جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم کے ۶۰ ویں یوم تاسیس کے موقع پر
(Syed Farooq Ahmed Syed, India)
﴿جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم کے ۶۰ ویں یوم تاسیس کے موقع پر ایک خصوصی مضمون﴾
’منشورکاشف ‘کے خصوصی شمارہ میں شامل مشاہیر اہل قلم کے تاثرات و احساسات کی روشنی میں ’’جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم اور مرحوم ناظم جامعہ مولانا ریاض الدین فاروقی پر ایک فکرانگیز تحریر‘‘
|
|
از : ڈاکٹر مولانا محمد عبدالسمیع ندوی
۳۰؍دسمبر ۲۰۱۵ء بروزبدھ ، گیارہ بجے صبح، سعید ہال میں جامعہ اسلامیہ کاشف
العلوم کے ترجمان ماہنامہ منشور کاشف کے خصوصی شمارہ کی رسم اجراء عمل میں
آئی تھی۔ ۱۷۲؍صفحات پر مشتمل اس خصوصی شمارہ میں شامل مشاہیر اہل قلم کے
تاثرات و احساسات کی روشنی میں جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم اور مرحوم ناظم
جامعہ مولانا ریاض الدین فاروقی ندوی پر ایک فکرانگیز تحریر پیش کی جارہی
ہے جس سے جامعہ اور ناظم جامعہ کی خصوصیات ذکر کرنا مقصود ہے۔
ریاست مہاراشٹر کا ایک ایسا ادارہ جس کی بنیاد حضرت مولانا سعید خان صاحبؒ
کے ہاتھوں ۱۰؍شوال المکرم ۱۳۷۸ھ مطابق ۱۹؍اپریل ۱۹۵۹ء میں عمل میں آئی تھی۔
سن ہجری کے اعتبار سے آج اس ادارے کے قیام کو ۵۹ سال ہوگئے۔ درحقیقت جامعہ
اسلامیہ کاشف العلوم مہاراشٹر کی سب سے عظیم و قدیم دینی درسگاہ اور سب سے
عظیم شخصیت مولانا محمد ریاض الدین فاروقی ندوی دونوں لازم وملزوم کی شناخت
کے حامل رہے ہیں۔ یعنی جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم کے بغیر مولانا ریاض
الدین فاروقی ندوی اور ان کے بغیر جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم ادھورے سمجھے
جاتے رہے ہیں۔دس ماہ قبل ۱۶؍ستمبر مطابق یکم ذی الحجہ بروز بدھ مولانا ریاض
الدین فاروقی ندوی نے دنیائے فانی کو الوداع کہا۔ تب سے آج تک جامعہ
اسلامیہ کاشف العلوم سونا سونا نظر آرہا ہے۔ علمی چہل پہل میں رعنائی نہیں
رہی۔ در و دیوار میں اداسیت، مایوسیت ، اساتذہ و طلباء پژمردگی کا شکار ،
عجیب اضطرابی کیفیت ، آپسی تال میل ، نظریاتی ہم آہنگی ، سکون اور اطمینان
کی کیفیت ذہنی و طبقاتی کشمکش جیسی چیزوں پر سوالیہ علامتیں نظر آرہی ہیں۔
خلوص و ﷲیت او رایثار و قربانی جیسے موضوعات پر شعلہ بیانی کے پیکر ’’میرے
مربی ، میرے استاذ ‘‘ کے قلم کار طوطی مرہٹواڑہ اپنی نمایاں خصوصیات اور
ممتاز صفات میں طلبا اور اساتذہ میں معروف شخصیت ، دینی جلسوں کے علاوہ
اصلاحی معاشرے کے پروگراموں میں شہر کی گلیوں سے لے کر ہندوستان کی
راجدھانی دلی تک علمی، دینی ، سیاسی ، سماجی مسائل پر گہری نظر رکھنے والے
سفاح و نکاح ، خلع و طلاق ، متعہ و حلالہ ، عائلی مسائل پر دسترس رکھنے
والے ، کینہ ، حسد ، بغض ، غیبت و چغلی جیسے اخلاق رذیلہ ، احسان و خوش
خلقی ، مروت و ہمدردی ، اخوت و شفقت جیسے اخلاق فاضلہ پر سیرحاصل گفتگو
کرنے والے شعلہ بیاں مقرر حج و عمرہ کی بارہا سعادت سے مشرف وملقب بہ مسیح
الامت حضرت مولانا نسیم الدین مفتاحی منشور کاشف کے اس خصوصی شمارہ کے صفحہ
نمبر ۱۹ پر رقم طراز ہیں :
