اعتکاف بھی اور تعلیم وتربیت بھی

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

اعتکاف رمضان المبارک کی ایک منفرد عبادت ہے ۔دنیا بھر میں لاکھوں لوگ اعتکاف کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔اﷲ رب العزت کے خوش نصیب بندے رمضان المبارک کے دس دنوں کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر ،راحت اور سہولت کے تمام اسباب کو ترک کر کے ،اپنی جملہ مصروفیات اور مشاغل کو خیر باد کہہ کر، اپنے بیوی بچوں اور اہل خانہ سے دور اپنے اﷲ کی بارگاہ میں ،اپنے پیارے رب کی چوکھٹ پر ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ایسا موقع جب دل نرم ہوتے ہیں ،اﷲ کی رحمت اپنے جوبن پر ہوتی ہے ،نوازے جانے کے بہانوں کی تلاش ہوتی ہے ،لوگ اور بالخصوص نوجوان عجیب جذبے سے اعتکاف کے لیے تشریف لاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس موقع کو جس قدر مفید اور نتیجہ خیز بنانے کی ضرورت ہے اس قدر اہتما م نہیں ہو پاتا ۔کئی مساجد ایسی ہیں جن کے ائمہ وخطباء اور منتظمین معتکفین کی راحت وسہولت کا بندوبست کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے لیے تعلیم وتربیت کا انتظام کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی نظام الاوقات دے پاتے ہیں بلکہ کئی مساجد کے ائمہ وخطباء دس دنوں کے دوران معتکفین کے ساتھ کوئی ایک نشست بھی نہیں کر پاتے جس کے نتیجے میں بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں اور اپنی اصلاح اور اجر وثواب کے لیے دس دن تک اپنے رب کی چوکھٹ پر ڈیرے ڈالے رکھنے والے بسا اوقات اصلاح وتربیت کے حوالے سے خالی ہاتھ ہی لوٹ جاتے ہیں لیکن اس کے برعکس بعض مقامات پر اعتکاف کے اس عمل کو صحیح معنوں میں قیمتی بنایا جاتا ہے ۔اعتکاف کو ایک درسگاہ اور خانقاہ میں تبدیل کردیا جاتا ہے کراچی کے کئی اداروں کے بارے میں شنید ہے کہ وہاں معتکفین کے اوقات کو قیمتی بنانے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے ۔ہمارے ہاں اسلام آباد میں دارالعلوم زکریا میں مولانا پیر عزالرحمن ہزاروی صاحب کی نگرانی میں ملک بھر سے تشریف لانے والے لوگوں کے لیے بہت ہی مثالی انتظام ہوتا ہے ۔تعلیم ،تربیت ،رونا دھونا ،مناجات،عبادات ،سحر وافطار اور عشق ومحبت کے سارے ہی رنگ ہوتے ہیں ماشااﷲ ۔اسی طرح کچھ عرصے سے کربوغہ شریف میں مولانا مفتی مختارالدین شاہ صاحب کے ہاں سنتے ہیں کہ ماہ رمضان المبارک میں خوب بہاروں کا سماں ہوتا ہے ……ان بہاروں کو دیکھا تو نہیں لیکن ہمارے مربی اور محسن اور شفیق استاذ محترم جہاں مولانا عبدالغفارصاحب ،ہردلعزیز جواں سال مذہبی اسکالر مولانا سید عدنان کاکاخیل اور دیگر اہل علم اور اہل اﷲ ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں وہاں یقینا کچھ خوب ہی ہوگا ۔اﷲ سب کو استفادہ کی توفیق عطا فرمائیں ۔

