قاتل پہاڑ

عائشہ طارق

یہ انیس سو تریپن کا ذکر ہے جب جرمنی اور آسٹریا کے کوہ پیماؤں پر مشتمل ایک ٹیم پاکستان پہنچی۔ اس ٹیم کا مقصد پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع دنیا کے نویں اونچے ترین پہاڑ جو قاتل پہاڑ کے نام سے مشہور ہے، کو سر کرنا تھا۔ اس وقت تک اس مقصد کو پورا کرنے کی ناکام کوششوں میں 32 کوہ پیما اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے تھے۔ ٹیم میں شامل ایک کوہ پیما نانگا پربت کی چوٹی کو تسخیر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ یوں آسٹریا کا کوہ پیما ہرمن بوہل پاکستان کی تاریخ میں نانگا پربت کی چوٹی تک پہنچنے والا پہلا انسان بن گیا۔ اس سے پہلے نانگاپربت کو سر کرنے کی ہرکوشش کا اختتام ناکامی یا موت پر ہوا تھا۔ ان کوششوں کا آغاز 1895 میں ہوا جب برطانوی کوہ پیما البرٹ ممری اس پہاڑ پردو پورٹروں کے ساتھ ایولانچ کا شکار ہوا۔ البرٹ ممری ایک مشہورکوہ پیما اور سیاح تھا۔بیسویں صدی میں یہ پہاڑ جرمن کوہ پیماؤں کی دلچسپی کا مرکز بن گیا۔ 1930 کی دھائی میں چھ جرمن کوہ پیما ٹیمیں اس مقصد سے آئیں اور ناکام ہو گئیں۔ اسی دھائی میں کوہ پیماء کی تاریخ کے دو بدترین حادثے ہوئے، جن میں جرمنی کے چند بہترین کوہ پیما اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان حادثات نے اس پہاڑ کی دہشت ساری دنیا پربٹھا دی تھی۔

پہلا حادثہ 1934 میں ہوا۔ جرمنی میں الیکشن کے بعد نازی حکومت اقتدار میں آگئی تھی۔ ہٹلر اور اس کے ساتھیوں نے اپنی دھاک بٹھانے کے لئے فیصلہ کیا کہ نانگا پربت کی چوٹی سر کی جائے گی اور نازی جھنڈا پہاڑ کی چوٹی پر لہرایا جائے۔ جرمنی کے بہترین کوہ پیماؤں پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی گئی۔ اسے حکومت کی مکمل حمایت اور مالی مدد حاصل تھی۔ ٹیم کا لیڈر ولی مرکل تھا۔ وہ ایک تجربہ کار کوہ پیما تھا اور پہلے بھی نانگا پربت پر ایک ٹیم کی قیادت کر چکا تھا۔ ٹیم بغیر کسی مشکل کے آگے بڑھ رہی تھی اور ولی مرکل اپنے دو ساتھیوں اور پورٹروں کیساتھ باقی ٹیم سے بہت آگے چوٹی کے بہت قریب پہنچ چکا تھا۔ لیکن موسم سخت خراب ہوگیا، وہ دھند اور شدید برف باری میں پھنس گئے۔ انھوں نے ایک غار میں پناہ لی۔ نو دن بعد طوفان ختم ہوا لیکن تب تک ولی مرکل اور اسکے تمام ساتھی بھوک اور سردی سے مر چکے تھے۔ چند سال بعد کوہ پیماؤ ں نے انھیں اس غار میں دریافت کیا، انھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ ان کی موت بہت اذیت ناک تھی۔ اس حادثے میں 10 افراد موت کا شکار ہوئے۔ یہ اس زمانے میں کوہ پیماء کا سب سے بڑا حادثہ تھا۔