حضرت مولانا ریاض الدین فاروقی ندویؒ کا دورِنظامت ، مہاراشٹر کے مدارس کی
تاریخ میں سب سے طویل عرصہ ۵۱ سال پر مشتمل ہے۔ ناظم جامعہ کے منصب پر فائز
ہونے کے بعد مولانا نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔حالات کے باوجود بڑی
حکمت و دانائی اور اخلاق سے اور مسلسل شب و روز کی جدوجہد سے جامعہ کو ترقی
دیتے رہے۔ جامعہ کی خدمات کے علاوہ مولانا کے بہت سے دینی و علمی کام تھے۔
جامعہ کے بعد جو سب سے بڑا کارنامہ ہے وہ ’’مردم سازی‘‘ ہے۔ مہاراشٹر میں
مولانا کے بہت سے نامور شاگرد ہیں جو مولانا کی تربیت کی وجہ سے اپنی علمی
و دینی شہرت رکھتے ہیں۔ اِس خادم کو حضرت مولانا سے شرف تلمذ حاصل ہے اور
۱۹۷۲ء سے مجھے جامعہ میں تدریس کا موقع دیا اور اپنے خوردوں کو ایسا بڑھایا
، ان کی ترقی کے منازل طے کروائے اور مجھ پر خصوصی توجہ تھی۔ پچھلے ۵۰
سالوں سے بندہ ، مولاناؒ کے زیرتربیت رہا۔ تفسیر ، حدیث ، فقہ بلکہ تمام
کتب کی تدریس کا نہ صرف موقع دیا بلکہ ۱۹۹۷ء سے مجھے صدر مدرس کی حیثیت سے
تعلیمات کا ذمہ دار بنایا اور مجھ پر بڑا اعتماد کیا۔ ہر مشکل وقت میں ضرور
مجھے یاد فرماتے۔ مجھ سے حضرت مہتمم صاحب حضرت مولانا محمد مجیب الدین صاحب
اور دیگر اپنے شاگردوں سے جو اساتذہ ہیں مشورہ کرتے
زندگی میں آگیا جب ، کوئی وقت امتحاں
اُس نے دیکھا ہے جگرؔ بے اختیارانہ مجھے
مولانا محترم کے مضمون کا یہ اقتباس ان کی احسان شناسی ، جذبہ وفاداری اور
مضمون نگار پر مرحوم ناظم جامعہ کی نوازشیں و کرم فرمائیوں کا مظہر ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمد نعیم مفتاحی نائب صدر مدرس و صدر شعبہ دارالافتاء
جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم اپنے علمی و وقیع مضمون صفحہ نمبر ۱۴ پر یوں
رقمطراز ہیں :
’’ہم یتیم ہوگئے‘‘ عنوان پر دو صفحات پر مشتمل مضمون کے صفحہ اول پر یوں
تحریر کرتے ہیں :
ہم جیسے چھوٹوں کے لئے بھی ہمہ دم فکرمند اور سخت سے سخت اختلاف رائے کو
جھیل جانے والے اور اپنی کسی رائے پر اصرار نہ کرنے والے اور ہم خوردوں سے
کوئی غلطی ہو بھی جائے تو آگے بڑھ کر ازخود معافی مانگنے والے ایسا مربی
محسن مشفق کہاں ملے گا ۔
وہ اپنے مضمون کے آخری حصہ میں اس طرح رقمطراز ہیں :
’’بہرحال انتہائی نازک لمحات میں بھی ہم تمام کو حوصلہ و امنگ اور امید کا
دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔ بے شک اس خلا کا پُر ہونا بہت مشکل ہے لیکن اس امت
کو اور دینی امور کو قیامت تک قائم رہنا ہے اور اس طرح شخصیات کا تسلسل اس
قیام و بقائے سنت کی کلید ہے۔‘‘
مولانا مفتی محمد نعیم کی اس تحریر سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ
ناظم جامعہ کی وفات کے صدمہ سے وہ نڈھال ہوگئے ہیں۔ لیکن وہ مایوس نہیں
ہوئے ہیں ، جس طرح مولانا مرحوم اپنے چھوٹوں کے ساتھ پیش آتے تھے یقینا
مولانا مرحوم کے اس عمل کو نمونۂ عمل بناتے ہوئے زندگی بھر اسی پر عمل پیرا
رہیں گے اور تمام ہی برادران خواہ وہ بڑے ہوں ، چھوٹے ہوں ، اُن کے ساتھ
لطف و کرم ، نرمی و ہمدردی ، محبت و شفقت ، انسیت و اپنائیت کا ایسا برتاؤ
کریں گے کہ انھیں یتیمی کا احساس بھی ہونے نہیں دیں گے۔
