بند مٹھی میں ریت
(Muhammad Nawaz, Kamalia)
جواری کی کہانی جو جوے میں اپنی بیوی ہار دیتا ہے |
|
” کون کہتا ہے جوا کسی کا نہیں ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “ دلبر نے اپنی بیوی آسیہ کے اس سوال پر کہ جوا کسی کا نہیں
ہوتا چڑھائی کر دی اور لگا اسے کوسنے ” سیانے کہتے ہیں “ آسیہ نے جواب دیتے
ہوئے کہا ” ضروری نہیں سیانوں کی ہر کہی ہوئی بات سچ بھی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے
تو لگتا ہے ان سیانوں کوسوائے باتیں کرنے کے اور کوئی کام نہیں تھا ۔یہ کرو
گے تو وہ ہو جائے گا وہ کرو گے یہ ہو جائے گا“” سیانوں نے باتوں کا عرق
نکالا ہوتا ہے انہوں نے جو بھی کہا ہے عین ویسا ہی ہوتا ہے “ دنوں میاں
بیوی کے درمیان سیانوں کی کہی ہوئی باتوں پر بحث و تقرار ہونے لگی ۔ آسیہ،
دلبر کو قائل کرنے کی کوشش میں تھی کہ جوا کسی کا نہیں ہوتا ،لیکن دلبر اس
بات کو ماننے کیلئے ہرگز تیار نہ تھا وہ آسیہ کو ہمیشہ چپ کرا دیتا اور
کہتا قسمت کی دیوی ایک دن پر ضرور مہربان ہو گی اوراس کے بھی ہاتھوں میں
روپے پیسے کی ریل پیل ہو گی ۔ دلبر ، آسیہ کو سہانے سپنوں کی وادی میں ہاتھ
پکڑے اتر جاتا جہاں قسمت کی دیوی ان کیلئے ہاتھوں میں وہ تمام تر آسائشات
اور تعیشات لیئے کھڑی ہوتی۔ دلبر آسیہ کو کہتا اب کی بار وہ بازی جیت جائے
گا اور اس کی جھولی زمانے بھر کی خوشیوں سے بھر دے گا ۔ اس کا وہ سارا زیور
جسے وہ ہار چکا ہے دوبارہ بنوا دے گا ۔ گھر بھر کا وہ سارا سامان جو اس کے
جواری ساتھی جیت کر لے گئے ہیں واپس لائے گا ۔آسیہ اس کی کسی بات کو خاطر
میں لاتی اور دلبر سے صرف اتنا کہتے ہوئے خوابوں کی دنیا سے باہر آجاتی ©
©” دلبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم ہمیں دو وقت کی روٹی ہی لا دو ،ہمارے لیئے کافی ہے “
دلبر گھر سے جاتے ہوئے آسیہ سے کہتا ” میرے لیئے دعا کرنا میں آج کی بازی
جیت جاﺅں “ وہ اپنی ہی کہی ہوئی اس بات کی نفی کر دیتا کہ سیانوں کی کہی ہر
بات سچ نہیں ہوتی ” کہتے ہیں بیوی کی اپنے خاوند کے حق میں دعا اللہ تعالیٰ
قبول کرتے ہیں “
اکثر لوگ زندگی میں شارٹ کٹ استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کا خیال میں شارٹ
کٹ سے بہت سی دولت بنا محنت اکٹھی کر لیں گے اور باقی کی زندگی عیش و عشرت
سے گزاریں گے ۔ کچھ ایسا ہی خیال دلبر کا بھی تھا ۔وہ بھی شارٹ کٹ کے ذریعے
دولت مند بننا چاہتا تھا ۔دنوں میں امیر بننے کا خواب اس کی آنکھوں میں اس
کے ایک دوست نے سجایا ،جس کے حالات پہلے پہل دلبر سے ملتے جلتے تھے لیکن
پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کے دن پھرنے لگے۔ روپے پیسے کی ریل پیل نظر آنے
