زکوۃ کے اجتماعی نظام کی اہمیت

اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جہاں دینی اور دنیوی مسائل کا حل موجود ہے ، دین محمدی نے زندگی کے تمام شعبہائے حیات کے بارے میں ہماری رہنمائی کی ہے۔کہیں پر بھی مسلمانوں کو یکا و تنہا نہیں چھوڑا ہے اسلام نے جہاں عبادت بد نی پر زور دیا، وہیں اس نے عبادت مالی پر بھی خاصی توجہ دی ہے ۔ اسلام کا نظام زکوۃ مالی عبادات میں سے ایک ہے ۔یہ ایسا نظام ہے جس سے غربت دور کی جاسکتی ہے ، غریب اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتا ہے ، اس کے نفاذ سے معاشرتی خرابیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ زکوۃ کا ایک اجتماعی نظم بنائیں تاکہ پوری آبادی اور پورے ملک کا زکوۃ ایک جگہ جمع ہو۔ دہلی میں زکوۃ کل ہند سطح کی کمیٹی بنائی جائے اور اس کے مختلف علاقائی سطح پر ذیلی کمیٹیاں ہوں۔ علاقے کے بینکوں میں تمام مسلم اکاؤنٹ ہولڈرس کو زکوۃ کی ادائیگی کے لئے متوجہ کی جائے۔ یہ کام جدید ترین ذرائع سے بھی ممکن ہے اور دیگر ذرائع سے بھی۔علاقے کے اصحاب ثروت و اصحاب نصاب تک پہنچنے کے لئے محصلین کا نظم کیا جائے اور اس کے لئے ایک نئی تکنک اختیار کی جائے، جہاں تک زکوۃ کے جمع اور خرچ کا تعلق ہے اس سلسلے میں واضح بین اصول موجود ہے کہ زکوۃ مالداروں سے لی جائے اور غریبوں اور محتاجوں کو دی جائے۔ نظام زکوۃ پر عمل کرنے کی وجہ سے ہی عہد رسالت میں لوگ خوشحال ہوگئے تھے۔ ابن سید الناس نے اس بات پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ آنحضرت ﷺ ہر قبیلے میں اپنا ایک عامل مقرر فرماتے تھے جو محتاجوں کی ایک فہرست بناتا اور زکوۃ کے فنڈ سے اتنا دے دیتا کہ لوگ اس سے بتدریج آسودہ اور خوش حال ہونے لگے۔ اس سے لوگ اپنا معاش کا انتظام کرلیتے تھے۔ حضور ۔ ﷺ کے جمع و تقسیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ عہد رسالت میں ہی عرب قبائل میں آسودگی آنے لگی تھی۔ اس سلسلے میں تاریخ کے ابواب میں روشن مثال موجود ہے ۔اس کے مطابق علاقے کی زکوۃ ضرورت مندو ں میں تقسیم کی جائے۔