تین سال بعد جرمن حکومت نے ایک بار پھر نانگا پربت کی تسخیر کے لئے بہترین کوہ پیما ٹیم بھیجی۔ یہ ٹیم 16 افراد پر مشتمل تھی۔ یہ تمام لوگ ایک ساتھ ایولانچ کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے گئے۔ یہ دونوں اس زمانے کے حساب سے کوہ پیماء کی بہترین ٹیمیں تھیں۔ بیسویں صدی میں جرمن کوہ پیماؤں نے نانگا پربت کو اپنی منزل قرار دیا۔لیکن وہ اس منزل پر کبھی نہ پہنچ سکے۔

نانگا پربت سطح سمندر سے 8126 میٹر بلند دنیا کا نواں اونچا ترین پہاڑ ہے۔ یہ سلسلہ ہمالیہ کے مغربی کنارے پاکستان کے شمال میں گلگت بلتستان میں واقع ہے۔ قراقرم کا پہاڑی سلسلہ بھی اسی خطے میں ہے۔
دوسرے پہاڑوں کے برعکس نانگا پربت پر کوہ پیمائی کا آغاز سطح سمندر کے قریب سے کرنا پڑتا ہے۔ آغاز میں ٹمپریچر 25 ڈگری ہوتا ہے تو چوٹی پر منفی 45 تک ہوگا۔ تجربہ کارکوہ پیماؤں کے مطابق آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں میں کے۔ٹو کے بعد سب سے دشوار اور کھٹن چڑھائی نانگا پربت کی ہے۔ شرح اموات کے لحاظ سے بھی نانگا پربت تیسرے نمبر پر ہے۔

برف کی تین دیواریں یا ابھار نانگا پربت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، یوں چوٹی تک پہنچنے کے تین مرکزی راستے ہیں۔ جنوبی رخ کو روپل کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں سے چند میل دور روپل نام کی بستی ہے۔ روپل چوٹی تک پہنچنے کا سب سے چھوٹا راستہ ہے اور زیادہ تر چڑھائی عمودی ہے۔ یہاں سے نانگا پربت کی چوٹی واضح دکھائی دیتی ہے۔ مشرق اور مغرب میں برفانی دیواریں اسے شمال میں واقع رائیکوٹ اور دیامر سے الگ کرتی ہیں۔

شمال مشرقی حصے کو رائیکوٹ کہتے ہیں اور شمال مغربی حصے کو دیامر۔ ان دونوں کے درمیان موجود پہاڑی دیوار یا ابھار دیامر ریج Diamir ridge کہلاتی ہے۔ عام طور پر کوہ پیما دیامر ریج سے کوہ پیماء کا آغاز کرتے ہیں۔ فیری میڈو کی خوبصورت وادی اسی طرف واقع ہے۔ اس وادی کی خوبصورتی کو دیکھ کرولی مرکل نے اسے فیری میڈو کا نام دیا تھا۔ یہاں سارا سال سیاحوں کا رش ہوتا ہے۔

رائیکوٹ کے راستے سے کوہ پیمائی کا طویل ترین اور کوہ پیماؤں کے مطابق مشکل ترین راستہ ہے۔ یہاں سے پہاڑ پر موجود کئی دوسری چھوٹی بڑی چوٹیاں بھی نظر آتی ہیں۔ 1953 میں بوہل نے نانگا پربت اسی جانب سے سر کیا تھا۔ ہرمن بوہل کے بعد سے لے کر آج تک صرف ایک ہی ٹیم نے چوٹی تک یہ راستہ اختیار کیا ہے۔

