عید کی تاریخی حیثیت، مستحبات اور اعمال: احادیث کے آئینے میں

عید الفطر کے اس پر بہار موقع پر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے غریبوں اور مفلسوں کو یاد رکھا اور اغنیاء کو حکم دیا کہ تم صدقہ فطر دیا کرو تاکہ تمہارے غریب بھائی بہن جو اپنی غربت کی وجہ سے عید نہیں مناسکتے وہ عیدا لفطر کی اس خوشی میں تمہارے ساتھ شریک ہو جائیں گے دوسرا فائدہ یہ ہے کہ رمضان کے روزوں میں اگر نقص یا فضول کام ہو جائیں ۔جیسے جھوٹ فحش غیبت غیر محرم کو دیکھنا یہ صدقہ اسکا بدلہ ہے جو روزے کو پاک وصاف کردیتا ہے چنا نچہ حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ﷺنے صدقۂ فطر اس لئے مقرر فرمایا تاکہ لغو اور بیہودہ کلام سے روزہ کی طہارت ہو جائے اور دوسری طرف مساکین کے لئے خوراک بھی ہوجائیں(ابوداؤد )

یوم عید کے اعمال
عید کے روز غسل کرنا، خوشبو لگانا اور خوبصورت کپڑے پہننا مستحب ہے۔ حضرت جعفر بن محمد اپنے والد کے واسطے سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ہر عید کے روز اپنی جری چادر (یمن کی ایک عمدہ چادر) پہنا کرتے تھے (شافعی)حضرت نافع رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عمررضی اﷲ عنہ عبدالفطر کے روز عید الفطر کے روزعید گاہ جانے سے پیشتر غسل کیا کرتے تھے۔(موطا امام مالک)عید الفطر کے روز نماز کو جانے سے پہلے اور عیدالاضحی کے روز نماز سے واپسی کے بعد کھانا مسنون ہے۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ عید الفطر کے روز نبی اکرم ﷺ اس وقت تک نماز کے لیے نہیں نکلا کرتے تھے جب تک آپ چند کھجوریں کھالیتے اور آپ طاق (۱،۳،۵،۷)تعداد میں کھجوریں کھایا کرتے تھے(احمد ،بخاری)نماز عید کا شہر سے باہر جاکر میدان میں ادا کرنا افضل ہے ۔نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ سے باہر نکل کر مصلیٰ عید گاہ میں نماز عید ادا فرمایا کرتے ہے۔ البتہ اگر بارش ہوتی تو مسجد ہی میں نماز پڑھ لیتے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ عید کے روز بارش ہو رہی تھی تو نبی ﷺ نے لوگوں کو مسجد ہی میں عید کی نماز پڑھائی۔(ابو داؤد ،نسائی)اکثر ائمہ جن میں امام ابو حنیفہ مالک اور احمد بن حنبل شامل ہیں کے نزدیک نماز عید کا بلا عذر مسجد میں پڑھنا مکروہ ہے ۔شافعیہ کے نزدیک نماز عید کا مسجد میں ادا کرنا بہتر ہے۔ مسجد تنگ ہو تو شہر سے باہر نکلنا مسنون ہے۔

عید کے مستحبات
عید کے دن چند امور سنن میں سے ہیں (۱)حجامت بنوانا (۲)ناخن ترشوانا (۳)غسل کرنا (۴)اچھے کپڑے پہننا نئے کپڑے ہوں تو نئے کپڑے پہننا ورنہ پرانے کپڑے پہننا (۵) خوشبو لگا نا ۔الکوحل سے بنی ہو ئی اسپرٹ کا استعمال نہ کریں یہ ناپاک ہوتے ہیں(۶)انگوٹھی پہننا مگر ایک سے زائد نہ ہوں اور نہ ہی ایک سے زائد نگینہ لگا ہو (۷)نماز فجر محلہ کی مسجد میں پڑھنا (۸)عیدالفطر جانے سے پہلے چند کھجوریں کھالینا (۹) عیدکی نماز عید گاہ پر ادا کرنا (۱۰)عید گا ہ پیدل جانا،سواری پر جانے میں کو ئی حرج نہیں (۱۱)بعد نماز عید مصافحہ ومعانقہ کرنا (۱۲)آپس میں مبارک باد دینا ۔