لگی ۔ دلبر نے جب اس سے وجہ دریافت کی تواس نے یہی شارٹ کٹ بتا دیا جودلبر
اب آزما رہا تھا ۔اسی شارٹ کٹ کو آزماتے آزماتے وہ اپنے سارے گھر کی ساری
جمع پونجھی لوٹا بیٹھا تھا ۔لیکن نا جانے کیوں اسے اب بھی یقین تھا کہ ایک
دن قسمت پلٹا کھائے گی اور وہ بھی اپنے دوست کی طرح دولت مند ہو جائے گا ۔
” دیکھ دلبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ اسے جوا کہتے ہیں،لیکن میں اسے انوسٹمنٹ کہتا
ہوں ۔جتنا پیسہ لگاﺅ گے اتنا ہی زیادہ منافع کماﺅ گے ،جتنا گڑ ڈالو گے اتنا
ہی میٹھا ہو گا“ دلبر کا دماغ میٹھی میٹھی باتوں میں رچتا بستا چلا گیا
،اگلے ہی دن آسیہ کو جو میکے سے پانچ تولے زیور جہیز میں ملا تھا ۔ آسیہ کی
غیر موجودگی میں اٹھا لے گیا اور پہلی ہی بازی میں ہار گیا ۔ سارے زیور کو
ہاتھ سے جاتے دیکھا تو دل برداشتہ ہو کر لگا لڑائی جھگڑا کرنے ۔اڈے پر
موجود دوسرے جوایوں نے بیچ میں پڑ کر صلح کرا دی اور لگے اسے جوے کے اصول و
ضوابط سمجھانے ۔ گھر سے زیور اٹھاتے وقت دلبر کے دل میں کتنے ارمان تھے جو
آن کی آن میں سب ہوا ہو گئے ۔ ہاتھ کے میل کی طرح سارے زیور لالچ و ہوس کے
پانی میں دھل کر بہہ گئے ۔ کہتے ہیں عورت کو سب سے زیادہ محبوب میکے سے
ملنے والا زیور ہوتا ہے جسے وہ ساری زندگی سنبھال کر رکھتی ہے اس خیال سے
تصرف میں نہیں لاتی کہ کہیں خراب ہی نہ ہو جائے ۔ کچھ ایسا ہی معاملہ آسیہ
کے ساتھ بھی تھا ۔ اس نے سارا زیور سنبھال کر رکھا ہوا تھا ۔آسیہ کو زیور
کے بارے میں تب پتا چلا جب وہ ایک دن میکے میں کسی شادی پر جانے والی تھی ۔
آسیہ کے شور مچانے پر دلبر نے آسیہ کو اس وعدہ کے ساتھ کہ وہ اسے پہلے سے
دوگنا زیور بنا دے گا ،بتا دیا ۔ وہ دن اور آج کا دن دلبر کے ہاتھ خالی ہی
رہے ۔
آہستہ آہستہ گھر کا سارا سامان بکنے لگا ۔دلبر جو کماتا شام کو دو گنا کرنے
کے چکر میں جوے کے اڈے پر ہار آتا ۔ نوبت فاقوں سے ہوتی ہوئی قرض کی دہلیز
پار کرنے لگی ۔ رشتہ داروں اور عزیزو اقارب سے اس وعدے کے ساتھ دلبر قرض
اٹھانے لگا کہ بہت جلد لوٹا دے گا ۔ پہلے پہل تو دلبر کو قرض ملنے لگا ۔مگر
جب قرض کی ادائیگی میں تاخیر ہونے لگی تو وہ رشتہ دار اور عزیز و اقارب بھی
دور ہٹتے چلے گئے ۔قرض دینا تو درکنار ،دلبر سے ہاتھ ملانے سے بھی گھبرانے
لگے ۔ یوں دلبر سے سب کا اعتماد اٹھنے لگا۔ گھر کا چولہا جلتا رکھنے کیلئے
آسیہ لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرنے لگی ۔
نشہ کوئی بھی ہو برا ہوتا ہے ۔ کہتے ہیں جوا بھی نشہ کی طرح ہوتا ہے ۔جسے