1953 میں پاکستان آنے والی یہ ٹیم دس افراد پر مشتمل تھی۔ اس ٹیم کا لیڈر کارل ہرلیکوفر تھا۔ ہرلیکوفر ولی مرکل کا بھائی تھا اور اس نے یہ مہم 1934 میں مرنے والوں کی یاد میں ترتیب دی تھی۔ وہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھا اور باقاعدہ کوہ پیمائی کا تجربہ نہ رکھتا تھا۔ ٹیم میں پیٹر ایشنبرینر بھی تھا جو تجربہ کار کوہ پیما تھا اور 1934کی مہم میں بچ جانے والے کوہ پیماؤں میں سے ایک تھا۔ ان دو کے علاوہ جرمنی کے پانچ اور آسٹریا کے تین کوہ پیما ٹیم میں شامل تھے۔ مہم کے دوران انھوں نے ایک چٹان پر ویڈیو ریکارڑ کرائی جو "نانگا پربت کا وعدہ" کہلاتی ہے۔ اس ویڈیو میں وہ سب موجود ہیں اور یہ الفاظ دھرا رہے ہیں۔
ہم عہد کرتے ہیں کہ اس سرزمین کی بلند ترین چوٹی پر پہنچنے کے معرکے میں ہم دیانت سے کوشش کریں گے، دوستی کے اصولوں کا احترام کریں گے، اور تکمیل مقصد کے لئے پورا زور لگائیں گے۔
پوری دنیا میں کوہ پیماء کے فروغ کے لئے مادرِوطن کی عزت افزاء کے لیئے اور ہمیں اس مہم کا موقع فراہم کرنے کے لیئے، ہم اس پہاڑ کو سلام پیش کرتے ہیں۔

ٹیم کا فوٹوگرافر ہانس ارٹل تھا جو بولیویا سے خاص طور پر مہم میں شرکت کرنے آیا تھا۔

مہم کا آغاز کچھ اچھا نہ ہوا موسم خراب تھا اور ان کے شیرپا پورٹروں کو حکومت پاکستان نے پاکستان میں داخلے کی اجازت نہ دی۔ مجبوراً انہیں مقامی پورٹر حاصل کرنے پڑے جو ہندوستانی شیرپا پورٹروں کی طرح بلندی کا تجربہ نہیں رکھتے تھے۔ انھوں نے شمال میں رائیکوٹ کے رخ سے کوہ پیماء کا آغاز کیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ چوٹی تک پہنچنے کا آسان ترین راستہ ہے۔ خراب موسم اور ناتجربہ پورٹروں نے مہم کی رفتار سست کردی تھی۔

رائیکوٹ گلیشیر کے پاس انھوں نے اپنا کیمپ قائم کیا۔ اگلا کیمپ انھوں نے رائیکوٹ گلیشیئر کے اوپر قائم کیا۔ نانگا پربت کی چوٹی کے ساتھ نسبتاً چھوٹی رائیکوٹ چوٹی ہے، اگلا کیمپ انھوں نے اس کے نیچے قائم کیا۔ یہاں سے آگے ایک عمودی چڑھائی تھی جو ان کے پورٹر پار نہیں کرسکتے تھے۔

20 جون کو بوہل اور اوٹو کیمپٹر نے رسوں کی مدد سے یہ عمودی چڑھائی عبور کی اور دوسری طرف کا جائزہ لیا۔ رات تک وہ کیمپ میں واپس آگئے۔ خراب موسم، بیمار پورٹر اور دھند نے ان کی مہم اور مشکل کر دی تھی۔ مون سون کا موسم بھی قریب آرہا تھا۔ اگلے کچھ دن انھوں نے کیمپ میں ہی گزارے۔ انہیں امید تھی کہ نیچے سے تازہ دم پورٹر آئیں گے لیکن پورٹر نہیں آئے۔ انھوں نے پھر صرف دو افراد کی ضرورت کے مطابق سامان لیا اور اگلا کیمپ قائم کرنے آگے بڑھے۔ اگلا کیمپ، کیمپ 5 آخری کیمپ تھا جہاں انھوں نے بوہل اور کیمپٹر کو چھوڑ کر واپس آنا تھا مگر خراب موسم اور دھند نے انہیں پلٹنے پر مجبور کردیا۔ اس ناکامی نے ان کی ہمت پست کر دی تھی۔ گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا اور شدید سردی میں کیمپ واپس پہنچنے تک وہ اس بات پر متفق ہوگئے کہ مہم موخر کر کے واپس جانا چاہئے۔ کیمپ میں حرارت بحال ہونے کے بعد ان کی جان میں جان آئی۔ اگلے دن بھی موسم خراب تھا وہ واپس کیمپ 3 میں آگئے۔ وہاں ہانس ارٹل چار پورٹروں کے ساتھ موجود تھا۔