نمازعید کی تا ریخی حیثیت
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیشہ عید کی نماز عید گاہ میں ادا فرمائی صرف ایک بار بارش کی وجہ سے مسجد میں ادا کی۔ عید کے دن طاق کھجوریں کھانا سنت ہے آپ ﷺ کے زمانے میں عیدگاہ میں منبر نہ تھا۔ سب سے پہلے مروان بن حکم نے عید گاہ میں منبر کا رواج ڈالاجو حضرت امیر معاویہ کے زمانے میں امیر مدینہ تھا اور ایک روایت میں ہے کہ منبر کی بنیاد حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں پڑی۔

عید گاہ پیدل جانا سنت ہے
ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں سنت یہ ہے کہ عید گاہ کی طرف پیدل جایا جائے اور نکلنے سے پہلے کوئی چیز کھالی جائے۔حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کبھی عید گاہ کی طرف پیدل جایا کرتے تھے۔( ابن ماجہ)عید گا ہ جاتے وقت بلند آواز سے تکبیر کہنا مستحب ہے۔ حضرت ابن عمررضی اﷲ عنہ کے متعلق روایت ہے کہ جب وہ عید گاہ کی طرف نکلتے تو بلند آواز سے تکبیر کہتے ۔دوسری روایت میں ہے عید الفطر کے روز جب سورج نکل آتا تو آپ عید گاہ کی طرف نکلتے اور تکبیر کہتے یہاں تک کہ آپ عید گاہ پہنچ جاتے پھر آپ عید گاہ میں بھی تکبیر کہتے رہتے، یہاں تک کہ جب امام بیٹھ جاتا یعنی نماز شروع ہوتی تو آپ تکبیر کہنا بند کردیتے ۔

عید گاہ جانے سے پہلے کھجور نوش کرنا
حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کھجوریں نوش فرمائے بغیر عیدگاہ تشریف نہیں لے جاتے تھے اور کجھوریں طاق کھاتے تھے (بخاری)آپ ﷺ عید گاہ جانے سے قبل کھجوریں تناول فرما تے گویاکہ کھانے میں جلدی کرتے تھے تاکہ پہلے دنوں یعنی ایام رمضان سے امتیاز پیدا ہوجائے کیوں کہ جس طرح رمضان میں نہ کھانا واجب ہے اسی طرح عید کے روز کھانا واجب ہے کہ عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے اور طاق عدد یعنی تین ،پانچ ،سات وغیرہ اس لئے نوش فرماتے کہ ہر کام میں طاق کی رعایت کرنا بہتر ہے کیونکہ کہ اﷲ تعالیٰ طاق (ایک)ہے او ر طاق کو پسند کرتا ہے ۔

عید گاہ آنے جانے کا طریقہ
حضرت جابررضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب عید کا دن ہوتا تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم راستوں میں فرق کرتے (بخاری)یعنی ایک راستہ سے تشریف لے جاتے اور دوسرے سے واپس آتے اور اسکی ایک حکمت یہ بھی تھی کہ دونوں راستوں پر رہنے والے جن وانس عبادت کی گواہی دیں ۔نیز عیدگاہ جاتے ہوئے راستہ میں تکبیر یعنی ’’اﷲ اکبر اﷲ اکبرلا الہ اﷲ واﷲ اکبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد ۔ پڑھتے رہنا چاہئے ۔

عید کی نماز تاخیر سے کیوں؟
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن حزم رضی اﷲ عنہ کو جونجران میں تھے یہ(حکم )لکھ کر بھیجا کہ بقرعید کی نماز جلدی اور عید کی نماز تاخیر سے ادا کرو نیز (خطبہ میں)لوگوں کو پند ونصیحت کرو (مشکوۃ)بقرعید کی نماز میں جلدی اس لئے تاکہ لوگ نماز سے جلد فارغ ہوجائیں اور قربانی وغیرہ میں مشغول ہوجائیں اور عید کی نماز میں تاخیر اسلئے تاکہ لوگ نماز سے پہلے پہلے صدقہ ٔفطراداکرلیں۔

