ماہِ رمضان کا راہِ سفر ہر موسم سے گذرتا
ہے
ماہِ رمضان ایک موسم کا مہینہ نہیں ہے، بلکہ ہر موسم کا مہینہ ہے۔ روحانی
اعتبار سے عبادتوں اور تزکیہ کا مہینہ ہے تو جغرافیائی عوامل کے اعتبار سے
ہر موسم کو چھوکر گذرنے والا مہینہ ہے۔ یعنی رمضان ہر سال نئی نئی تاریخوں
سے داخل ہوتا ہوا نئے نئے موسموں سے گذرتا ہوا ہر آٹھ سال میں سارے موسموں
کی سیر کرکے لوٹتا ہے، اور پھر اپنے دورے کا آغاز کرتا ہے۔
تقویم یعنی کیلنڈر، دنیا میں مختلف اقوام اپنے اپنے علاقائی یا تمدنی
روایات کی بنیاد پر بنا کر رائج کر رکھے ہیں۔ جیسے گریگورین، جولین، ہجری،
شاکا وغیرہ، جو کہ شمسی یا قمری گردشوں پر مبنی ہیں۔ شمسی تقویم زمین کی
سورج کے اطراف گردش پر مبنی ہے تو قمری تقویم چاند کی زمین کے اطراف گردش
کرنے پر۔ موجودہ دور میں یہی دو کیلنڈر مقبول اور مروج ہیں۔
شمسی کیلنڈر جسے گریگورین کیلنڈر بھی کہا جاتا ہے، دنیا میں عام ہے، جسے ہم
انگریزی کیلنڈر کے نام سے بھی جانتے ہیں۔اس کیلنڈر کے سال میں365.24دن اور
بارہ مہینے ہیں جن میں 30-31دن کے مہینے ہوتے ہیں۔ فروری کے 28 دن ۔ اگر
لیپ سال آتا ہے تو اس کے 29 دن ۔قمری کیلنڈر بھارت کا مقبول کیلنڈر ہے جس
سے مسلمان اچھی طرح واقف ہے اور اُس کو عمل بھی کرتا ہے۔جس کے بارہ مہینے
ہیں، ہر مہینے کے 29-30 دن۔ اور جملہ 354.367 دن ہوتے ہیں۔
شمسی تقویم میں 365.24 دن ہیں تو قمری تقویم میں 354.467دن، ان دونوں میں
فرق ہوگیا 11دن کا۔ یعنی شمسی تقویم سے قمری تقویم 11 دن کی چھوٹی ہے ۔
خاص بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی عیدیں کبھی بھی گریگورین یا انگریزی کیلنڈر
کے مطابق سال کے ایک ہی ماہ میں ایک ہی تاریخ کو پیش نہیں آتے۔ جیسے
گریگورین سال میں کرسمس ہر سال دسمبر ۲۵ تاریخ کو منائی جاتی ہے، لیکن
میلاد النبیؐ ہر سال، پچھلے سال کے ۱۱ دن پیشتر ہی منائی جاتی ہے وہ بھی
چاند نظر آنے کی بنیاد پر۔
کیا یہ شمسی اور قمری سال کی پہلی تاریخ یا کوئی بھی دن کبھی ایک ہی دن
واقع ہوسکتے ہیں؟ ہاں ہوسکتے ہیں، تقریباً ہر 33سال اور 6دن بعد شمسی اور
قمری کیلنڈر کی ایک ہی تاریخ آکر ملتے ہیں۔
اس سال ماہِ رمضان، گریگورین یا انگریزی سال کے حساب سے ۷ جون کو شروع ہوا
اور ۶ جولائی کو ختم ہونے والا ہے۔ یعنی ۳۰ دن کا مہینہ۔پچھلے سال یعنی
۲۰۱۵ میں جون ۱۸ کو شروع ہوا اور جولائی ۱۶ کو ختم ہوا۔
جغرافیائی اور موسمی عوامل کو مد نظر رکھ کر اگر دیکھا جائے تو ماہ رمضان
ہر موسم سے گذرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ایک شمسی اور قمری سال کے پہئے یا دور کی
جانکاری لیں ، اور پچھلے ۳۴ سالوں میں ماہ رمضان کی تواریخ کو دیکھیں، اور
اس بات کا جائزہ لیں کہ کس طرح گریگورین کیلنڈر میں ہر سال رمضان ۱۱ دن
پہلے ہی واقع ہوجاتا ہے۔
(یہاں ڈیٹا کی تصویر چسپاں کریں)
یہ جدول دیکھنے کے بعد اس بات پر غور کریں کہ گریگورین اور ہجری تقویم میں
ماہِ رمضان کو لے کر کتنے دنوں کا فرق دیکھا جاسکتا ہے۔
اب موسم اور رُت کی طرف ایک نظر ڈالتے ہیں اور ان کاطائرانہ جائزہ لیتے ہیں۔
بر صغیر ہند و پاک میں موسم چار اور بھارت میں رُت ۶ مانے جاتے ہیں۔ہر موسم
کے تین تین مہینے، اور تین مہینوں کے تقریباً ۹۰ دن۔ ان ۹۰ دنوں میں ۱۱ دن
کم کرتے آئیں تو آٹھ مرتبہ کم ہوسکتے ہیں، یعنی ماہِ رمضان تقریباً لگاتار
ایک موسم سے ۸ بار گذرتا ہے۔ چار موسموں میں کو چھوتے ہوئے ۳۲ سالوں کا سفر