30 جون کو موسم صاف تھا، انھوں نے ایک کوشش اور کرنے کا فیصلہ کیا مگر وہ سب جانتے تھے کہ پہاڑوں پر موسم کسی بھی وقت خراب ہوسکتا ہے۔ بیس کیمپ میں موجود ساتھیوں سے ریڈیو پر رابطہ ہواتو انہوں نے ان کو مہم موخر کر کے واپس آنے کو کہا۔ ان کا ایک ساتھی واپس جا چکا تھا۔ بوہل اور اس کے ساتھیوں نے ایک کوشش اور کرنے کا فیصلہ کیا۔

2 جولائی کو بوہل، ارٹل، فرانبرگر اور کیمپٹر تین پورٹروں کے ہمراہ آگے بڑھے۔ انھوں نے آگے جا کر کیمپ 5 قائم کیا۔ وہاں بوہل اور کیمپٹر کو چھوڑنے کے بعد ارٹل اور فرانبرگر واپس کیمپ 4 پہنچے۔ کیمپ 5 انھوں نے 6900 میٹر کی بلندی پر قائم کیا تھا۔ 1934 میں آنے والی ٹیم نے بھی اسی جگہ کیمپ قائم کیا تھا لیکن انھوں نے پھر اپنا آخری کیمپ آگے چوٹی کے قریب قائم کیا تھا۔ اگلے دن انھوں نے مہم کے مشکل ترین راستے پر سفر کرنا تھا۔

3 جولائی کو بوہل صبح 2 بجے جاگا اور مہم کی تیاری شروع کردی۔ کیمپٹر تھکا ہوا تھا اور بوہل کے جگانے کی کوشش کرنے پر بھی سویا رہا۔ بوہل اکیلا ہی ڈھائی بجے تک روانہ ہوا۔ کیمپٹر نے بوہل کے جانے کے ایک گھنٹہ بعد سفر شروع کیا۔

صبح پانچ بجے سورج طلوع ہوا اور روشنی پھیل گئی۔ بوہل نے تھوڑی دیر آرام کیا اور پھر چل پڑا۔ دوسری طرف کیمپٹر جو بوہل کے پیچھے آرہا تھا، سخت تھکا ہوا تھا۔ وہ سلور پلیٹیو پہنچ کر تھوڑی دیر آرام کرنے کی غرض سے رکا اور سو گیا۔ سلور پلیٹیو برف کا ایک ہموار میدان ہے، بوہل یہاں سے کافی دیر پہلے گزر چکا تھا۔ نیند سے کیمپٹر کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بوہل بھی اب اس سے بہت دور جا چکا تھا اور پہاڑ پر کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ کیمپٹر نے باقی دن اسی جگہ گزارا، اسکا خیال تھا کہ بوہل واپس آئے گا۔ شام کو وہ کیمپ 5 واپس چلا گیا۔

بوہل آگے بڑھ رہا تھا۔ اس نے چڑھائی میں آسانی کے لیئے ضرورت کی چند اشیا جیبوں میں ڈالیں اور اپنا رک سیک (کوہ پیماء میں استعمال ہونے والا مضبوط بیگ) وہیں ایک کھوہ میں چھوڑ کر آگے بڑھا۔ اب اس کے پاس صرف کیمرہ، چائے کا فلاسک، ادویات، برف میں استعمال ہونے والی کلھاڑی، اور سکی سٹکس تھیں۔ اس نے پھر بزین گیپ پار کیا۔ اتنی اونچائی پر بوہل کو قدم اٹھانے میں دقت ہو رہی تھی۔