فتح یمن کے بعد تقریباً ۹ ہجری میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت معاذ ابن جبل کو وہاں کا گورنر بنایا، انہیں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر این خطاب رضی اﷲ عنہم نے بھی انہیں وہاں برقرار رکھا۔ حضرت معاذ ابن جبل نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق نظام زکوـۃ کو یمن میں نافذ کیا اور نظام زکوۃ کے نفاذ کے بعد جو نتائج سامنے آئے ہم مختصراً انہیں بیان کرتے ہیں تاکہ آپ اندازہ کرسکیں کہ مسائل کو مسائل کی جگہ پر حل کرنا کتنا آسان اور نتیجہ خیز ہوتا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے حضرت معاذ ابن جبل کو ۹ ہجری میں یمن کا گورنر مقرر کیا گیا تھا ۔اس طرح ان کو حضرت عمر ؓکے عہد تک تقریباً چارسال کا عرصہ ملا اب ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ ان چار سالوں میں نظام زکوۃ کے نفاذ کے کیا نتائج برآمد ہوئے۔مورخین کا بیان ہے کہ حضرت معاذنے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے عہد خلافت کا پہلا سال ختم ہونے پر اپنے عملہ کے جمع شدہ زکوۃ کا ایک تہائی حصہ مرکزی حکومت یعنی مدینہ منورہ کو بھیج دیا۔ اس پر حضرت عمرؓ جو حقوق العباد کے سلسلے میں انتہائی محتاط انسان تھے، حضرت معاذ سے یوں گویا ہوئے میں نے تمہیں مال جمع کرنے اور روپیہ وصول کرنے نہیں بھیجا ہے بلکہ اس لئے مامور کیا ہے کہ تم وہاں کے صاحب نصاب لوگوں سے زکوۃ وصول کرکے وہاں کے محتاجوں کی فقر و احتیاج ختم کرنے پر صرف کرو، اس پر حضرت معاذ نے وضاحت کی کہ میں نے جو کچھ آپ کے پاس بھیجا ہے یہ وہ ہے جو یہاں مقامی فقرو احتیاج کی ضروریات پوری کرنے کے بعد بچ رہا تھا اور اسے وصول کرنے والا یہاں کوئی نہیں تھا۔ دوسرے سال کے اختتام پر حضرت معاذ نے یمن کی کل زکوۃ کا نصف حصہ بھیج دیا جس پر حضرت عمر نے پھر سے وضاحت طلب کی اور حضرت معاذ نے وہی جواب دیا، تیسرے سال حضرت معاذ نے پوری کی پوری جمع ہونے والی زکوۃ حضرت عمرؓ کے پاس مرکز کو بھجوا دی اور ساتھ ہی کہا کہ اب یہاں ایک بھی ایسا ّشخص نہیں ملا جو اس زکوۃکے مال کو لینے کا محتاج و مستًحق ہو۔ اب اندازہ کیجئے کہ تقریباً سات سال کے قلیل عرصے میں نظام زکوۃ پر مقامی طور پر عمل کرنے سے کیا نتائج برآمد ہوئے اور اس نظام کی خوبیوں اور اچھائیوں میں اور بھی اضافہ ہوا ۔ یہ اس دور کی بات ہے کہ جب باضابطہ صنعت و حرفت کا کوئی تصور نہیں تھا ، زراعت اور تجارت کی وہ سہولتیں اور ذرائع میسر نہیں تھیں جو آج ہیں، یہ انفرادیت صرف حضرت معاذ کے ساتھ ہی مخصوص نہیں تھی بلکہ حضرت عمرؓ کے خلافت کے تمام صوبے کا یہی حال تھا اور حضرت عمر ؓہر عامل سے اسی احتیاط اور سختی کے ساتھ دریافت فرماتے کہ کہیں ظلم و زیادتی اور میری خوشنودی کی خاطر زکوۃ کی زائد رقم تو نہیں بچالی ۔ شام، عراق، فلسطین ، بحرین اور مصر وغیرہ کے صوبے سے زکوۃ کی اتنی مقدار آتی تھی کہ حضرت عمرؓ پریشان ہوجایا کرتے تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ یہ نظام ہمہ گیر تھااور اس کی برکات کے نتیجے کے طور پر ہر علاقے کے لوگ قلیل ترین مدت میں خوشحال اور آسودہ ہوگئے۔

زکوۃکو مالی عبادات میں اہم اور خصوصی مقام حاصل ہے۔ اس خدا وند قدوس نے جہاں مسلمانوں کو نماز کی تاکید فرمائی ہے وہیں زکوۃ کا اہتمام کرنے کی بھی سخت ہدایت دی ہے ، قرآن پاک میں اﷲ تبارک تعالی نے کم و بیش ۳۰ جگہوں پر زکوۃ کی ادائیگی کا حکم دیا ہے ۔ اس میں سے ۲۷ مقامات پر نماز کے ساتھ زکوۃ کا ذکر ہے اور صرف تین مقام پر زکوۃ کا انفرادی طور پر ذکر ہے۔ جن ۳۰ مقامات پر زکوۃ کا ذکر ہے ان میں ۸ سورتیں مکی ہیں جب کہ ۲۲ سورتیں مدنی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہجرت مدینہ کے بعد حضور اکرم ﷺ اعمال و احکام کی نفاذ پر کس قدر سختی سے عمل پیرا رہے۔

