تو وہ ان کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے لیکن ولید ڈر گیا اور اس نے خیال کیا کہ وہ لوگ جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔ لہٰذا اس نے مدینہ واپس آکر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ وہ لوگ مجھے قتل کر ڈالنا چاہتے تھے اور انہوں نے زکوٰة ادا کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ بنی مصطلق کے ساتھ دوبارہ جنگ کی باتیں لوگوں کی زبان پر چڑھ گئیں اس واقعہ کے بعد بنی مصطلق کا ایک وفد مدینہ آیا اور اس نے حقیقت بیان کی۔ اس واقعہ کے بارے میں آیت اتری۔

”اے ایمان لانے والوں! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ نادانی کی بنا پر لوگوں کی جان و مال کو نقصان پہنچا دو پھر جب معلوم ہو کہ فاسق نے جھوٹ بولا تھا جو کچھ کیا ہے اس پر تم کو پشیمانی ہو۔“(حجرات:۶)

۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 122578 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More