بوہل آسٹریا کے مغربی حصے ٹائرول کا رہنے والا تھا۔ یہ علاقہ جرمنی اور اٹلی کے درمیان واقع ہے اور پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔ سلسلہ یورپ کا سب سے بڑا پہاڑی سلسلہ ہے۔ ہرمن بوہل نے دس سال کی عمر میں کوہ پیماء شروع کر دی تھی۔ ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑوں کی نسبت سلسلہ الپ کے پہاڑ چھوٹے ہیں۔ زیادہ تر پہاڑوں کی اونچائی تین یا چار ہزار میٹر ہے۔ اس وقت تک اتنی اونچائی پر اتنا عرصہ گزارنے سے صحت پر ہونے والے اثرات کے متعلق کوئی تحقیق نہ ہوئی تھی اور خیال کیا جاتا تھا کہ اس سے انسان کی صحت پر تا حیات منفی اثرات پڑتے ہیں۔ وہ چوٹی کے قریب پہنچ چکا تھا۔ ہرمن بوہل کے مطابق وہ اس وقت تھکن سے چور تھا۔ اس نے اپنی سکی سٹکس پھینک دی تھیں، ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے وہ آگے بڑھا۔ اچانک اس نے محسوس کیا کہ آ گے جگہ ختم ہو چکی ہے۔ وہ نانگا پربت تسخیر کر چکا تھا۔
یہ 3 جولائی 1953 کا دن اور شام سات بجے کا وقت تھا، بوہل نے اپنی کلھاڑی برف میں گاڑ دی۔ اس نے دستے سے پاکستانی اور ٹائرول جھنڈے لہراتے تصویریں بنائیں۔

چڑھتے وقت اس نے جو راستہ اختیار کیا تھا اس راستے سے اب بغیر رسی واپس اترنا ممکن نہ تھا، وہ دوسری طرف سے اترنے لگا۔ جلد ہی اندھیرا چھا گیا اور بوہل کے لیئے مزید سفر ممکن نہ رہا۔ اس وقت وہ ایک چٹان سے اتر رہا تھا اور وہاں صرف اتنی جگہ تھی کہ اس کے دونوں پیر ٹک سکیں۔ اتنی اونچائی پر بوہل کھلی جگہ کھڑا تھا۔ اسکا اضافی جیکٹ اس کے رک سیک میں تھا جو وہ چھوڑ آیا تھا۔ یہ ایک کوہ پیما کو پیش آنے والی مشکل ترین حالت ہے۔ رات کو ہوا بند تھی اسکے باوجود بوہل سردی کو لہر در لہر اپنے اندر اترتا محسوس کر رہا تھا۔ سردی بہت زیادہ تھی اور منجمد ہونے کا خطرہ تھا۔ بوہل نے خون کی گردش بحال رکھنے کے لیئے ہرلیکوفر کی دی ہوئی گولیاں نگل لیں۔ بوہل کے مطابق صبح تک وہ کافی تازہ دم ہوگیا تھا۔ روشنی کی پہلی کرن کے ساتھ بوہل نے سفر دوبارہ شروع کیا۔ وہ اب گھوم کر اپنے پرانے راستے پر واپس آ چکا تھا۔ اسے اپنا رک سیک بھی اسی جگہ مل گیا جہاں اس نے چھوڑا تھا۔ سلور پلیٹیو سے گزرتے ہوئے ایک بار پھر اسکی ہمت جواب دے گئی۔ اس نے دوبارہ گولیاں نگل لیں۔

دوسری طرف اوٹو کیمپٹر جب کیمپ پانچ پہنچا تو فرانبرگر بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب بوہل چوٹی پر پہنچ چکا تھا۔ اس دن ارٹل اور فرانبرگر نے بھی طبی امدادی سامان لے کر آنا تھا مگر پورٹروں کے ناساز ہونے کی وجہ سے نہ آ سکے۔ اگلے دن وہ امدادی سامان اور آکسیجن لے کر کیمپ پانچ پہنچے۔ ان کے سامان میں دوسری اشیا کے علاوہ آکسیجن بھی تھی۔ اس دن انھوں نے بوہل کو تلاش کرنے نکلنا تھا مگر اس وقت تک شام ہو چکی تھی۔ اندھیرے میں بوہل کو تلاش کرنا بیسود تھا، چنانچہ انھوں نے یہ مہم اگلے دن پر موخر کر دی۔