جب سے دنیا وجود میں آئی دنیا دو طبقوں میں بٹی ہوئی ہے ۔ اس میں ایک خوشحال اور فارغ البال طبقہ ہے اور دوسرا مفلوک الحال طبقہ جو ہمیشہ غربت کی چکی میں پستا رہا ہے جس کی غریبی دور کرنے کے لئے آج تک کوئی حکومت نے حقیقی اور عملی کوشش نہیں کی ۔کچھ لوگوں نے گاہے بگاہے اس کے خلاف آواز ضرور بلند کی لیکن اس کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ اس وقت دنیا میں تقریباً چھ ارب کی آبادی میں ایک ارب ۲۰ کروڑ انسان کو اپنی پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے سخت و جدوجہد کا سامنا ہے جبکہ بیشتر ممالک غذائی پیداوار میں خودکفیل ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک پوری دنیا کے دو تہائی وسائل پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ دنیا کے ۳ (تین) مالدار ترین لوگوں کے اثاثے دنیا کے ۴۷ غریب ترین ممالک کی گھریلو پیداوار کے مساوی ہے۔ اسی طرح اگر دینا کے ۵۲ امیر ترین افراد اپنی دولت کا ڈھائی فیصد بطور زکوۃ ادا کردیں تو اس سے ساری دنیا کی غریبی دور کی جاسکتی ہے ۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ جو غریب وہ اور بھی غریب ہوتا چلا جارہا ہے اور دولت گھوم پھر سرمایہ کاروں کے پاس اکٹھا ہورہی ہے ۔ ان حالات میں اسلام کا تقسیم دولت اور نظام زکوۃ پوری دنیا کے لئے رحمت کا سامان ہے اور طبقاتی فرق کو مٹانے میں اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہاں توجہ دی جائے جہاں یہ مسئلہ سب سے زیادہ پنپ رہا ہے اور اس کا جڑ سے علاج کرنے کی ضرورت ہے۔ دولت کے جمع و تقسیم نظام کو ایمانداری سے نافذ کیاگیا تو اس نہ صرف غربت دور ہوگی بلکہ جرائم کا خاتمہ بھی ممکن ہوسکے گا۔

زکوۃ کو منظم انداز میں خرچ کرنے کے لئے اس کاا نویسٹمنٹ ضروری ہے ۔ اس میں ایک بحث تملیک کی بھی آتی ہے مگر محتاجوں سے اس کی مرضی لے لی جائے ا ور اس کے نام پر انویسٹ کر کے ان کو ان کا منافع دیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔ اس طرح علاقائی طور پر غربت کے شکار افراد کو روزگار مل جائے گا وہ تلاش معاش کے لئے بڑے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں جہاں انہیں صحت سے لے کر صاف آب و ہوا اور صاف ستھرا ماحول میسر نہیں ہوتا وہ گندی بستیوں میں رہنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں۔ جہاں انہیں مختلف مسائل کے ساتھ کئی مرتبہ سنگین معاشرتی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتاہے ۔ اس میں یہ شق بھی اگر شامل رہے کہ انہیں جب بھی ضرورت ہو اصل مال لے سکتا ہے مگر ایک خاص مدت کے بعد زکوۃ کی سرمایہ کاری سے محتاجوں اور بے گھروں کو جھونپڑے ، رکشوں اور ٹھیلوں کی فراہمی کی جانی چاہئے اور بے کار اور بے روزگار نوجوانوں کو چھوٹے موٹے کاروبار کرنے کی امداد بھی کی جانی چاہئے تاکہ معاشی سدھار برپا ہوسکے معاشرے میں ایک انقلاب پیدا ہو۔ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ سب ہی سماجی اصلاح کی بات کرتے ہیں اور اس میں سب سے زیادہ زور دینی اصلاح پر دیتے ہیں لیکن اقتصادی طور پر اصلاح اور معاشی اصلاح کی کوئی بات نہیں کرتے۔ حالانکہ نظام زکوۃ کے ذریعہ معاشی الجھنوں کو دور کیا جاسکتا ہے اور معاشی اصلاحات آسانی سے کی جاسکتی ہے۔

