ایک اور یومِ شہدائے کشمیر

تحریر: اے آر قیصر

برہان وانی کی شہادت کے بعد ہزاروں نہتے کشمیریوں کے شہر شہر وادی وادی مظاہروں نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کردی کہ کشمیریوں کے دل مجاہدین آزادی کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ قاتل بھارتی فوج نہتے کشمیری مظاہرین پر فائرنگ کرکے 21کشمیریوں کو شہید اور 300سے زائد کو زخمی کردیا ہے۔ شہداء کی تعداد میں شدید زخمیوں کے تناظر میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ بہرحال 13جولائی یوم شہدائے کشمیر سے پہلے بھارت نے ایک اور یوم شہداء کشمیر کردیا ہے جن کا لہو عنوان بنے گا آزادی کے افسانے کا ۔ امریکی میڈیا نمائندگان سے بات کرتے ہوئے بھارتی لیفٹیننٹ جنرل ہودا نے اعتراف کیا ہے کہ مجاہدین آزادی کشمیر کو عوامی حمایت و تائید حاصل ہے اور بھارت اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود کشمیریوں کے دل جیتنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ کشمیری عوام مجاہدین کی بھرپور مدد کرتے ہیں جبکہ وہ مجاہدین سے لڑنے والے بھارتی فوجیوں سے کوئی ہمدردی ظاہر نہیں کرتے۔ ایک اور بھارتی آفیسر کہا کہ کشمیری لگتا ہے کہ ایک آزاد خطے میں ہیں جہاں وہ عوامی حمایت سے مجاہدین اپنے مرضی کے مطابق کارروائیاں کرتے ہیں۔
13 جولائی 1931ء کو 22 کشمیری مسلمانوں نے کشمیر کو ڈوگرہ راج سے آزاد کرانے کے لئے سری نگر جیل کے باہر اپنی جانیں قربان کیں اور شہادت پائی۔ 13 جولائی 1931ء کو شروع ہونے والا سلسلہ رکا نہیں۔ 80 برس سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود کشمیری آج بھی حق خودارادیت کے لئے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ اس وقت ڈوگرہ راج اور اب بھارت کی غاصب فوج کا دلیری سے مقابلہ کررہے ہیں لیکن آفرین ہے ان کے جذبہ حریت میں زرہ برابر بھی کمی نہیں آئی۔ مقبوضہ کشمیر اور دنیا بھر میں موجود کشمیری 13 جولائی 1931ء کو شہادت نوش کرنیوالے مسلمانوں کو آج بھی اسی طرح یاد کرتے ہیں اور ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں جو علم انہوں نے اٹھایا تھا وہ کبھی سرنگوں نہیں ہوگا۔ کشمیر میں 1846ء سے 1947ء تک 101 برس ڈوگرہ راج رہا۔ اس دوران ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیری مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور ان کی زندگیوں کو بہت مشکل اور تکلیف دہ بنا دیا۔ کشمیری مسلمانوں سے جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ ان پر بھاری ٹیکس نافذ تھے۔ بہت کم تنخواہ دے کر مشقت لے جاتی تھی۔ گائے ذبح کرنے پر سخت سزا دی جاتی تھی۔ کشمیری مسلمان مسلسل دہشت کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ سر والٹر لارنس اپنی مشہور کتاب ’’ہندوستان میں جہاں ہم نے خدمات سرانجام دیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیری دیہات میں فوج تعینات کررکھی تھی جو دیہاتیوں کو فصلیں کاشت کرنے پر مجبور کرتے اور پھر جب فصل تیار ہو جاتی تو اس میں سے ایک بڑا حصہ زبردستی حکومت کسانوں سے چھین لیتی اور لوگوں کے پاس شدید سردیاں گزارنے کے لئے بہت کم اناج رہ جاتا۔ ڈوگرہ اقتدار کے دوران کشمیری مسلمانوں کو کسی قسم کے سیاسی اور مذہبی حقوق حاصل نہیں تھے۔ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے کشمیری مسلمان سری نگر میں خانقاہ مولا میں جمع ہوئے جہاں کشمیری مسلمان رہنماؤں نے خطاب کیا۔ جب یہ اجلاس اپنے اختتام پر تھا تو ایک نعرہ بلندہوا کہ ’’مہاراجہ کے محل کی اینٹ سے اینٹ بجادو‘‘۔ یہ نعرہ ایک کشمیری مسلمان عبدالقدیر نے لگایا تھا۔ اسے گرفتار کرلیا گیا اور سری نگر کی سنٹرل جیل میں ٹرائل شروع کیا گیا۔ 13 جولائی 1931ء کو ہزاروں کشمیری ٹرائل کے روز جمع ہو گئے جب نماز کا وقت ہو گیا تو ایک کشمیری نوجوان نے اذان دینا شروع کی۔ ڈوگرہ گورنر رے زادہ تارتیلوک نے اپنے سپاہیوں کو اذان دینے والے نوجوان پر فائر کرنے کا حکم دیا۔ سپاہیوں نے فائرنگ کرکے اسے شہید کردیا جب وہ نوجوان شہید ہوا تو اس کی جگہ دوسرے نوجوان نے لے لی اور اذان دینا شروع کی۔ اسے بھی گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ اس طرح 22 کشمیری نوجوان مسلمان نے جام شہادت نوش کیا لیکن اذان کو مکمل کیا۔ ہزاروں لوگوں نے ان 22 کشمیری مسلمانوں کی میتوں کو اٹھایا اور سری نگر کی گلیوں میں مارچ کیا۔ یہ لوگ ڈوگرہ راج کے ظلم کے خلاف نعرے لگا رہے تھے پورے شہر میں مکمل ہڑتال کی گئی اور ہفتوں تک سوگ منایا گیا۔ اس واقعہ نے پوری ریاست کو ہلاک کر رکھ دیا۔ 13 جولائی سے 26 جولائی 1931ء کے دوران سری نگر سے راولپنڈی اور سری نگر سے جموں جانے والی ٹریفک بند رہی۔ 22 شہداء کو خواجہ بازار سری نگر کے شہداء قبرستان میں دفن کیا گیا لیکن ہندوستان کی تقسیم کے بعد بھی کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کم نہ ہوا۔ بھارت نے کشمیری مسلمانوں کو 1947ء سے حق آزادی سے محروم کررکھا ہے اور 7 لاکھ فوج تعینات کرکے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ انسانی حقوق کا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا ریکارڈ انتہائی خوفناک ہے جس میں کشمیری مسلمانوں کا اغواء، قتل، تشدد، مسلمان کشمیری خواتین کی عصمت دری اور ماورائے قانون ہلاکتیں شامل ہیں۔ 1989ء سے جب کشمیری جدوجہد آزادی نے نیا رُخ اختیار کیا اور پورے زور و شور سے شروع ہوئی تو بھارتی فوج نے کشمیری مسلمانوں کی اکثریتی آبادی کیخلاف ہر غیر انسانی حربہ استعمال کیا۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی اپنے عروج پر ہے۔ بھارتی فوج آج بھی کشمیری مسلمانوں کو آئے روز شہید کررہی ہے اور اقوام متحدہ کی منظوری ہونے والی قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کررہی جن کے مطابق کشمیر میں بسنے والوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ بھارت نے ان قراردادوں کو پس پشت ڈال کر مجاہدین کشمیر کو شہید کررہا ہے۔ اب تک تقریباً 6 لاکھ کشمیری جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ 13 جولائی یوم شہادت کے روز کشمیری اپنے حق آزادی کو جاری رکھنے کا عزم کرتے ہیں۔ اس موقع پر پاکستان کے لوگ اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ پاکستانی عوام کشمیری بھائیوں کے دکھ درد اور تکلیف کو اپنا دکھ درد اور تکلیف سمجھتے ہیں۔ یہ دن بھارت کے لئے ایک پیغام ہے کہ وہ زیادہ عرصہ ڈوگرہ راج کو طول نہیں دے سکتا۔ اس کے خاتمے کا دن بہت قریب ہے۔
Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 94747 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.