راقم الحروف کو اس سال معہد الفقیرجھنگ جانے کی سعادت حاصل ہوئی ۔اﷲ اﷲ کیا ایمان افروز اور روحانی ونورانی مناظرتھے……جھنگ شہر میں داخل ہوں تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس شہر میں ایک ایسا جزیرہ بھی آباد ہوگا جہاں ملک بھر سے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے اہل دل نے آکر ڈیرے ڈال رکھے ہوں گے ،معہد الفقیرمیں یوں تو کئی برسوں سے اعتکاف کے جملہ انتظامات اور اہتمام کیا جاتا ہے لیکن اس سال اس معہد کو اپنے خون جگرسے سینچنے والے محبوب العلماء والصلحاء حضرت اقدس مولانا پیر ذوالفقاراحمد نقشبندی خود تشریف لائے ہیں۔ ان کی آمد نے معہد الفقیر کو بقعہ نور بنا دیا ہے ۔حضرت جی کی آمد سے اہل دل بھی کھنچے چلے آئے ۔نامی گرامی علماء کرام ،بڑے بڑے مدارس کے مہتممین ،ارشاد وسلوک کے مراکز کے مربی بھی معہد الفقیر میں اعتکاف کے لیے تشریف لائے اور عصری علوم اور مختلف شعبوں سے وابستگان جانے کہاں کہاں سے چلے آئے۔معہد الفقیر کی مسجد میں جاکر ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے ،ہر طرف نورانی چہرے ،سفید براق لباس میں ملبوس سالکین ،سفید عمامے ان کے نورانی چہروں کی رونق کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔معہد الفقیر میں بیتے چند دن زندگی کے یادگار لمحات ہیں ۔ایسے ایسے لوگوں کی زیارت نصیب ہوئی جو اپنے اپنے علاقوں میں مرجع الخلائق اورلوگوں کی اصلاح وتربیت کا منبع ہیں وہ بھی وہاں طالب علمانہ انداز سے زانوائے تلمذتہہ کررہے ہیں ۔دعاؤں میں ایسی آہ وزاری کے کامل یقین ہوتا ہے اس مجمع میں مانگی ہوئی مناجات ضرور شرف قبولیت پائیں گی ۔اﷲ کی یاد اور اﷲ کے ذکر کی ایسی کیفیات کہ انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے ۔تلاوت قرآن کریم سے ایسا شغف کہ سبحان اﷲ ،تعلیم وتربیت کا ایک منظم سلسلہ ،تہجد سے لے کر تراویح تک اور اشراق سے لے کر مناجات تک ایک مرتب نظام الاوقات ……کچھ نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جن کے چہرے دیکھ کر اﷲ یاد آتا تھا ان کی کارگزاری سنی تو حیرت ہوئی کبھی وہ ایسے ماحول میں تھے جسے دلدل ہی کہا جاسکتاہے ……بے حیائی ، بے دینی کے سرابوں میں گم اورغفلت کی آخری حدوں کو چھوتے ان نوجوانوں کی قسمت جاگی اور وہ مولانا پیر ذوالفقار نقشبندی سے وابستہ ہو گئے اور پھر زندگی میں ایسی تبدیلی آئی کہ نہ پوچھیے ……مختلف شعبوں سے آنے والے نوجوانوں کی آہ وزاری ،ان کی طلب ،ان کی وضع قطع اور ان کے معمولات کے بارے میں جان کر رشک آتا ہے ۔سوچتا ہوں کوئی ایسا ڈھنڈورچی ہو جو پنجاب کے ہر گلی کوچے میں جاکر یہ صدا لگائے کہ پنجاب کے لوگو! تم جو مدتوں سے تصوف کے نام پر دھوکے کھا رہے ہو،تزکیہ کے نام پر اپنے مال اور عزتیں قربان کر رہے ہو،ارشاد وسلوک کی راہوں پر چلنے کی کوشش میں گمراہی کی بھول بھلیوں میں نکل جانے والو!اپنے اﷲ کی تلاش میں نکل کر خود کھو جانے والو! اور رسوم ورواج کی گھمن گھیریوں میں الجھ کر رہ جانے والو! ایک دفعہ صرف ایک دفعہ سچے اﷲ والوں کے قدموں میں آکر تو دیکھو!صرف ایک مرتبہ اپنے ہی خطے کی اس خانقاہ میں تو جھانکیں جہاں اﷲ کی معرفت ،رسول اﷲ کی محبت اور ذکرومناجات کی حقیقی حلاوت نصیب ہوتی ہے،جہاں انسانوں کی زندگیوں کی روش تبدیل ہوتی ہے اورجہاں بہت سے بگڑے ہوؤں کی کایا پلٹ کر رہ جاتی ہے ۔

اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ فتنوں کے دور میں سورہ کہف فتنوں سے حفاظت کا قلعہ ثابت ہوگی چنانچہ حضرت جی مولانا ذوالفقار نقشبندی نے اس سال اعتکاف کے دوران سورہ کہف کی تفسیر پڑھانا شروع کی ۔آج کے دور میں جب نوجوان اور فرصت والے لوگ مطالعہ کرنے کا تردد نہیں کرتے مولانا پیر ذوالفقار نقشبندی کی گوناگوں مصروفیات ،بڑھاپے اور علالت کے باوجود مطالعہ کا اہتمام قابل رشک اورقابل تقلید ہے۔بیسیوں تفاسیر کا نچوڑ جس انداز سے پیش کیا اور سورہ کہف کی روشنی میں موجود ہ حالات کا جس طرح تجزیہ فرمایا اور مسلمانوں کو موجودہ حالات میں فتنوں سے حفاظت کے لیے جو راہ عمل دی وہ بلاشبہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔مولانا پیرذوالفقار نقشبندی کے خدام کو اﷲ رب العزت جزائے خیر عطا فرمائیں کہ وہ ان کے فیوض اور علمی جواہر پاروں کوامت کے لیے محفوظ کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس سال اعتکاف کے دوران حضرت جی کے سورہ کہف کے حوالے سے دروس ہر مسلمان کے سننے ،پڑھنے ،اپنانے اور آگے پہنچانے کی چیز ہیں ۔آپ نے سورہ کہف کے دروس میں موجودہ دور میں فتنوں سے بچنے کے لیے پانچ راستے بتائے ہیں اور انہیں آج کے دور کے کہف قرار دیا ہے (۱) دینی مدارس (۲) دعوت وتبلیغ کی محنت (۳)متبع سنت اہل اﷲ کی خانقاہیں (۴)قرآن کریم ،دروس قرآن اور تحفیظ قرآن کے حلقے اور(۵)مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ۔سچی بات یہ ہے کہ موجودہ دور میں فتنوں سے حفاظت کے لیے اور اپنا اپنا ایمان بچانے کے لیے ان پانچ راستوں میں سے کم ازکم کوئی ایک راستہ ضرور اپنانا چاہیے۔

جھنگ کے لیے رختِ سفر باندھتے ہوئے عجیب گومگو کی کیفیت تھی ، ڈرتے ڈرتے اورمجاہدے کی نیت کے ساتھ گھر سے روانہ ہوا تھا کہ جولائی کا مہینہ ہے، جھنگ کی گرمی اور معتکفین کے رش کا نہ جانے کا کیا عالم ہوگا اور کیا خبر کس کس مجاہدے سے گزرنا پڑے گا ،خیال تھا کہ شاید چند لمحات گزارنا بھی مشکل ہو گا لیکن ایسا حسن انتظام کہ دل میں ٹھنڈ پڑگئی۔بھاری اخراجات کا بوجھ اٹھا کر مسجد میں معتکفین کے لیے اے سی کے بڑی بڑے یونٹ نصب کیے گئے تھے ،ہزاروں لوگوں کی سحری وافطاری اور کھانے کا انتظام ،اجتماعی اور انفرادی اعمال کا مثالی نظم وضبط دیکھ کر معہد الفقیر کے شیخ الحدیث مولانا حبیب اﷲ اور حضرت جی کے صاحبزادے مولانا سیف اﷲ نقشبندی اور ان کے رفقاء کے لیے دل سے دعائیں نکلتی رہیں ۔برادرگرامی مولانا اسد صاحب جو اس حاضری کا ذریعہ بنے اﷲ انہیں اپنا محبوب بنالیں اورہمارے میڈیا ورکشاپ کے شرکاء مولانا زید الحسن ،مولانا عمر فاروق ،ملک محسن حیات اور دیگر دوستوں نے جس خلوص ،محبت اور خدمت کا اہتمام کیا اس کی اﷲ انہیں جزائے خیر عطا فرمائیں ۔

معہد الفقیر جھنگ کی جامع مسجد ان دنوں معتکفین کے لیے محض ایک معتکف ہی نہیں بلکہ درسگاہ ، تربیت گاہ ، خانقاہ اور عبادت گاہ کے جملہ رنگ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔اﷲ ان بہاروں کو سلامت رکھے اور اﷲ ہر ایمان والے کو ایسے ماحول سے جڑنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 130566 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.