ایک بار اس کی لت پڑ جائے پھر نہیں چھوٹتی۔آسیہ دلبرکو سمجھاتی ” جس دیوی
کے مہربان ہونے کی تم بات کرتے ہو وہ تم پر کبھی مہربان نہیں ہو گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوڑ دو جوا کھیلنا۔شارٹ کٹ کی بجائے سیدھے راستے سے منزل تک
پہنچنے کی کوشش کرو“ دلبر نے نہ آسیہ کی پہلے سنی تھی اور نہ اب سننے والا
تھا ۔ اچھوں کی صحبت انسان کو اچھا بنا دیتی ہے اور بروں کی صحبت انسان کو
برا ۔ جس صحبت میں دلبر جا بیٹھتا تھا وہاں سے آج تک کوئی خیر لے کر نہیں
آیا ۔
لکڑی کے بڑے سے میز پر ایک پلاسٹک کی شیٹ بچھی تھی جس پر مختلف قسم کے
جانوروں کی تصاویر بنی تھیں ۔ درمیان میں ایک چرخی لگی تھی ۔چرخی کے گھومنے
سے قسمت گھومنے لگتی ۔ چرخی نے کئی جواریوں کو لاکھ پتی تو کسی کو کنگلا کر
دیا تھا۔دلبر چرخی کے پاس کھڑا ہاتھ سے اسے گھما رہا تھا ،یہ چرخی کبھی بھی
دلبر کے پسندیدہ جانور پر آ کر نہ رکی تھی ۔ایک نجومی سے دلبر نے اپنی قسمت
کی شکایت کی تو اس نے دلبر کو بتایا تھا کہ اس کی قسمت چمکانے والاجانور
شیر ہے جس دن چرخی شیر پر آ کر رکے گی اس کی قسمت بدل جائے گی ۔دلبر نے
ہمیشہ شیر پر ہی پیسے لگائے تھے مگر چرخی ہر بار بندر پر آکر رک جاتی ۔اب
بھی جب دلبر خالی چرخی کو یہ سوچ کر گھما رہا تھا کہ دیکھے کیا اب بھی چرخی
شیر پر آ کر ٹھہرتی ہے یا نہیں ۔اس نے چرخی کو گھمایا تو وہ شیر پر ہی آ کر
ٹھہری ۔دلبر کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا ۔اس کو لگا جیسے نجومی کی بات سچ
ہونے والی تھی ۔وہ دل میں سوچنے لگا قسمت کی دیوی اس پر مہربان ہونے والی
ہے ۔
” آج بہت بڑی بازی لگنے والی ہے دلبر ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے سنا ہے ایک بڑی پارٹی
آ رہی ہے یہاں ۔لاکھوں کی نہیں کروڑوں کی بازی ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “ وہی دوست
نما جواری جو دلبر کو اس اڈے پر لایا تھا اس نے دلبر کی خوشی بھانپتے ہوئے
کہا ۔کروڑوں کی بات سن کر دلبر کے چہرے پر پھیلی خوشی ماند پڑنے لگی ۔ ”
میرے پاس تو اب پھوٹی کوڑی بھی نہیں ۔۔۔۔۔تم تو جانتے ہو میرے پاس جو جمع
پونجھی تھی وہ سب اس چرخی پر ہار گیا ہوں ،چرخی مجھ پر مہربان نہ ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب جبکہ قسمت نے پلٹا کھایا ہے تو جیب میں ٹکہ نہیں “ دلبر کا
چہرہ اتر گیا ۔تھوڑی دیر پہلے مسکراتا چہرہ افسردہ نظر آنے لگا ۔ دلبر کی
مایوسی دیکھ کر جواری جانے ہی والا تھا کہ واپس پلٹا اور بولا ” دلبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو لاکھوں کا مالک ہے اور کہہ رہا ہے تیرے پاس ایک دھیلہ نہیں