کرتا ہے۔ چوں کہ شمسی اور قمری مہینوں کی ایک تاریخ میل کھانے کے لیے ۳۳
سال اور ۶ دن کا ایک دور لگتا ہے۔کچھ دنوں کے فرق کے ساتھ اس دور کو ایک
اور موسم کے ساتھ سفر کرتا ہے اور اپنا ایک دور مکمل کرتا ہے۔فرض کیجئے کہ
ایک مسلمان نے اپنی عمر ۱۰۰ سال پائی تو وہ اپنی عمر میں ایسے تین ادوار
دیکھتا ہے۔
ایک آفاقی نظام جس میں انسان کو کام کرنے اور سونے کا بہترین نصاب دیا گیا
ہے، ٹھیک اُسی طرح روزے رکھنے کا بھی۔ان باتوں کی مزید سائنسی تحقیقات اور
بھی باقی ہیں کہ کیوں طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک جس میں روشنی کا غلبہ
ہوتا ہے اُسی وقت جسم کو بھوکا رکھنے کو کہا گیا۔
مگر یہ بات واضح ہے کہ ۱۲ مہینوں میں سے ایک مہینہ روزہ رکھنے کو کہا گیا۔
اس سے ان باتوں کی طرف توجہ جاتی ہے۔اس پر عمل کرنے سے اولاً اﷲ کا حکم بجا
تو لاہی رہے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ باتیں اور امکانات بھی اُبھر کر سامنے
آتے ہیں۔
۱۔ صحت کے بابت، گیارہ مہینے کھانے سے جسم میں جو معدنیات، کثافت، چربیات
جمع ہوتے ہیں، انہیں دور کرنے اور جسم کو متوازن اور صحت مند حالت میں لانے
کے لیے روزہ ایک بہترین صورت ہے۔ بلیڈ پریژر، ذیابطیس، ہارٹ اٹیک جیسی
بیماریوں کی روک تھام کرکے بدن کے حیاتی سسٹم کو درست کیا جاسکتا ہے۔
کولیسٹرال اور انسولین کو بھی بیلنس کیا جاسکتا ہے۔ خاص کرکے لیپیڈ پروفائل
کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
۲۔ دنیا میں غذائی تناسب کو برقرار رکھنے، اور اناج کے فقدانوں کو کم کرنے
اورزراعتی توازن کو بھی برقرار رکھنے میں کارآمد ہے۔اجناس اور غلہ بازی بھی
خوب کی جاسکتی ہے۔
۳۔ اقتصادی امور میں بھی روزہ ایک فائدہ مند اور راحت بخش عمل مانا جاسکتا
ہے۔ انسان جب کہ روزانہ تین وقت غذا کھاتا تھا، وہیں روزے کی حالت میں ایک
مہینہ دو وقت کھاتا ہے اور ایک وقت کا بچا لیتا ہے، یعنی ایک وقت کھانے کا
خرچ ایک مہینے کے لیے بچا سکتا ہے۔ دنیا کی آبادی ۷۰۰ کروڑ ہے۔ اگر یہ
آبادی ایک مہینے بھر میں ایک وقت کا کھانا کفایت کرلیتی ہے تو یوں سمجھ
لینا چاہیے کہ ۷۰۰ کروڑ آبادی کو ایک مہینہ کے لیے ایک وقت کی غذا مہیا کی
جا سکتی ہے۔ مگر مسلمانوں کی آبادی ۱۶۰ کروڑ کی ہے۔ ان میں بچوں بوڑھوں اور
بیماروں کو چھوڑ کر روزہ رکھنے کی صلاحیت والے ۱۳۰ کروڑ مانیں، اور اگر ۱۳۰
کروڑ لوگوں کی ایک وقت کی غذا ایک مہینے تک بچائی جائے تو قوم و ملت کے لیے
کیا کیا نہیں کیا جاسکتا۔
۴۔ ہر موسم میں روزہ داری سے ہر موسم میں پیدا کیے جانے والے اجناس،
ترکاریاں، پھل، پھول، میوے سب کے سب میں کفایت شعاری کی جاسکتی ہیں اور
آئندہ دنوں کے لیے بچا کر رکھا بھی جاسکتا ہے اورساتھ ساتھ دیگر انسانوں کو
تقسیم کر ان کی ضروریات کو بھی کو پورا کیا جاسکتا ہے جو کہ حقوق العباد کا
ایک ضروری حصہ ہے۔
ایسا لگتا ہے جیسے رمضان کا مہینہ بادلوں کے جھونکوں کی طرح ہے، جو زمین کے
ہر خطے کو چھوتا ہو ا گذرتا ہے۔ منطقہ ہائے حارہ میں روزے کی مدت کا وقت 14
سے 17گھنٹے تو منطقہ ہائے معتدلہ میں 18سے 20گھنٹوں کی ۔ اور منطقہ ہائے
باردہ سے قرب علاقوں میں لمبے لمبے دن۔ یعنی اﷲ نے ایسا نظام بنارکر یہ حکم
دیا ہے کہ روزوں کے دوران ہر موسم کا ذائقہ لیں، یا پھر ہر موسم میں روزوں
اور عبادتوں کا لطف اُٹھائیں اور ہر موسم میں روزہ رکھنے کا تجربہ بھی لیں۔ |