اسلام کا نظام زکوۃ اور نظام وقف دو ایسے مضبوط اقتصادی کلید ہیں جس سے اکثر اقتصادی مسائل حل ہوجاتے ہیں مگر افسوس ہے کہ ہم نے اپنے زکوۃ کے پیسوں اور وقف جائدادوں کو خود اپنے ہاتھوں سے ضائع کررہے ہیں۔ بہت سے ایسے رجحانات بھی ہیں جس سے ہماری ترقی رکی ہوئی ہے مثلاً دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو مستحق سمجھتے ہیں لیکن عصری تعلیم اور جدید تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو مستحق زکوۃ نہیں سمجھتے ۔یہ رجحان تعمیری نہیں ہے۔ ہمارے زکوۃ کا ایک بڑا حصہ مدارس دینیہ کو چلا جاتا ہے لیکن اسکولوں و کالجوں ا ور یونیورسٹیوں کے غریب و نادار، معاشی بدحال اور مفلوک الحال طلباء کو ہم مستحق نہیں سمجھتے اور ان کو محروم رکھتے ہیں حالانکہ قرآن نے کہا ہے کہ وفی اموالکم حق للسائل و المحْروم ۔

اگر علاقائی طور اجتماعی زکوۃ کا نظام کیا جاتا ہے تو اس کے کئی فوائد ہوں گے سب بڑا فائدہ یہ ہوگا علاقائی طورپر معاشرہ میں اتحاد ہوگا ، لوگوں کے دکھ و سکھ اور تکلیف کے تئیں معاشرہ حساس ہوگا۔ سبھی لوگ جانتے ہیں کہ فی الحال سفراء کے ذریعہ زکوۃ اکٹھا کیا جاتا ہے اور سارے مدارس کے سفراء انفرادی طور پر فرداً فرداً لوگوں سے زکوۃ وصولتے ہیں جس میں زکوۃ کاکافی بڑا حصہ صرف ہوتا ہے بعض مرتبہ ۶۰ سے فیصد ۸۰ فیصد درمیان میں ہی رہ جاتا ہے اور مدارس کو صرف ۴۰ فیصد یا کم پہنچ پاتاہے۔ اس بدعنوانی کے امکانات بھی بے شمار ہیں۔ بڑے مدارس کو چھوڑ کر چھوٹے مدارس کے سفراء اور چندہ کرنے والے اساتذہ (سب نہیں) اس معاملے میں زیادہ دیانت دار نہیں ہوتے ، کچھ سفراء تو کمیشن کے بطور چندہ کرتے ہیں مثلاً یہ طے ہوتا ہے کہ کل رقم کا ۶۰ فیصد سفراء لیں گے اور ۴۰ فیصد مدرسہ لے گا بعض مرتبہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو اس میں سفراء حضرات ہیر پھیر سے گریز نہیں کرتے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں سرجوڑ بیٹھ کر ایسا نظام بنانا ہوگا جس سے کہ زکوۃ کی پوری رقم مدارس، مکاتب، فلاحی ادارے، غرباء مساکین اور حاجت مند حضرات تک پہنچ سکے۔ اس سلسلے میں ایسا میکانزم تیار کرنا ہوگا جس میں صاحب فراست علماء سمیت تمام شعبہائے حیات کے ماہر افراد شریک ہوں ۔ اگر علاقائی یا ضلعی سطح پر یا صوبائی سطح پر ایسا نظام تیار کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس بہت دوررس نتائج برآمد ہوں گے لوگوں کے معاشی مسائل حل کرنے میں بہت مدد ملے گی جس کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ اگرایسا ممکن ہوا تو سفراء پر جو اتنی بڑی زکوۃ کی رقم خرچ ہوتی ہے وہ بچ جائے گی اور آج کل مواصلاتی نظام اتنا ترقی یافتہ ہے کہ رقم بھیجنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔ زکوۃ فنڈ سے اہل مدارس کو خطیر رقم بھیجی جاسکے گی اور ان فرضی سفراء اور مدارس پر قدغن لگانا ممکن ہوگا جس کا کام ہی صرف چندہ کرنا ہے ۔ جو کام کرنے والے مدارس کے لئے مسائل اور شک و شبہات پیددا کرتے ہیں۔