“ لاکھوں کی بات سن کر ایک بار پھر دلبر کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔
وہ تجسس سے اس کی طرف دیکھنے لگا ۔ چند لمحوں کے بعد وہ بولا
”جب میں اس دھندے میں آیا تو میں بھی تیری طرح ایک بار کنگلہ ہو گیا تھا
۔میں بھی تیری طرح اسی چرخی کے پاس ایک دن مایوسی کے عالم میں کھڑا تھا کہ
ایک آدمی میرے پاس آیا اور آ کر مجھ سے کہنے لگا بازی لگائے گا ،میں نے کہا
میرے پاس کچھ نہیں ۔وہ بولا ،ہماری مثال کمھار کی ہے ،اسے لعل مل جائے تو
وہ گدھے کے گلے میں ڈال دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمھارے گھر میں ہیرا رکھا ہے
اور تم اس سے نا آشنا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گھر والی کو داﺅ پر لگا دو ۔ میں نے
ہچکچاتے ہوئے اس کی بات مان کی ۔میری قسمت تو خراب تھی ۔گھر والی کی قسمت
جاگی اور میں لاکھوں سمیٹ کر گیا گھر والی کے نام سے اور میری گھر والی کو
کانوں کان بھی خبر نہ ہوئی ۔ میری مان گھر میں پڑے اس ہیرے کو داﺅ پر لگا
دے، ہو سکتا ہے اس کے صدقے تیری قسمت بدل جائے ۔“
بازی کھیلے جانے میں تھوڑا ہی وقت رہ گیا تھا ۔دلبر ایک بنچ پر بیٹھا سگریٹ
سلگائے فضا میں دھواں چھوڑ رہا تھا ۔ دھواں حلقہ بناتا ہوا ہوا میں تحلیل
ہو جاتا ” اگر قسمت کی دیوی مہر بان نہ ہوئی تو کیا ہو گا ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر چرخی شیر کی بجائے بندر ،بلی ،یا اژدھا پر آکر رک گئی تو ۔۔۔۔۔
اگر میں آسیہ کو ہار گیا تو کیا ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ “ اس طرح کے کئی سوال
تھے جو اس وقت دھواں کے ساتھ ساتھ اس کے دماغ سے باہر ہوا میں ملتے جا رہے
تھے۔ وقت تیزی سے بیت رہا تھا اور دلبر ابھی کوئی فیصلہ نہ کر پایا تھا ۔
اڈے کی لائٹس روشن کر دی گئیں ۔جواری اڈے میں آنے لگے ۔ ان میں بہت سے ایسے
تھے جن کو دلبر نے پہلی بار دیکھا تھا ۔اس کے دماغ میں جواری کی باتیں
گونجنے لگیں ۔اس نے اندازہ لگانا شروع کیا کہ شاید یہ وہی نئے جواری ہیں جن
کے بارے میں اس کے دوست جواری نے کہا تھا ۔
سب جواری اس لکڑی کے میز کے گرد جمع ہو گئے ، سب جواریوں نے اپنے اپنے
مطلوبہ جانور پر اپنی اپنی استطاعت کے مطابق پیسے لگا دیئے ۔ دلبر ایک طرف
کھڑا گھومتی چرخی کو دیکھ رہا تھا ،چرخی گھومتے گھومتے شیر کی تصویر پر آ
کر رک گئی ۔ دلبر کا دل دھک سے رہ گیا ۔اڈے کے مالک نے شیر پر رکھے پیسوں
کا دو گنا اس جواری کو دے دیا جس نے شیر کی تصویر پر ہیسے لگائے تھے۔ دلبر
کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا ۔ اسے افسوس ہونے لگا کہ اس نے اس بار کیوں
