آج سے پہلے ایک کھیت سے جتنی فصل ہوتی تھی
آج اس سے کئی گنا زیادہ ہو رہی ہے اگر آبادی میں اضافہ ہوا ہے تو وسائل میں
بھی ہوا ہے۔وسائل کم نہیں ہیں بلکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہے۔ یعنی
چند افرادکے پاس دنیا کی 60 فیصد دولت ہے اور دوسری طرف دنیاکی60 فیصد
آبادی غریب ہے ۔زمین میں وسائل کا اتنا خزانہ رکھا ہے کہ جو آنے والی نسلوں
سے بھی ختم نہیں ہو گا ۔
ماہر معاشیات ’’مالتھس‘‘ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ آبادی ایک دو چار آٹھ سولہ
بتیس اور چونسٹھ کے حساب سے بڑھتی ہے جبکہ وسائل میں اضافہ ایک دو تین چار
پانچ چھ اور سات کے حساب سے ہوتا ہے ۔اگر اس نظریہ کو درست مان لیا جائے تو
آبادی میں اضافہ سنگین خطرات لیے ہوئے ہے ۔زیادہ آبادی کے لیے زیادہ
خوراک،رہائش،تعلیمی ادارے،روزگار ،وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر وسائل کم
رفتار سے بڑھیں تو بھوک ،غربت،جرائم،جہالت پھیلتی ہے ۔جو فساد کا سبب بنتی
ہے ۔عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کی آبادی اس تیزی سے بڑھ رہی کہ جس
تیزی سے وسائل مہیا نہیں ہو رہے ۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے بے شمار مسائل آبادی میں اضافے سے
جڑے ہوئے ہیں ۔آبادی میں اضافے سے دیگر مسائل کے ساتھ اکثریت کا صحت کی
سہولتوں سے محروم ہونا ، خوراک کی فراہمی میں مشکلات ، رہائش، تعلیم اور
دیگر بنیادی اشیاء جو ضروری ہیں اس سے آبادی کی اکثریت محروم رہتی ہے ۔ کچھ
ممالک میں آبادی پر کنٹرول کے لیے پالیسی سازی میں روایتی اور مذہبی نظریات
آڑے آتے ہیں۔ماہرین کے مطابق روز مرہ جرائم ، چوری، ڈاکہ زنی، لوٹ مار،
دھوکہ دہی، نجی اورسرکاری شعبہ میں سنگین بدعنوانیوں اور قتل و غارت گری کی
ایک بنیادی وجہ زیادہ آبادی بھی ہے ۔دنیا کی آبادی 1800 میں صرف ایک ارب
تھی ۔
پہلے آبادی کو دو گنا(دو ارب) ہونے میں 127سال(1927 ء میں) لگے ۔پھر اس کے
بعد صرف 33 سال میں (1960 ء)میں تین ارب ہوئی اسی طرح 2012 ء میں سات ارب
ہوگئی اور 2025 ء میں نو ارب ہونے کا امکان ہے ۔
زراعت کے لئے زمین کا رقبہ کم ہورہا ہے ۔ شہر گنجان تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔
پینے کے پانی کی فی کس دستیاب مقدار گھٹ رہی ہے ۔نوجوانوں کو روزگار کے
مواقع کم مل رہے ہیں ۔پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی سے پیدا ہونے والے
مسائل کا شکار ملک ہے ۔پاکستان میں 1998ء کے بعد اب تک مردم شماری نہیں
ہوئی ہے پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح 1.52فیصد ہے ۔جبکہ وسائل میں
اسی شرح سے اضافہ نہیں ہو سکا۔ ماہرین کا کہنا کہ نہ صرف سیاسی جماعتوں
بلکہ سماجی اور مذہبی جماعتوں کو بھی عوم میں یہ شعور پیدا کرنا چاہیے کہ
بچے دو ہی اچھے ۔آبادی میں اضافہ کے باعث غربت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور
ایک اندازے کے مطابق ملک کی نصف آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔
آبادی کا عالمی دن World population day )( )ہرسال 11 جولائی کو منایا
جاتاہے اس کی ابتدا 1989 ء کو ہوئی ۔
2016 ء میں 27 واں آبادی کا عالمی دن منایا جا رہا ۔آبادی میں اضافہ کے
خلاف جو لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں اگر ان کے والدین ایسا کرتے کہ نئی نسل
کو پیدا نہ کرتے تو ایسے خود غرض افراد کا دنیا میں وجود نہ ہوتا (ہمارا
