انسانیت مر گئی ،، مگر ایدھی زندہ رہیں گے

الودٰع روحِ ایدھی کینہ ، ظلم ، لالچ ۔سر کشی اور فریب کی وجہ سے ابلیس ، یزید اور شمر جیسے ناموں کا کردار تاریخ کے اوراق پر سیاہ دھبے کی طرح تاریک ہے ۔ادھر انسانیت کی تعظیم ، امانت داری ، اخلاص ،عاجزی ،سچ اور سادگی جیسے عوامل اپنانے پر آج بھی ایدھی جیسے نام اک نئ ی تاریخ روشن کر رہے ہیں.... کردار اہمیت رکھتا ہے ۔
پُر خلوص احباب کا خاصہ ہے کہ وہ انسانیت کو ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں ۔ کوئی نیا تعلق بنا کر تعلق توڑ جائے یا کسی سے کوئی تعلق یا رشتہ نہ بھی ہو تو انسانیت کے ناطے وہ اُس کی تعظیم و تکریم ، نگہداشت و حفاظت پر معمور رہتے ہیں۔ یہ اللہ کے خاص بندے اللہ کی طرف سے آدم کی اولاد میں سے تحفہ ہیں، کرشمہ ہیں یا کچھ بھی ہیں ،، مگر نایاب ہیں۔ انیس سو اٹھتیس سے دو ہزار سولہ تک ایک ایسا ہی نایاب شخص اس نفسا نفسی کے دور میں انسانیت کو سمیٹتا رہا اور انتھک محنت کے ساتھ اس دور فانی سے اوجھل ہوگیا ۔ یہ دور جس میں سب کو اپنی اپنی فکر ہے اس نے انسانیت کی اس قدر فکر کی کہ جاتے جاتے اپنے اعضا بھی عطیہ کر گیا۔ یہاں تک کہ اُس کردار کے آخری الفاظ تھے کہ میرے وطن کے غریبوں کا خیال رکھنا ۔ اُس شخص نے حاکمین و امرا کو سادگی اور امانت داری کا ایسا سبق دیا کہ اُسے صدارتی اعزاز کے ساتھ اس دنیا سے رخصت کیا گیا۔۔

عبد الستار ایدھی پوری دنیا کو بتا گیا کہ فقر کیا ہے ،، انسانیت کی خدمت اور خلوص میں ہی عظمت ہے،، دنیا و مافیہا کی چمکتی ہوئی غیر ضروری روایات اور اشیا کے پیچھے بھاگنے سے عظمت نہیں ملتی آخرت نہیں ملتی ۔۔ حق اور حق کرنے میں ہی دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔

ایدھی صاحب کی استقامت کو دیکھتے ہوئے جناب حیدرِ کرار حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک قول ذہن میں آتا ہے کہ جس سے نیکی کرو اُس کے شر سے بچو،، اس حقیقت کو بڑی قریب کہ کسی کے ساتھ نیک ارادے اور خلوص کے ساتھ اچھا عمل کیا تو اُس نے ضرور بتایا کہ ہمیں اُس کے ساتھ نیکی کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ،، مگر نیکی بدلے کے لئے نہیں ہوتی ،، اُس کا اجر اللہ کی طرف سے ہے ،، اور اللہ کی دی ہوئی عزت کو ٹھکرائے اللہ اُسے خود دیکھتا ہے،، سوچتا ہوں کہ ایدھی صاحب نے تو ساری زندگی نیکیاں کیں کتنے لوگوں نے اُن کے خلوص کا غلط فائدہ بھی اُٹھایا ہوگا ،، مگر وہ کیا شخص تھا کہ کتنے راز لیکر اس دنیا سے اوجھل ہوگیا۔۔

ایدھی صاھب کے جانے پر پوری دنیا میں ایک ہی بات سسنے کو مل رہی تھی ۔ ایدھی چلا گیا، بے سہاروں کا سہارا چھن گیا،، بے نوائوں کا مسیحا گُزر گیا ۔ یہ ایدھی صاحب کی کرنی کا پھل تھا کہ سب تعلق والے اور جو لوگ کبھی ایدھی صاحب سے ملے بھی نہیں وہ بھی گُن گا رہے تھے ۔ میں اُس شخص کی تعظیم میں کیا لکھوں گا ۔ میں اس کو کیسے خراجِ عقیدت پیش کروں،، میری آنکھیں اجازت نہیں دے رہیں کہ میں مزید لکھوں مگر دل میں طوفان ہے کہ رُک ہی نہیں رہا۔ نفسا نفسی کے دور میں ایک انسان ان گنت دلوں کا سہارا جس نے انسانیت سے بھلائی اور تعظیم کا سبق اپنے عمل اور کردار سے دیا۔

ایدھی صاحب کی وساطت سے میری گزارش ہےاُن لوگوں سے جنہیں اللہ نے انسان پیدا کیا اور وہ انسان کے جذبات سے کھیلتے پھرتے ہیں ۔ نفس کی تسکین کے لئے قتل و غارت ، دھوکہ دہی اور انسانیت کی تذلیل میں مشغول ہیں۔ وہ جنہیں اپنی فکر ہے،، جو کرتے ہیں اپنے لئے کرتے ہیں بھلے کسی کی زندگی برباد ہوجائے ۔ بھلے گھر اُجڑ جائیں۔وہ دیکھیں اور سبق لیں عبد الستار ایدھی سے کہ انہوں نے انسانیت کا معیار کیسے بلند کیا۔ دولت اور طاہری عیش و عشرت کے لئے دوسروں کا حق ًمارنے والے دیکھیں کی اربوں کھربوں روپے اُس شخص نے اپنی زندگی پر نہیں انسانیت پر خرچ کئے ، سب کو ایدھی صاحب کے جانے کا دُکھ ہے مگر اے کاش جن کی انسانیت مر گئی ہے اُن کی انسانیت اللہ کے اس نیک بندے کی بدولت زندہ ہوجائے،، اور وہ مزید انسانیت کی تذلیل سے باز آجائیں ، کاش کہ انسان انسانوں کے جذبات سے کھیلنا چھوڑ دیں۔ کاش کہ انسانوں کو انسانیت کی سمجھ آجائے اور وہ انسان بن جائیں-

الودٰاع روحِ ایدھی
کینہ ، ظلم ، لالچ ۔سر کشی اور فریب کی وجہ سے ابلیس ، یزید اور شمر جیسے ناموں کا کردار تاریخ کے اوراق پر سیاہ دھبے کی طرح تاریک ہے ۔ادھر انسانیت کی تعظیم ، امانت داری ، اخلاص ،عاجزی ،سچ اور سادگی جیسے عوامل اپنانے پر آج بھی ایدھی جیسے نام اک نئ تاریخ روشن کر رہے ہیں....