درسِ درسگاہ
(Sohail Arshad Mehmood, )
آج کا پیپر میرا کیسا ہوا؟ خیر یہ تو بتانے
والی کوئی خاص بات نہیں ہے مگر جو کل کا میرا پیپر ہوا تھااس پر بات کرتا
ہوں کہ آج پیپر شروع ہونے سے قبل میں اپنے ایک دوست کے ساتھ کالج میں ٹہل
رہا تھا کہ ایک پروفیسر صاحب کے کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے انہوں نے زور
سے بولتے ہوئےSP! کے نام سے مجھے آواز دی اور کہا کے تم نے پیپر پر بھی
اپنے نام کے ساSPلکھا ہوا ہے جس پر میں نے سوالیہ نشان( ؟) ڈال دیا ہے کہ
اس کا کیا مطلب ہے؟ خیر اس سوال پر تو میں نے سر کو ٹال مٹول ہی دیا اور
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ تمہارا پیپر بہت اچھا ہوا ہے میں نے چیک کیا ہے
جس پر میں تھوڑا شرمندہ ہو ا اور سر سے پوچھا کہ کیا آپ نے راتوں رات پیپر
چیک بھی کر لئے ہیں تو سر نے بتایا کہ نہیں ابھی صرف معروضی حصہ (Objective
Part) ہی چیک کیا ہے جس سے میرے اوسان پھر بحال ہو گئے کیونکہ معروضی حصہ
میں نے کلاس کے ایک لائق سٹوڈنٹ سے نقل کیا تھا۔میں جن پروفیسر صاحب کے
بارے میں بتا رہا ہوں ہم اکثر اوقات ان سے فرینڈ لی گپ شپ کرتے رہتے ہیں تو
اس ملاقات میں انہوں بتایا کہ رات کو ایک طالب علم کا پیپر چیک کرتے ہوئے
میں سخت پریشانی میں مبتلا تھا، مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں اس سٹوڈنٹ
کے ساتھ کیا سلوک کروں؟ وہ بتا رہے تھے کہ طالب علم کی ہینڈ رائٹنگ بھی
اچھی تھی لیکن اس نے جو مضمون لکھا تھا اس نے مجھے سخت اور عجیب سوچ میں
مبتلا کر دیا تھا۔ طالب علم نے پیپر میں اپنی مجبوریوں اور بے چارگی کی ایک
طویل داستان بیان کر نے کے بعد لکھا تھا کہ سر جی آپ کو اﷲ کا واسطہ مجھے
پاس کر دیجٔے گا۔ آپ کو رسول ﷺ کا واسطہ مجھے پاس کر دینا۔ اگر آپ پنجتن کے
ماننے والے ہیں تو آپ کو پنجتن کا واسطہ مجھے پاس کر دیجئے گا۔ آپ کو
خلفائے راشدین کا واسطہ ہے اگر میں فیل ہو گیا تو میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ
میرے ساتھ ظلم ہو جائے گا۔ میں آپ کو سارا خاندانی پس منظر بتا چکا ہوں کہ
میرے سات بھائیوں میں سے میرے علاوہ باقی سارے ہی اچھی نوکریوں پر لگ چکے
ہیں اور میں ابھی تک صرف برائے نام ہیSPبنا پھر رہا ہوں۔ لہذ پلیز مجھے اس
دفعہ اتنے نمبرز ضرور دیجئے گا کہ میں پاس ہو جاؤں اور آپ سے وعدہ کرتا ہوں
کہ یہ ڈگری مکمل ہونے کے بعد مقابلے کے امتحان کے لئے پڑھوں گا اور آپ کو
اصل میں SPبن کے دکھاؤں گا بس ابھی میرا مسئلہ صرف یہی ایک پیپر ہے اس پیپر
میں نکل گیا تو میرا بیڑا پار ہے۔اگر آپ اﷲ، رسول، پنجتن پاک اور خلفائے
راشدین کو بھی ماننے والے نہیں ہیں تو میں آپ کو کر بلا کے معصوم شہداء کا
واسطہ دیتا ہوں کہ جنہوں نے تپتی ریت پر اور پانی کی شدید پیاس کے ساتھ
اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، پلیز مجھے پاس کر دیجئے گا۔ دیکھیں سر! مجھے