مضمون کے آخر میں مولانا مفتی نعیم اس طرح دعاگو ہیں :
’’پس حضرت مولانا ریاض الدین صاحبؒ کے لئے مغفرت و رفع درجات کی دعا کرتے
ہوئے اپنے اور جامعہ کاشف العلوم کی یتیمی کو اﷲ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ جس
نے امّا الیتیمَ فلا تقھرْ و امَّا السائِل فلاتنھر اپنے حبیب سے فرمایا ہے
اس کے سامنے ہاتھ پھیلا کر جامعہ کی ترقی و ترویج اور جامعہ کی سربلندی کی
بھیک مانگتے ہیں۔ ولیس ذلک علی اللّٰہ بعزیز‘‘
۱۹۹۷ء سے قبل تک جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم میں دو ہی شخصیتوں کے نام زیادہ
زبان زد عام و خاص تھے۔ ایک ناظم جامعہ مرحوم مولانا ریاض الدین فاروقی اور
صدر مدرس مولانا محمد مجیب الدین قاسمی جو موجودہ مہتمم جامعہ کی حیثیت سے
اپنی خدمات جلیلہ پیش فرما رہے ہیں۔ مہتمم جامعہ مولانا مجیب الدین قاسمی
اپنے تحریر کردہ مضمون بعنوان ’’تیرے ایک چراغ سے ہزارہا جلے چراغ‘‘ میں
صفحہ نمبر ۱۲ پر تحریر کرتے ہیں جو بڑی اہمیت کا حامل ہے:
حضرت مولانا مرحوم نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک جامعہ کی نظامت فرمائی اور
آپ کی نظامت میں جامعہ مسلسل ترقی کی راہوں پر گامزن رہا اور انشاء اﷲ
آئندہ بھی رہے گا۔ جس کا اعتراف مشہور و عظیم دینی درسگاہوں و اداروں کے
ذمہ داروں نے کیا۔ چند کے تاثرات پیش خدمت ہیں۔ مفکر اسلام حضرت مولانا علی
میاں ندویؒ تحریر فرماتے ہیں :
’’جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم اورنگ آباد کے متعلق اعتراف و تحسین کے کلمات
لکھنا اور اظہار اطمینان ایسا ہے جیسے ندوۃ العلماء لکھنؤ کے کسی شعبہ کے
متعلق۔ الحمدﷲ کارکنان مدرسہ و اساتذہ میں باہم ربط و تعاون محسوس ہوتا ہے۔
یہاں کے طلباء کا ندوۃ العلماء جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ مدرسہ کوشہر کے
دیندار اور صاحب علم طبقہ کا اعتماد حاصل ہے۔‘‘ حضرت مولانا قاری محمد طیب
صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند تحریر فرماتے ہیں : ’’مولانا محمد ریاض
الدین فاروقی ندویؒ کی سرپرستی اور مخلصانہ خدمات کے تحت مدرسہ پروان چڑھ
رہا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس چشمۂ فیض کو تادیر قائم اور افادہ بخش عوام و خواص
فرمائے۔‘‘ اکابرین نے جامعہ کے تئیں جو جذبات و احساسات ظاہر کئے ہیں ان کی
قدر کرنے اور ان کے ظاہر کردہ اعتماد پر قائم و دائم رہنے کی خدا سعادت
نصیب فرمائے۔ ساتھ ہی اِس اندوہناک ، غمناک اور المناک موقعہ پر مولانا
مجیب الدین قاسمی کی جونیئر و سینئر تمام ہی اساتذہ جو مولانائے محترم کے
شاگرد ہیں کے سروں پر دست شفقت اور خصوصی سرپرستی کی شدید ضرورت ہے۔
جامعہ کے استاذ عربی ادب جو اردو سے زیادہ عربی روانی سے بولتے ہیں مولانا
عبدالقدیر قاسمی مدنی نے اپنے مضمون کا عنوان فارسی کے مصرع کو بنایا موضوع
تحریر وہ ہے ’’رفتید ولے نہ ازل دل ما ‘‘ یعنی آپ چلے گئے لیکن ہمارے دل سے
رخصت نہیں ہوئے۔
درجِ بالا مضمون میں فاضل مضمون نگار نے مرحوم کی بے شمار خصوصیت بیان
فرمائی ہے لیکن مضمون کا اقتباس جو صفحہ نمبر ۱۸پر ہے نہایت اہمیت کا حامل
ہے:
’’مجھے متعدد بار ان کے ساتھ ملک و بیرون ملک سفر کا موقعہ ملا ہے اور
انسان کی اصلیت سفر ہی میں ظاہر ہوتی ہے لیکن میں اس حقیقت کے اظہار میں حق
بجانب ہوں کہ حضر میں جو ان کی شخصیت تھی سفر میں وہ شخصیت اور زیادہ
مرنجاں مرنج اور صبر و شکیبائی کا مجسمہ نظر آتی تھی۔ یہ صفت انسانی زندگی
میں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ، بہت کم لوگ اپنی فطرت پر سفر کی حالت میں
قابو رکھنے کی صلاحیت سے معمور ہوتے ہیں۔ مولانامرحوم کی یہ صفت واقعی قابل
تحسین اور لائق آفریں ہے اور میری طرح دوسرے افراد بھی جنھوں نے ان کے ساتھ
سفر کیا ہے یقینا اس کا اعتراف کریں گے۔‘‘
اسی طرح مضمون کا آخری پیرگراف کچھ اس طرح ہے :
ان کی کن کن خوبیوں کا اس مختصر مضمون میں تذکرہ کیا جائے اور خاص طور پر
اس وقت جب دل غم کے جذبات سے لبریز ہو اور قلم جذبات کا ساتھ نہ دے رہا ہو۔
لیکن بہرحال ان کی خوبیاں اور قربانیاں باقی رہیں گی اور ان کا جذبۂ عمل ہم
خوردوں کے لئے یقینا مشعلِ راہ رہے گا
تمہیں کہتا ہے مردہ کون ، تم زندوں کے زندہ ہو
تمہاری خوبیاں زندہ ، تمہاری نیکیاں باقی
مولانا شیخ علیم الدین ندوی بابرہ کا طویل ترین مضمون جو سات صفحات پر
مشتمل ہے اور یہ اس شمارہ کا سب سے طویل ترین مضمون ہے جس سے فاضل مضمون
نگار کی جامعہ اور ناظم جامعہ سے گہری عقیدت ، تعلق کا پتہ چلتا ہے۔ جس میں
فاضل مضمون نگار نے مولانائے مرحوم کی ولادت ، حیات ، کارنامے اور تمام
احوال و کوائف اور سفرآخرت جیسے مضامین کو قلمبند کیا ہے۔اس مضمون کے چند
اقتباسات ہدیہ ناظرین ہیں ۔ صفحہ نمبر ۲۳ کے ماقبل آخرکا پیراگراف کچھ اس
طرح ہے:
’’نصف صدی پر محیط مولانا کا یہ دورِنظامت عمل پیہم اور جہدمسلسل کا عکاس
اور آئینہ دار ہے۔ جامع مسجد کا منبر و محراب ، جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم
کے وسیع و عریض علی میاںؒ ہال اور سعیدؒ ہال دعوت و تبلیغ کے اجتماعات اور
علمی و ادبی اور دعوتی سمیناروں کا انعقاد سچے گواہ اور شاہدعدل ہیں۔‘‘
مضمون نگار اپنے مضمون کا اختتام کچھ اس طرح کرتے ہیں:
’’انتقال کے دن سے تادم تحریر ہندوستان اور خاص طور سے ضلع اورنگ آباد کے
دینی و عصری مدارس ، انجمنوں میں تعزیتی جلسوں کی رپورٹ ممبئی اور شہر
اورنگ آباد کے مؤقر اخباروں اور جریدوں میں شائع ہورہی ہے۔ امت مسلمہ کی
جانب سے یہ تعزیتی کلمات اہل خاندان اور اہل جامعہ کے لئے باعث تسکین و
تسلی ثابت ہورہے ہیں ، ہم اساتذۂ جامعہ اور ارباب جامعہ امت مسلمہ کو یقین
و اطمینان دلاتے ہیں کہ اپنی تمام کوششوں اور صلاحیتوں کو صرف کر کے اس
ادارہ کاشف العلوم کو پروان چڑھائیں گے اور دعاگو ہیں کہ اﷲ ہمیں اور
پسماندگان کو اس گھڑی میں صبر و ثبات نصیب فرمائے۔‘‘
جامعہ کاشف العلوم کے ابتدائی دور کے طالب علم اور سابق استاذ اور حالیہ
سرسید کالج کے شعبۂ عربی کے صدر ڈاکٹر مولانا عبدالرشید ندوی مدنی اپنے
مضمون ’’ایسا کہاں سے لائیں تجھ سا کہیں جسے‘‘ صفحہ نمبر ۲۲ پر یوں رقمطراز
ہیں :
’’ان کی طبیعت میں حق پسندی ، خلوص نیت ، وسیع ظرفی ، عزم و توکل اور ثبات
و استقامت کے جوہر تھے ، وہ ہمیشہ زندگی کے تقاضوں پر مثبت و ایجابی انداز
سے غور و فکر کرتے اور کبھی یاس و قنوطیت کا شکار نہ ہوتے۔ نامساعد حالت
