دنیا عظیم محسن انسانیت سے محروم
(Muhammad Riaz Prince, Depalpur)
آج دنیا ایک عظیم محسن انسانیت سے محروم
ہو گئی ۔ جب یہ خبر سنی کہ عبدالستار ایدھی صاحب دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں
تو سکتہ ساطاری ہو گیا۔ اور آنکھوں سے بے شمار آنسو بہنے لگے ۔ اور ہاتھ
اٹھا کر اس عظیم ہستی کو خراج تحسین پیش کیا اور اﷲ کے حضور ان کے بلند
درجات کے لئے دعا کی ۔ان کی کمی کو ہمیشہ محسوس کیا جائے گا ۔ کیونکہ وہ
ایک سچے اور مخلص انسان تھے عبدالستار ایدھی ایک ایسا نام ہے جس کو دنیا تا
قیامت یاد رکھے گی ۔ ان کی انسانیت کے ساتھ محبت اورخاص کر پاکستان کے ہر
یتیم بچے کے لئے وہ شفقت کا ہاتھ تھے ۔ انہوں نے دنیا کے ہر کونے میں یتیم
،بے سہارا،بیوہ اور مسکینوں کے لئے کام کیے ۔ انہوں نے ہمیشہ بے سارا بچوں
،یتیموں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا، اور بہت سے بچوں کو گود بھی لیا۔ اور
ان کی پرورش کے خود اپنی خدمات پیش کیں ۔
عبدالستار ایدھی صاحب بھارت کے شہر گجرات کے ایک گاؤں بانٹوا میں 1928ء کو
پیدا ہوئے ۔خدمت انسانیت کا جذبہ ان کو اس قدر تھا کہ وہ ہر وقت انسانوں کی
مدد کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ اسی جذبہ کے ساتھ انہوں نے ایدھی فاؤنڈیشن کا
قیام عمل لایا۔اور دنیا میں کہیں بھی بے یارومدد گار انسانوں کی مددکے لئے
پہنچے ۔اور ان کو اکیلا نہیں چھوڑا۔جس قدر ہو سکا ان کی مدد کی ۔آج ان کے
لگائے گئے پودے ساری دنیا میں پھل دے رہے ہیں ۔ ایدھی فاؤندیشن کی شاخیں
ساری دنیا میں انسانیت کی مدد کے لئے کام کررہی ہیں ۔کہیں بھی انسانوں پر
کوئی آفت آجائے یا کہیں بھی کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے ،ایدھی فاؤنڈیشن کی
خدمات پیش پیش ہو تی ہیں۔
ایدھی صاحب کا خلا ہم کبھی بھی پورا نہیں کر سکتے ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد
رکھا جائے ۔ ماں کے انتقال کے بعد دنیا وی کاموں سے دور ہو گئے اور انسانوں
کی خدمت کا جذبہ لے کر اکیلے ہی نکل پڑے ۔گھر سے جو خرچہ ملتا آدھے پیشے
ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے ۔ انسانوں کی خدمت کے خود چندہ مانگتے ،دھاگہ
بازاروں اور سڑکوں پر فروخت کرتے اور یتیم بچوں کو کھانا کھلاتے ۔
1951ء میں اپنی جمع پونچی سے ایک چھوٹی سی ڈسپنسری بنائی ۔سار ا دن اس پر
کام کرتے اور رات کو اس کے سامنے ہی سوجاتے ۔تاکہ رات کے وقت کوئی مریض یا
ضرورت مند خالی نہ چلا جائے۔
ایدھی صاحب ایک عظیم انسان تھے انہوں اپنی ساری زندگی فلاح انسانیت کے وقف
کر رکھی تھی ۔ اور آج تک کبھی بھی چھٹی نہیں کی ۔ بس سارا دن اپنے کام
مصروف رہتے تھے۔ ان کے اندر انسانیت کی خدمت کا جذبہ اس قدر تھا کہ وہ کبھی
اکیلا کھانا نہیں کھاتے تھے ۔ جب بھی کھانا کھاتے یتیم بچوں کو اپنے ساتھ
بٹھا کر کھاتے تھے ۔ ایدھی صاحب سادہ لوح فرشتہ انسان تھے ۔ انہوں نے اپنے
آپ کو کبھی بھی بڑا انسان نہیں سمجھا تھا ۔ بس یہی سمجھتے تھے کہ انسانوں
کے کام آنا ہی سب سے بڑا کام ہے ۔
ایدھی صاحب نے فلاح انسانیت کے عمل کو جاری رکھا او ر ساری دنیا میں اس کام
کو کرنے کے لیے اس کی شاخیں بنانتے رہے ۔آج ایدھی فاؤندیشن کی شاخیں ساری
دنیا میں قائم ہو چکی ہیں ۔ہمارے ملک کے علاوہ ایدھی صاحب نے
افغانستان،عراق،بوسنیا،چیچنیا،سوڈان،امریکہ میں بھی ایدھی مراکز قائم کیے ۔
ایدھی فاؤندیشن کے زیر استعمال تقریباً 12کے قریب ایمبولینس گاڑیاں کام کر
رہی ہیں جو پاکستان کے اندر مختلف مراکز پر موجود ہیں ۔دو طیارے ،ایک ہیلی
کاپٹر ز ،اسپیڈ بوٹس ،بہت سے کلینک ،زچگی سنٹرز ،بہت سے پاگل خانے،یتیم
خانے ،لاوارث بچوں کے لئے مراکز ،پناہ گاہیں،اسکول،بیوہ خواتین کے لئے
ووکیشنل سنٹرز،سلائی کڑائی مراکزکام کر رہے ہیں ۔ اتنا سب کچھ ہونے کے
باؤجود اپنے آپ کو سادہ سا انسان بنے رہے۔ اور ہمیشہ سادگی کو پسند کیا۔
ایدھی صاحب چند ماہ سے علیل تھے پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا تھے ان کو
بہت سے ممالک نے علاج کے لئے کہا ۔مگر انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ
مرنا جینا پاکستان کے لئے ہے اور علاج بھی پاکستان میں ہی ہو گا۔وہ گزشتہ
رات اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔آج ہم ایک عظیم انسان سے محروم ہو گئے ہیں ۔
میں تو یوں کہوں گا کہ پاکستان یتیم ہو گیا ہے ۔ ایسے انسان صدیوں بعد پیدا
ہوتے ہیں ۔آج پاکستان اور دنیا پھر ان کے چاہنے والوں کی آنکھ اشک بار ہے ۔
اور ان کے بلند درجات کے لئے دعا گوہے ۔اﷲ پاک ایدھی صاحب کو جنت الفردوس
میں جگہ عطا فرمائے ۔آمین |
|