انھوں نے پھر 1934 میں مرنے والوں کی یاد میں ایک چھوٹی سی یادگار قائم کی۔ اس تقریب کے بعد کیمپٹر پورٹروں کے ہمراہ واپس چلا گیا۔

فرانبرگر یادگار کے پاس کھڑا تھا جب اس نے دور سلبر ساٹل پر ایک دھبہ نمودار ہوتے دیکھا۔وہ بوہل تھا جو 40 گھنٹے بعد واپس آ رھا تھا۔ وہ بوہل کو فوراً کیمپ میں لے گئے اور اسے آکسیجن اور گرم چائے دی۔ یہ ان کے لیئے جزباتی لمحات تھے، وہ ہنس رہے تھے اور رو رہے تھے۔ انھوں نے ریڈیو کے ذریعہ کامیابی کی خبر دوسرے ساتھیوں کو بھی پہنچائی۔ مہم کے دوران بوہل کے پیروں پر سردی کا اثر ہو گیا تھا، ان کا خیال تھا کہ یہ معمولی ہے۔ فرانبرگر رات گئے بوہل کے پیروں کی مالش کرتا رہا۔

7 جولائی کو وہ بیس کیمپ پہنچے۔ بوہل ابھی تک کمزوری اور تھکن محسوس کر رہا تھا۔ ہرلیکوفر نے جب بوہل کے پیر کا معاینہ کیا تو اسے اندازہ ہوا کہ فراسٹ بائٹ خطرناک ہے۔ کچھ دن بعد انھوں نے واپسی کا سفر شروع کیا اور اسی دن بارشیں بھی شروع ہو گئیں۔ بوہل کو بیس کیمپ سے روڈ تک لے جایا گیا۔ ان کی ٹیم راستے میں جہاں کہیں آبادی سے گزرتی لوگ لوگ جرمنی زندہ باد کے نعروں سے ان کا استقبال کرتے۔ ہرمن بوہل کا گلگت ہسپتال میں علاج ہوا پھر لاہور ہسپتال میں اس کے پاؤں کی دو انگلیاں بیکار ہو گئی تھیں جو کاٹنی پڑیں۔

کراچی میں ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں صدر پاکستان نے ساری ٹیم کو میڈلوں سے نوازا۔تین سال بعد بوہل دوبارہ پاکستان آیا۔ اس بار وہ اپنے ہم وطنوں کے ساتھ تھا۔ ان کی ٹیم کا لیڈر مارکس شمک تھا۔ ان کے علاوہ دو کوہ پیما فرٹز ونٹرسٹیلراور کرٹ ڈیمبرگر شامل تھے۔ بوہل ان میں کوہ پیماء سے متعلق سب سے زیادہ تجربہ رکھتا تھا۔ وہ یہاں قراقرم کے برف زار میں واقع دنیا کی بارہویں بلند ترین چوٹی براڈ پیک سر کرنے آئے تھے۔ براڈ پیک کے اردگرد دنیا کی کئی بلند چوٹیاں ہیں۔ یہاں سارا سال برف جمی رہتی ہے اور ٹمپریچر منفی درجہ حرارت میں رہتا ہے۔