میں نبردآزمائی ، صحتمند شعور اور دینی جذبات سے سرشار رہ کر دین کی خدمت
کو انہوں نے اپنا شعار بنائے رکھا۔‘‘
مضمون کا آخری حصہ کچھ اس طرح ہے :
’’آج ان کی وفات پر دل کے نہاں خانہ سے ایک درد اٹھتا ہے اور ان کی یادوں
کی پروائی دل کے زخموں کو ہرا کرتی ہے۔ سورج ڈوب جاتا ہے لیکن اس کی سرخی
افق پر دیر تک اس کے وجود کی گواہی دیتی ہے۔ لوگ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں
لیکن ان کے کارناموں کی صدائے بازگشت ذہن کے پردوں سے ٹکرا کر رگ و پے میں
حرارت و اضطراب کی لہر دوڑا دیتی ہے۔ یہی وہ احساسات ہیں جہاں ارادے ناکام
اور فطرت مجبور ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سفر آخرت پر روانہ ہونے کے بعد
بھی وہ یادگار زمانہ بن جاتے ہیں۔ ‘‘
مرہٹواڑہ ہی میں نہیں پوری ریاست مہاراشٹر میں عربی زبان و ادب میں یدطولیٰ
کے حامل عربی اردو کے کثیرالتصانیف مصنف جامعہ کے سابق استاذ عربی ادب
مولانا ڈاکٹر صدر الحسن ندوی مدنی سرسید کالج کے شعبہ عربی کے پروفیسر
ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مرہٹواڑہ یونیورسٹی کے ریسرچ گائیڈ اپنے علمی وقیع
مضمون ’’سواس عہد کو ہم وفا کر چلے‘‘ ڈیڑھ صفحات پر مختصر مگر جامع ترین
مضمون ہے۔ صفحہ نمبر ۳۴ کا ایک اہم حصہ پیش خدمت ہے:
’’آج یکم ذی الحجہ ۱۴۳۶ھ مطابق ۱۶؍ستمبر ۲۰۱۵ء بروز چہارشنبہ تاریخ کا ایک
ورق ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔ اب آئندہ نئی تاریخ رقم ہوگی اور ہم ماضی کے
واقعات کو اس شخصیت سے منسوب کریں گے جو اپنی عمرعزیز کے مہ و سال گزار کر
اپنی فکری تابانی اور ذہنی درخشندگی سے ایسے نقوش چھوڑ گئی ہے جو
پسماندگانِ منزل کے لئے مشعل راہ ہی نہیں بلکہ بیاباں کی شب تاریک میں
قندیل رہبانی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج وہ ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کا سراپا
اور اس سراپا میں نہاں ان کا جلال و جمال اب بھی ان آنکھوں میں محوگردش ہے۔
ان کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ انہوں نے جس شاہراہ کو اپنے مستقبل کے لئے
انتخاب کیا، زندگی کی آخری سانس تک اس شاہراہ پر سرگرم رہے اور اس جادہ و
منزل کو حرزجاں بنا کر رکھا اور غیرمتزلزل ایقان و استقامت کے ساتھ نہ صرف
خود رواں دواں رہے بلکہ اپنے ہم سفروں اور ہم صغیروں کو بھی اس دشوار گزار
راہ پر چلنے کا سلیقہ عطا کیا۔‘‘
وہ آگے تحریر کرتے ہیں :
’’بی اے کی سطح تک عصری تعلیم کے حامل ایک شخص نے جب عالم اسلام کی مشہور
دانش گاہ ندوۃ العلماء میں قدم رکھا تو اس نے ترکستان کے بجائے کعبہ کو
اپنا قبلہ بنایا۔ یہ سوچ کر کہ یہ راہ معاشی حوصلہ مندیوں کی نہیں ہے لیکن
ان کی اولوالعزمی لائق تحسین ہے کہ کبھی انہوں نے پیچھے کی طرف مڑ کر نہیں
دیکھا اور جذبہ جنوں پرور اور فکرخردوسوز کے شہہ پر کے سہارے اس ہفت خواں
کو سر کیا۔‘‘
دارالعلوم زکریا جالنہ کے ناظم مولانا سید نصراﷲ حسینی ندوی عرف سہیل اپنے
مضمون صفحہ ۸۶پر ’’دم بخود ہے اہل محفل شمع محفل بجھ گئی‘‘ کے عنوان پر کچھ
اس طرح رقمطراز ہیں :