ہندوستان میں وقف علی اﷲ کرنے کا رواج کم ہوتا جارہا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ وقف کرنے کا رجحان تقریباً نہیں کے برابر ہے تو بے جا نہ ہوگا اگرچہ ہندوستان میں سرمایہ ہندوؤں بنیوں اور سرمایہ داروں کے پاس ہے تو مسلمانوں میں کچھے ایسے تاجر اور صنعت کار ہیں جو اربوں روپے کے مالک ہیں اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ صرف ایک ارب روپے کا مالک ہے تو اس کے حساب سے زکوۃ کی کی رقم ڈھائی کروڑروپے ہوتی ہے اگر کروڑ پتی ہے تو ں ڈھائی فیصد کے حساب سے ڈھائی لاکھ روپے ہوتے ہیں جو کسی بھی علاقے میں زکوۃ کا اجتماعی نظام قائم کرنے اور تملیک کے بعد کوئی چھوٹا موٹا کارخانہ کھولنے کے لئے کافی ہوگا۔ اس کے ذریعہ مدارس و مکاتب ، فلاحی تنظیموں ، فقراء و مساکین یتیموں اور بیواؤں کی بازآبادکاری کے لئے کافی ہوگا۔

وقف کے لئے ضروری نہیں کہ صرف زمین اور مکان ہی وقف کیا جائے بلکہ ہر وہ چیز جو دوسروں کے لئے فائدہ مند اور معاش کا ذریعہ بن سکتی ہو وقف کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے بھی علاقائی طور پر ایک میکانزم تیار کرنا ہوگا ایک کمیٹی تشکیل دینی ہوگی جو گاوَں کے پنچوں کے ماتحت بھی ہوسکتی ہے یا علاقائی کمیٹی کے تحت ۔ صاحب ثروت حضرات وقف کریں مثلاً اگر کسی کے پاس بہت سارے بھینس ہے تو وہ بھینس وقف کرسکتا ہے اگر گائے ہے تو وہ گائے وقف کرسکتا ہے ، بکری ہے تو بکری وقف کرسکتاہے غرضیکہ وہ تمام چیزیں جو منفعت والی ہوں وقف کی جاسکتی ہیں۔ وقف کے گئے جانور غرباء کو اکتراء پر دیا جاسکتا ہے جو مویشی پال کر اس کے دودھ سے بیل ہے تو ہل جوت کر اور زمین ہے اس پر بٹائی پر کاشت کاری کرکے اپنا پیٹ پال سکتے ہیں اس سے نہ صرف اس میں خوش حالی آئے گی بلکہ علاقائی وقف نظام میں بھی پیسہ آئے گا جس سے اس کی مالیت سال بہ سال بڑھتی چلی جائے گی اور غریبوں کی غربت سال بہ سال گھٹتی چلی جائے گی۔ یہ کام تھوڑا مشکل تو ہے لیکن ناممکن نہیں۔

ہندوسان میں ایک اندازے کے مطابق زائد از20 ہزار کروڑ روپے زکوۃ کے مد میں نکالے جاتے ہیں اگر تمام صاحب نصاب حضرات زکوۃ ادا کریں تو یہ رقم دوگنی ہوسکتی ہے ہمیں ایسے نظام بنانے کی ضرورت ہے جس میں ہر محلے کے غریب خاندانوں کو زکوۃ کا فیض پہنچ سکے۔ ہمارے محلوں میں ایسی بے سہارا خواتین موجود ہوتی ہیں جو اپنے علاج ، اپنے بچوں کی تعلیم اور اپنی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے سخت پریشانی میں مبتلا ہوتی ہیں لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کرسکتیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا انتظار نہ کیا جائے کہ وہ سوال کریں۔ زکوۃ کے نظام کے نفاذ اور حصولیابی کے بعد اس بات کا اعلان ضروری ہو کہ زکوۃ سے کتنی آمدنی ہوئی یعنی اس کا گوشوارہ پیش کرنا تاکہ شفافیت برقرار رہے اور لوگوں کا اعتماد قائم رہے تاکہ لوگ یہ جان سکیں کہ ان کے زکوۃ کے فنڈ سے کن کن لوگوں کو مدد دی گئی، کتنے دینی مدارس ، فلاحی ادارے فیضیاب اور کتنے بے روزگار اپنے پاوّں پر کھڑے ہوئے۔
Abid Anwar
About the Author: Abid Anwar Read More Articles by Abid Anwar: 132 Articles with 87170 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.