بازی میں حصہ نہ لیا تھا ۔ اس کو نجومی کی بات یاد آنے لگی ۔وہ دل میں
سوچنے لگا آج شیر کی باری ہے ،شیر ہی جیتے گا ۔ وہ لوگوں کے درمیان سے نکلا
اور اس دوست جواری کے پاس آگیا جس نے تھوڑی دیر پہلے بیوی جیسے ہیرے کو جوا
کی بازی میں لگانے کا مشورہ دیا تھا ۔ ” مجھے آپ کی شرط منظور ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آج آخری بازی کھیلنا چاہتا ہوں ،قسمت کی دیوی آج مجھ پر
مہر بان ہے “ جواری نے نوٹوں کی ایک گٹھڑی دلبر کو تھما دی اور ساتھ ہی ایک
کاغذ بھی ” یہ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ “ دلبر نے سوال کیا ” مجھے پتاتھا تم میرے
پاس ضرور آﺅ گے اس لیئے میں نے یہ پہلے سے تیار کر کے رکھ لیا تھا ،یہ حلف
نامہ ہے جس میں لکھا ہے کہ تم نے اپنی منقوحہ میرے ہاتھ فروخت کر دی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم بازی جیت گئے تو پیسے لوٹاﺅ گے ورنہ دوسری صورت میں اپنی
منقوحہ ،جس پر تمھیں کوئی عذر یا بہانہ نہ ہو گا “
چرخی پھر گھومنے کو تیار تھی دلبر مجمع میں آیا اور آتے ہی شیر کی تصویر پر
ہزار ہزار کے کئی نوٹ رکھ دیئے ۔چرخی گھومی اور چرخی کے ساتھ دلبر کی نظریں
بھی ،دل تو جیسے سینے میں تھا ہی نہیں ۔ سکوت کا عالم تھا سب چرخی کے رکنے
کا انتظار کر رہے تھے ۔چرخی کی رفتار آہستہ آہستہ کم ہونے لگی ۔چرخی گھومتے
گھومتے بالآخر شیر کی تصویر پر آ کر رک گئی ۔دلبر خوشی سے جھوم اٹھا ۔اتنے
سارے پیسے دیکھ کر اسے نجومی کی کہی ہوئی بات سچ لگنے لگی ۔یوں دلبر نے
اوپر نیچے تین بازیاں جیتیں۔وہ چاہتا تو جواری سے اپنی منقوحہ کے عوض لیئے
گئے پیسے واپس کر سکتا تھا ۔لیکن اس کے دل میں بار بار آسیہ کا خیال آنے
لگا ۔اسے آسیہ کے ساتھ کیئے اپنے وہ وعدے یاد آنے لگے جو اس نے زیورات
ہارنے کے بعد کیئے تھے ۔اسے نجومی کی وہ بات بھی یاد آنے لگی کہ ایک دن
تیری قسمت کا ستارا ضرور چمکے گا ۔قسمت کی دیوی تجھ پرمہربان ہو گی ۔ شاید
وہ دن آج ہی کا دن ہے ،دلبر نے سرگوشی کی ۔
چرخی پھر گھومنے لگی ۔دلبر نے ڈھیر سارے پیسے شیر پر لگا دئیے ۔چرخی نے
اپنا مدار بدلا ،قسمت نے آنکھیں چرا لیں اور دیوی روٹھ کر چلی گئی ،ستارے
گردش میں آئے اور دلبر کی آنکھوں پر لالچ کی پٹی بندھ گئی ۔ زیادہ کے چکروں
میں تھوڑوں سے بھی ہاتھ دھو دیئے ۔ جس شدو مد سے وہ بازیاں جیتاتھا اسی
تیزی سے ہارنے لگا ،یوں آسیہ اس کی مٹھی سے ریت بن کر سرک گئی ۔
گلی لوگوں سے بھری تھی ،ایک تماشہ لگا تھا ،جواری آسیہ کو گھسیٹ کر لے جا
نے کی کوشش کر رہے تھے اور وہ سوئے مقتل جانے والے کی طرح بار بار پیچھے مڑ
کر دلبر کی طرف دیکھ رہی تھی ،جو چوکھٹ پر بت بنے کھڑا تھا ۔ |
|