اس مہم کے لیئے انھوں نے پورٹروں کی خدمات حاصل نہیں کی اور نہ ہی وہ آکسیجن لائے تھے۔ موسم سے مطابقت کے بعد انھوں نے کوہ پیماء کا آغاز کیا۔ بوہل ڈیمبرگر کے ساتھ تھا، شمک اور ونٹر سٹیلر ساتھ تھے۔
چوٹی سے کچھ دور بوہل نے محسوس کیا کہ وہ مزید آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ نانگا پربت پر فراسٹ بائٹ سے متاثر ہونے والا پیر رکاوٹ بن گیا تھا۔ ڈیمبرگر اکیلا ہی چوٹی تک پہنچا۔ یہ 9 جون 1957 کا دن تھا۔ شمک اور ونٹرسٹلر بھی چوٹی تک پہنچے اور واپس پلٹ گئے۔ ڈیمبرگر نے بھی واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ اسے راستے میں بوہل ملا جو مشکل کے باوجود چوٹی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ڈیمبرگر بھی دوبارہ اپنے ساتھی کے ساتھ چوٹی پر پہنچا۔ دونوں نے براڈپیک کی چوٹی سے غروب ہوتے سورج کا سحر انگیز منظر دیکھا۔
بیس کیمپ میں چند دن آرام کے بعد شمک اور ونٹر سٹیلر نے سکل بروم نامی چوٹی سر کرنے کا پروگرام بنایا۔ براڈ پیک کی کامیابی کے گیارویں دن وہ سکل بروم کی چوٹی پر تھے۔ دوسری طرف بوہل اور ڈیمبرگر نے چوغولیزا پر کوہ پیماء کا منصوبہ بنایا۔

چوغولیزا سطح سمندر سے 7668 میٹر بلند ایک شاندار پہاڑی ہے۔ تین دنوں میں بوہل اور ڈیمبرگر نے طوفانی انداز میں نوے فیصد فاصلہ مکمل کر لیا تھا۔

28ْ جون کو انھوں نے صبح پانچ بجے اپنا کیمپ چھوڑا اور کوہ پیمائی کا آغاز کیا۔ انہوں نے آج چوٹی پر پہنچنا تھا۔ بوہل بہت خوش نظر آ رہا تھا۔ اس نے ڈیمبرگر کو بتایا کہ اس کی ہمیشہ خواہش تھی کہ وہ اس طرح کے کسی شاندار پہاڑ کو راستے کی رکاوٹوں کے بغیر ایک ہی ہلے میں سر کرے۔

چند گھنٹوں بعد ہی اچانک موسم بدلنے لگا اور طوفان کے آثار پیدا ہوئے۔ وہ چوٹی سے صرف تین سو میٹر دور تھے جب انھیں محفوظ مقام کے لیئے واپس اترنا پڑا۔ ڈیمبرگر رہنمائی کر رہا تھا۔ دھند اور کہر میں کچھ صاف نظر نہ آ رہا تھا۔

اچانک ڈیمبرگر کو اپنے پیروں کے نیچے لرزش سی محسوس ہوئی۔ وہ اس وقت برف کے ایک چھجے کے کنارے پر تھا جو کھوکھلا اور پتلی برف کا تھا۔ اس نے فوراً پہاڑ کی طرف چھلانگ لگا دی اور لڑھکتا ہوا محفوظ جگہ تک پہنچ گیا۔ بوہل کہیں نظر نہیں آ رہا تھا وہ تھوڑی دیر انتظار کرتا رہا پھر اسے تلاش کرنے دوبارہ خطرے والی جگہ کی طرف بڑھا۔ برف میں اس کے قدموں کے نشان کے ساتھ بوہل کے قدموں کے نشان بھی تھے جو برف کے اس چھجے کی طرف بڑھ رہے تھے جو پہاڑ سے ٹوٹ کر نیچے کہیں غائب ہو چکا تھا۔ نیچے کچھ نظر نہ آ رہا تھا۔ ڈیمبرگر تیزی سے بیس کیمپ کی طرف اترا۔ وہاں شمک اور ونٹرسٹیلر بھی اس کے ساتھ بوہل کو تلاش کرنے نکلے مگر بوہل کا کہیں سراغ نہ ملا۔

آج ہرمن بوہل کی موت اور نانگا پربت کی تسخیر کو ساٹھ سال سے زیادہ وقت گزر چکا ہے۔ اب تک کئی کوہ پیما نانگا پربت کی چوٹی سر کر چکے ہیں، لیکن کوہ پیماء کی تاریخ میں جو مقام ہرمن بوہل کو حاصل ہے، وہ آج تک کسی اور کوہ پیما کو نہ مل سکا۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 386632 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More