’’آپ ہمیشہ سیاست کے جھمیلوں سے دور رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اصل سیاست داں
آپ سے رجوع ہوتے تھے اور آپ سے عقیدت رکھتے تھے۔ مسلکی اختلافات و تعصب سے
آپ پرے رہے ۔ افراد و تحریکات کی نافعیت کا آپ نے ہمیشہ برملا اظہار کیا۔
مولانا محترم کے وصال سے دل پر رنج و الم کی جو کیفیت طاری ہے وہ ناقابل
بیاں ہے
مرنے والے مرتے ہیں فنا ہوتے نہیں
وہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
مولانا یوں تو جواررحمت میں چلے گئے مگر اپنی خدمات کے حوالہ سے زندہ رہیں
گے اور ہمارے دلوں میں ان کی یاد ہمیشہ تازہ رہے گی۔ آپ کا وصال مسلمانان
صوبۂ مہاراشٹر کے لئے عظیم سانحہ ہے۔ مرحوم کے متعلقین خصوصاً فرزند رشید
مولانا معزالدین فاروقی ندوی اور جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم کے اراکین ،
اساتذہ و طلبہ کے لئے عموماً یہ حادثہ سوہان روح کا باعث ہے۔ خدا تعالیٰ سب
کو صبرجمیل عطا فرمائے۔ آمین۔ مولانا کے لئے ان کے صالح فرزندگان یقینا
صدقہ جاریہ ہیں۔‘‘
جامعہ کاشف العلوم کی تمام شاخوں میں سب سے بڑی شاخ اورنگ آباد شہر کے آزاد
چوک میں جو واقع ہے۔ مدرسۂ الیاس کے صدر مدرس مولاناقاضی نوشاد الدین ندوی
صفحہ ۶۴ پر اپنے مضمون ’’وہ شخص اپنی ذات میں ایک انجمن تھا‘‘
’’مدرسہ الیاس کے آپ بانی تھے۔ آپ ہی کی سرپرستی کا ثمرہ ہے کہ مدرس الیاس
جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم کے زیراہتمام جاری مدارس میں امتیازی مقام رکھتا
ہے۔ مدرسہ کی ترقی و تعلیمی حالت کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے آپ ہمیشہ
رہنمائی فرماتے تھے۔ جب بھی احقر کسی پروگرام کے سلسلہ میں آپ کے سامنے
تفصیلات رکھتا ، آپ اسے بہتر سے بہتر بنانے کی طرف توجہ دلاتے تھے۔ طلبہ کی
تعلیم و تربیت میں اچھے سے اچھا انداز اختیار کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔ آپ
اکثر فرماتے تھے کہ جس کام کی ذمہ داری قبول کرو اسے امانت سمجھو اور اس کا
حق یہ ہے کہ حتی الامکان اسے بحسن و خوبی انجام دینے کی کوشش کرو۔ جو لوگ
عہدہ قبول کرلیں اُس کا حق ادا نہ کرے تو یہ عمل قابل قبول نہیں ہے۔‘‘
منشورکاشف کے دیگر مضمون نگاران کے کچھ عنوانات اس طرح ہیں : مولانا ریاض
الدین فاروقی ایک عہد آفریں شخصیت ، ایک عبقری شخصیت ، ایک عہدساز شخصیت ،
ایک علمی و دینی شخصیت ، ایک انجمن ایک چراغ جیسے تھے ، ایک ہمہ گیر ہستی
اور انقلابی شخصیت ، وہ شخص اپنی ذات میں انجمن تھا ، ایک مثالی معلم ،
حضرت مولانا کا سفر آخرت ، آہ میر کارواں جاتا رہا ، متاع کارواں جاتا رہا
، دم بخود ہیں اہل محفل شمع محفل بجھ گئی اور راقم سطور کا مضمون جو صفحہ
نمبر ۸۴ پر مذکور ہے جس کا عنوان ’’مولانا ریاض الدین فی روضۃ فی ریاض
الجنہ‘‘ شامل ہے۔ راقم السطور کا تعلق جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم سے دو
حیثیتوں سے رہا ہے۔ بحیثیت طالب علم اور بحیثیت معلم۔ اس طرح جامعہ اسلامیہ
کاشف العلوم میرا مادر علمی ہے۔ اس کے جمیع احوال و کوائف اور تمام نشیب و
فراز سے احقر بخوبی واقف ہے۔ خصوصی شمارہ میں میرا مضمون جو ڈھائی صفحات پر
مشتمل ہے اس مضمون کا ماقبل آخر پیراگراف اور آخری پیراگراف موجودہ حالات