نظریہ اسلام کے عین مطابق ہے کہ اﷲ کے اختیار میں پیدائش اور موت ہے )ایسے
انسانوں نے خود تو جنم لے لیا لیکن آنے والی نسل کو حق زندگی دینے سے
گریزاں ہیں کہ اس سے وسائل میں کمی ہو جائے گی (جیسے انہوں نے اس دنیا میں
ہمیشہ رہنا ہے )آج سے پہلے ایک کھیت سے جتنی فصل ہوتی تھی آج اس سے کئی گنا
زیادہ ہو رہی ہے اگر آبادی میں اضافہ ہوا ہے تو وسائل میں بھی ہوا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین و سمندر میں اتنے وسائل ہیں کہ اب تک ان میں ایک
فیصد بھی کمی نہیں ہوئی ہے ۔اسی طرح اﷲ نے زمین میں وسائل کا اتنا خزانہ
رکھا ہے کہ جو آنے والی نسلوں سے بھی ختم نہیں ہو گا ۔وسائل کم نہیں ہیں
بلکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہے یہ ہی اصل وجہ ہے ۔رب کی دھرتی پر رب
کے نظام کے نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے مسائل ہیں ۔سپاکستان میں اس وقت جو غربت
اور معاشی بد حالی ہے اس کی وجہ آبادی کا بڑھنا نہیں ہے بلکہ وسائل کی غیر
منصفانہ تقسیم ہے ۔جیسا کہ اوپر ذکر ہے پاکستان کی نصف آبادی خط غربت سے
نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔
دوسری طرف صرف 200 خاندانوں کے پاس پاکستان کی مجموعی آبادی سے زیادہ دولت
ہے ۔چند افراد کے پاس دنیا کی 60 فیصد دولت ہے اور دوسری طرف دنیا کی60
فیصد آبادی غریب ہے یہ ہی حال زمین یا رہائش،غذا کا ہے ۔امراء جتنی غذا
ضائع کرتے ہیں اور جتنی مہنگے کھانے کھاتے ہیں اس میں اگر کمی آجائے تو
پاکستان میں کوئی بھوکا نہ سوئے ۔مختصر قومی و صوبائی اسمبلی اور ایم پی اے
،ایم این اے ،وزرا وغیرہ کے اخراجات دیکھیں ان کے جو اندرونی وبیرونی
بینکوں میں دولت ہے اس کو دیکھیں ۔تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے اصل مسئلہ
آبادی نہیں وسائل کے مسائل نہیں ۔وسائل کی تقسیم کا مسئلہ ہے ،نا انصافی ہے
،اﷲ کی نافرمانی کی سزا ہے ۔
ایک بات اور بھی غور طلب ہے ۔اکثر یورپی ممالک میں بچے دو ہی اچھے پر عمل
کیا گیا تو وہاں اب آبادی میں ہوشرباََ کمی ہو جانے سے بزرگوں کی کثرت
ہورہی ہے یہ ممالک مجبور ہیں باصلاحیت اور ماہرفن نوجوانوں کو پوری دنیا سے
درآمد کر رہے ہیں ۔رشتہ بھی دے رہے ہیں کام بھی دام بھی وہاں نوجوانوں کی
کمی ہو چکی ہے ۔اسی طرح فرانس میں اعلان کیا کہ جو خاتون سب سے زیادہ بچے
پیدا کرے گی اسے سب سے بڑا سول قومی ایوارڈ دیا جائے گا۔
روس کی حکومت نے اس طرح عوام سے کہا کہ شادی کے بعد ہسپتال میں آئیں اور
صرف بچہ پیدا کر کے چلے جائیں اسکی پرورش، خوراک، علاج، تعلیم اور دیگر
تمام ضروریات حکومت کی طرف سے پوری کی جائیں گی۔یہ ہی حال برطانیہ اور
امریکہ کا ہونے والا ہے ۔
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور اس کے 20کروڑ سے
زائد نفوس کا 40 فیصد 12 سے 29 سال کی عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے ۔چونکہ ملک
میں مردم شماری نہیں ہوئی اس لیے یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی بتائی
جاتی ہے ۔
ڈاکٹر سلمان شاہ کے مطابق پاکستان کی یہ بڑھتی ہوئی آبادی مصیبت نہیں بلکہ
اسے رحمت بھی قرار دیا جا سکتا ہے ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی آبادی کا
ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور اگر ان نوجوانوں کو صحت مندانہ کاموں
میں استعمال کیا جائے تو یہ ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
|