پہلی نماز عید
حضور ﷺ نے پہلی نماز عید ۲ ؁ھ میں نماز عیدالفطر ادا کی اور پھر اسے کبھی ترک نہیں فرمایا لہذا یہ سنت موکدہ ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ اپنی عیدوں کو تکبیروں سے زینت بخشو۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے عید کے دن تین سو مرتبہ’’ سبحن اﷲ وبحمدہ‘‘ پڑھی اور مسلمانوں کی روحوں کو اس کا ثواب ہدیہ کیا تو ہر مسلمان کی قبر میں ایک ہزار انوار داخل ہوتے ہیں اور جب وہ مرے گا اﷲ تعالےٰ اس کی قبر میں ایک ہزار انوار داخل فرمائے گا۔جناب وہب بن منبہ رضی اﷲ عنہ کا کہنا ہے کہ شیطان ہر عید پر نوحہ وزاری کرتا ہے اور تمام شیطان اس کے اردگرد جمع ہو کر پوچھتے ہیں اسے آقا، آپ کیوں غضبناک اور اداس ہیں ؟وہ کہتا ہے اﷲ تعالٰی نے آج کے دن امت محمدیہ ﷺ کو بخش دیا ہے لہذا تم انہیں لذتوں اور خواہشات نفسانی میں مشغول کرو۔جناب وہب بن منبہ رضی اﷲ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ اﷲ تعالٰی نے عیدالفطر کے دن جنت کو پیدا فرمایا اور درخت طوبیٰ عیدالفطر کے دن بویا جبریل کا وحی کے لئے عیدالفطر کے دن انتخاب کیا اور فرعون کے جادوگروں کی توبہ بھی اﷲ تعالےٰ نے عیدالفطر کے دن قبول فرمائی۔فرمان نبوی ہے کہ جس نے عید کی رات طلب ثواب کے لئے قیام کیا اس دن اس کا دل نہیں مرے گا جس دن تمام دل مرجائیں گے۔

نماز عید کا طریقہ
پہلے اس طرح نیت کرے کہ نیت کی میں نے دو رکعت نماز عیدالفطر یاعید الاضحیٰ کی چھ تکبیروں کے ساتھ اﷲ تعالی کے لئے( مقتدی یہ بھی کہے پیچھے اس امام کے) منہ میرا طرف کعبہ شریف کے طرف ۔پھر دونوں کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اﷲ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے اور ثنا پڑھے۔ پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اﷲ اکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے۔ پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اﷲ اکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اﷲ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے۔ چوتھی تکبر کے بعد امام آہستہ سے اعوذ باﷲ وبسم اﷲ پڑھ کر بلند آواز سے الحمد اور کوئی سورہ پڑھے اور رکوع وسجدہ سے فارغ ہو کر دوسری رکعت میں پہلے الحمد اور کوئی سورہ پڑھے پھر تین بار کانوں تک ہاتھ اٹھا کر ہر بار اﷲ اکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے اور چوتھی تکبیر میں بلاہاتھ اٹھائے تکبیر کہتا ہوا رکوع میں چلا جائے اور باقی نماز دوسری نمازوں کی طرح پوری کرے۔ سلام پھیرنے کے بعد امام دو خطبے پڑھے پھر دعا مانگے۔ پہلے خطبہ کو شروع کرنے سے پہلے امام نو بار اور دوسرے کے لئے سات بار اور ممبر سے اترنے سے پہلے چودہ بار اﷲ اکبر آہستہ سے کہے کہ یہ سنت ہے۔

شوال کے روزے
شوال کے مہینے میں چھ دن کے روزے جنہیں شش عید کے روزے بھی کہا جاتا ہے اس کے رکھنے سے بڑا ثواب ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ راوی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد چھ دن شوال میں رکھے تو گناہوں سے ایسا نکل گیا جیسے آج ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔( طبرانی)
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 674442 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More