کے تناظر میں نہایت اہمیت کا حامل اور غورفکر کی طرف دعوت دیتا ہے۔وہ اس
طرح ہے :
’’جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم دین اسلام کا اور مدارس کی طرح ایک مضبوط قلعہ
ہے۔ دین کا ایک آہنی حصار ہے ملت کا تشخص اسی سے قائم ہے ، امت مسلمہ کے
لئے ایک دھڑکتا دل ہے۔ یہ اسلامی تہذیب و تمدن کا آئینہ دار ہے۔ اخلاق و
ایمان ، اخلاص و روحانیت کا سرچشمہ ہے۔ یہاں مردہ دلوں کو زندگی ملتی ہے۔
یہاں پیاسوں کو سیرابی ملتی ہے۔ یہاں طلباء کے دلوں میں اخوت و ہمدردی ،
مساوات و رواداری کی تخم ریزی کی جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہاں ان کے عقائد و
افکار درست کئے جاتے ہیں ، ان میں فکرآخرت پیدا کی جاتی ہے ، کامیاب زندگی
گذارنے کے لئے انھیں تیار کیا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ دینی مدارس معاشرہ
میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ سوسائٹی اور سماج کا مکھن ہوتے
ہیں۔ یہ دینی مدارس اﷲ اور اس کے رسول سے آشنا کرانے کا ایک اہم ذریعہ ہوتے
ہیں جو ہم تمام کا اہم مقصد ہے۔ اسی لئے ان مدارس سے ہمارا تعلق ایسا ہی
ہوناچاہئے جیسا جسم کا روح سے ہوتا ہے۔ آفتاب کا روشنی سے اور پھولوں کا
خوشبو سے۔ اگر یہ تعلق باقی ہے تو سمجھ لیجئے جسم و روح دونوں زندہ ہیں اور
اگر یہ تعلق ختم ہوگیا تو خدا ہی ہمارا حافظ ہے۔‘‘
’’یہی مدارس اب اسلام کے لئے محفوظ اور مضبوط قلعے ثابت ہوئے ہیں۔ ان مدارس
کی آبیاری ، نشوونما ، بقاء و تحفظ ہی میں اسلام کی حفاظت و بقاء پوشیدہ
ہے۔ موجودہ دور میں اس بات کی شدید ترین ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ان مدارس
کو فتنہ پروروں کی شرانگیزی ، حاسدوں کی ریشہ دوانیوں اور بدنظروں کی نظربد
سے بچایا جائے اور داخلی و بیرونی فتنوں سے حفاظت کے لئے منصوبہ بندی کی
جائے۔ اس لئے اب ہر کلمہ گو مسلمان پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ جملہ وسائل
کو بروئے کار لائے اور ان مدارس کی حفاظت و بقاء کے لئے دامے درمے سخنے ہر
ممکن تعاون کریں تاکہ یہ مدارس اسلام کے تحفظ کے لئے ناقابل تسخیر قلعے
ثابت ہوں۔ ‘‘ اس خصوصی شمارہ کا سب سے پہلا مضمون صفحہ ۶ پر مدیرمسؤل
مولانا معزالدین فاروقی ندوی کا ہے جس کا عنوان ’’بدلا ہوا ہے رنگ گلوں کا
تیرے بغیر‘‘ ’’والد محترم کا شجرسایہ دار ہم پر نہ رہا‘‘
واقعی مولانائے مرحوم صرف شجرسایہ دار ہی نہیں بلکہ پھل دار بھی تھے جسے ہر
قسم کے پھل لگے ہوئے تھے اور جس شجر سے ہر قسم کے ہمہ اقسام مزاجوں کے
افراد نے الگ الگ موقعوں پر الگ الگ ذائقوں کے پھلوں کا مزہ چکھا ہے ۔
حقیقت میں ’’بدلا ہوا ہے رنگ گلوں کا تیرے بغیر‘‘ مولانا کے انتقال پرملال
کے بعد جامعہ بدلا بدلا نظر آرہا ہے۔ مدیر مسؤل مولانا معزالدین فاروقی
ندوی سے گزارش ہے کہ وہ اپنے اگلے مضمون کا عنوان کچھ اس طرح رکھیں ’’بدلا
ہوا ہے رنگ گروؤں کا تیرے بغیر‘‘
زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
وارثین نبی بھی اپنے فرزندوں کو وہی نصیحت کرتے ہیں جولقمانِ نبی نے اپنے
بیٹے کو کی تھی۔ یَابُنَيَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعُرُوفِ
وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلَی مَآ اَصَابَکَ ط اِنَّ ذٰلِکَ
مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ o وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ
فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ
فَخُورٍ o وَاقْصِدْ فِی مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ ط اِنَّ
اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ o
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصیحتیں کی تھیں ان میں سے ایک نصیحت بڑی
اہم ہے : ’’وَاصْبِرْ عَلَی مَآ اَصَابَکَ ط اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ
الْاُمُوْرِ‘‘یعنی جو کچھ تمھیں پہنچے اُس پر صبر کیجئے۔ بے شک یہ کام بڑے
عزیمت اور ہمت والوں کے ہیں۔ ہم سب ہی مضمون نگاران اﷲ کی بارگاہ میں
بصدق دل دعا ہے رَبَّنَا
لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَاِذْ ھَدَیْتَنَا
کید سے شیطان کی یارب چھڑا
اور شرورِ نفس سے ہم سب کو بچا
منشورکاشف کے اس خصوصی شمارہ میں جملہ باون (۵۲) اہل قلم کی قیمتی نگارشات
اور شہراورنگ آباد کے نامور شعراء خان شمیم ، عبدالقدیر خان سیفی اور معین
عظیم کے جذبات و احساسات کی منظوم ترجمانی موجود ہے۔۶۵ سے زائد اداروں میں
مولانا مرحوم کے حق میں جلسۂ تعزیت کا انعقاد عمل میں آیا جس کی تفصیل اس
شمارہ میں موجود ہے۔ شہر کے نامور ادباء ، شعرأ ، علماء اور دانشوروں نے
اپنے تعزیتی پیغامات سے جامعہ ، اہل جامعہ اور اہل خاندان کو تسلی اور
تعزیت پیش کی۔ اس کا بھی بطور خاص اس خصوصی شمارہ میں ذکر موجود ہے۔ اس
خصوصی شمارے کی اشاعت کے بعد بعض ناگزیر اور نامعلوم وجوہات کی بناء پر
ماہنامہ ’’منشورکاشف ‘‘ شائع نہ ہوسکا۔اس کی عدم اشاعت قابل تشویش بات ہے۔
کیونکہ چوبیس سال سے پابندی سے شائع ہونے والا یہ عظیم ماہنامہ جو نہ صرف
جامعہ کی ترجمانی کیا کرتا تھا بلکہ معاشرے کی اصلاح ، امت مسلمہ کی رشد و
ہدایت اور ان کی نفوس کا تزکیہ ، ساتھ ہی سوسائٹی اور سماج میں پھیلی بے جا
رسوم اور بیہودہ اور غیراسلامی خرافات کی بیخ کنی کا کام انجام دیتا تھا۔جس
کا پہلا شمارہ جنوری ۱۹۹۲ء میں شائع ہوا تھا اسے دیکھ کر مولانا سید
ابوالحسن علی ندویؒ نے نہایت خوشی و مسرت کا اظہار کیا تھا اور
’’منشورِکاشف‘‘ کے لئے گراں قدر پیغام بھی عنایت فرمایا تھا۔چند جملے بطور
نمونہ پیش خدمت ہے:
’’منشور کاشف ، کو دیکھ کر ایک پرمسرت انکشاف ہوا ایسے بامقصد اور مفید
ادارہ کی طرف سے جس کو اپنا پیغام دور دور تک پہنچانا ہے کسی ترجمان اور
رسالہ کا نہ نکلنا ایک محسوس کی جانے والی کمی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ
خلا پُر کردیا گیا اور ’منشورکاشف‘ کے نام سے یہ رسالہ کا اجراء ہوا۔ امید
ہے کہ ذی علم اور فاضل اساتذہ کا اس میں تحریری حصہ لینے کی وجہ سے اس کا
معیار بلند ہوگااور اس کے پہلے شمارہ ہی سے اس کے آثار نظر آتے ہیں۔ دعا
کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ اس رسالہ کو مفید سے مفیدتر بنائے اور اپنے مقصد میں
کامیاب کرے۔ آمین ۔‘‘ (منشورکاشف۔ فروری ۱۹۹۲ء)
٭٭٭ |
|