طارق محمود اعوان
بھارت کشمیریوں کا قاتل ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسند کمانڈر برہان وانی
کی شہادت کے بعد مظاہرین پر بھارتی فوج کی وحشیانہ فائرنگ سے 20 افرادشہید
اور سینکروں زخمی ہو گئے وادی میں کرفیو نافذ اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل
رہی۔ مواصلاتی نظام ٹھپ ہو کر رہ گیا ۔ بانہال سے شمالی کشمیر جانے والی
ریل سروس بھی بند کردی گئی ۔ہزاروں مشتعل افراد کرفیو کی پرواہ کئے بغیر
سڑکوں پر نکل آئے ۔ مظاہرین نے پا کستانی پر چم لہرائے، بھارتی فورسز پر
شدید پتھراؤ کیا جس سے سیکڑوں اہلکار زخمی ہوگئے۔ توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ
،درجنوں گاڑیاں نذر آتش کردی گئیں ۔حریت کانفرنس نے پیر اور منگل کو مزید
دوروزہ ہڑتال کی کال دے دی ۔ سید علی گیلانی ،میر واعظ عمرفاروق یاسین ملک
سمیت درجنوں حریت رہنما گھروں میں نظر بند ہیں ۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر
میں بھارتی فوج کے ہاتھوں نہتے کشمیریوں کی شہادت پر گہرے رنج وغم اور
کشمیری قیادت کی نظربندی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی حکومت کو ایک
بار پھر باور کرایا ہے کہ ایسے وحشیانہ تشدد اور فوجی طاقت کے ذریعے
کشمیریوں کو ان کے حق خودارادیت کے مطالبے سے کسی صورت دستبردار نہیں کرایا
جاسکتا پاکستان نے ایک بار پھر اپنے اصولی اور دیرینہ موقف کا اعادہ کرتے
ہوئے کہا ہے کہ بھارت کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی
قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے کیونکہ مسئلہ کشمیر کا حل صرف اقوام
متحدہ کی قراردادوں کے تحت ہی ممکن ہے۔
بہرحال موجودہ تحریک آزادی کشمیر 13جولائی 1931ء کے شہداء کے مشن کا تسلسل
ہے۔ بھارتی افواج مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔ بھارتی فوج کے
خلاف جنگی جرائم کے مقدمے چلائے جانے چاہئیں۔ بھارت سات لاکھ فوج اور
سکیورٹی فورسز کے بل بوتے پر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف
ورزیاں کرکے غاصبانہ قبضے کو طول دینے کی پالیسی پر گامزن ہے تاہم بھارت
فوجی طاقت سے زیادہ عرصے تک کشمیر پر جابرانہ تسلط قائم نہیں رکھ سکتا۔
دیوار برلن ٹوٹ سکتی ہے تو کشمیریوں کو جدا کرنے والی خونی لکیر بھی مٹ کر
رہے گی۔مہذب اقوام مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں بند کروائیں
اور کشمیری عوام کو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ استصواب رائے کا حق
دلوائے۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی بڑھتی
ہوئی پامالیاں عالمی تنظیموں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ مہذب دنیا مقبوضہ
کشمیر میں فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجے تاکہ مقبوضہ کشمیر کی سنگینی منظر عام پر
آ سکے۔ بھارت کے غیر ذمہ دارانہ رویے نے کشمیر ایشو کو بارود کا ڈھیر بنا
دیا ہے جس سے برصغیر کے امن شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ 1989ء میں جب
تحریک آزادی کشمیر میں تیزی آئی تو اُس وقت سے لے کر 2012ء تک 93831
ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ تقریباً ایک لاکھ کی ان قربانیوں کے بعد تو آزادی
کشمیریوں کا استحقاق بنتا ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ بچے یتیم ہو چکے ہیں۔
تقریباً تیس ہزار عورتیں بیوہ ہو چکی ہیں اور تقریباً دس ہزار عورتوں کی بے
حرمتی کی جاچکی ہے۔ 2013ء میں بھی 34 سے زائد افراد شہید ہوئے۔ ان اموات
میں ہزاروں پولیس کے زیر حراست ہوئیں ہیں اور گرفتاریوں کا تو کوئی شمار
نہیں۔ ان میں سے ایک ایک شہید اپنے پیچھے کتنے لواحقین چھوڑ رہا ہے کتنے
بوڑھے والدین، معصوم بچے اور بیوہ عورتیں کشمیر کی وادی میں بھارتی مظالم
کا کھلا ثبوت ہیں۔
بہرحال شہدائے 13جولائی 1931ء کو خراج عقیدت پیش کرنے کا اصل طریقہ ان کے
ادھورے مشن کو مکمل کرنا ہے۔ شہداء کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیا
جائیگا۔ نوجوان کشمیری نسل کو طاقت اور تشدد سے مغلوب نہیں کیا جا سکتا اور
نہ ہی کشمیریوں کی نئی نسل کو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حق خود ارادیت
کے موقف سے پیچھے ہٹایا جاسکتا ہے۔ریاست جموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کی
قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کی جدوجہد شہدائے کشمیر کی مرہون منت
ہے۔کشمیر کوئی مذہبی، علاقائی یا لسانی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سیاسی
اور انسانی مسئلہ ہے اور اس کو اسی نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کشمیری
اپنے پیدائش حق، حق خودارادیت کے حصول کے لئے بیش بہاء قربانیاں دے رہے ہیں
لہٰذا ان کے احساسات اور جذبات کو سمجھا جائے اور اس مسئلہ کے حل کے لئے
حقیقت پسندانہ سوچ اپنائی جائے۔ مسئلہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان
کشیدگی کی بنیادی وجہ ہے اور اس مسئلہ کی وجہ سے ہی دونوں ملکوں کے درمیان
متعدد جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی وجہ سے کشمیری
تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں اور وہ ایک مستقل کرب و عذاب سے دو چار ہیں۔ مسئلہ
کشمیر کے دو نہیں تین فریق ہیں پاکستان اور بھارت مذاکرات میں کشمیر کی
حقیقی قیادت کو بھی شامل کرنا ہوگا جس کی وجہ یہ ہے کہ کشمیریوں کی شمولیت
کے بغیر مسئلہ کشمیر کا کوئی پائیدار حل نہیں نکل سکتا تاہم اقوام متحدہ کی
قراردادوں کی صورت میں مسئلہ کشمیر کا بہترین حل موجود ہے اس پر عمل کرنے
کے لئے روڈ میپ بھی موجود ہے۔ |