معلوم ہے کہ میں ایک علم کی روشنی بکھیرنے والے استاد کو ایک ایسی درخواست
کر رہا ہوں جو قانونی طور پر بالکل غلط ہے لیکن سر آپ دیکھیں نہ ہم زندگی
میں قوانین کی بار ہا خلاف ورزی کرتے ہیں، ہماری زندگیاں گناہوں سے بھری
پڑی ہیں۔ ہم روزانہ کئی بار گناہِ بے لذت کرتے ہیں۔ سر جی میرا خدانخواستہ
یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ بڑے گناہگار شخص ہیں بلکہ میرے کہنے کا مطلب یہ
ہے کہ اگر آپ یہ چھوٹا سا گناہ کر لیں گے تو ایک غریب کی زندگی سنور جائے
گی۔میں اس طالب علم کی واردات کے بارے میں سوچتا کہ وہ کس طریقے سے مجھے
ٹریپ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور مجھ سے ایک ایسے پیپر میں نمبر حاصل کرنے
کے لئے جذباتی دباؤ ڈال رہا ہے جس میں اس نے کوئی دو ایک سوالات کئے ہیں
اور ان میں بھی غیر تسلی بخش جوابات دئیے ہیں۔ پھر میں یہ سوچتا کہ بچے کا
انداز تحریر تو بتاتا ہے کہ وہ ایک ذہین طالب علم ہے اور وہ واقعی مختلف
مسائل کی وجہ سے تیاری نہیں کر سکا ہو گا۔ بیچارے نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ
چھ بھائیوں اور تین بہنوں کا اکیلا اکیلا بھائی ہے اور اس کا سارا مستقبل
اس امتحان سے جڑا ہے اور یہ پیپر اس کے مستقبل کا سوال ہے۔ آگے جا کر بچے
نے پیپر میں نمبر حاصل کرنے کے لئے ایک اور واردات کر ڈالی تھی کہ سر زندگی
میں ہر شخص کو کبھی نہ کبھی محبت ضرورت ہوتی ہے مجھے یقین ہے کہ آپ بھی
محبت یا عشق کے امتحان سے ضرور گزرے ہوں گے آ پکے دل میں بھی کسی کی محبت
کی شمع روشن ضرورہوئی ہو گی آپ نے بھی کسی کی یاد میں اندھیری راتوں میں
بستر پر کر وٹیں ضروری بدلی ہونگی اور اپنی محبت کو ایک نظر دیکھنے کے لئے
ضرور تڑپے ہونگے آپ کو آپکی اس پہلی محّبت کا واسطہ کہ میری درخواست رد نہ
کیجئے گا اور مجھے اتنے نمبرز ضرور دے دیجئے گا کہ میں پاس ہو جاؤں۔پروفیسر
صاحب اس طالب علم کا نام نہیں لے رہے تھے اور میں نظریں جھکائے سارا قصہ سن
رہا تھا اور یہ سننے کے لئے بے چین تھا کہ آخر انہوں نے اس طالب علم کے
ساتھ سلوک کیا کیا؟ مگر قصہ تھا کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا ۔ کہنے
لگے کہ عشق اور محبت کا واسطہ دینے کے بعد اس چالاک نے مجھے میرے ہونے والے
بچوں کاواسطہ دیا اور آخر میں لکھا کہ سر مجھے معلوم ہے کہ آپ نے لو
میری(Love Marriage)کی ہوئی ہے اور آپ کو اپنی بیوی سے بہت محبت ہے میں آپ
کو آپ کی زوجہ محترمہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ میری درخواست اور التجا
ٹھکرائیے گا نہیں اور ہاں سر! اگر آپ اب بھی میری درخواست کو رد کرنے کا
ارادہ رکھتے ہیں تو ایک دفعہ میری درخواست و التجا کے حوالے سے اپنی زوجہ
محترمہ سے ضرورمشورہ کر لیجئے گا بس کیا تھا پھر اس فقرے کو پڑھتے ہی میں
نے بے اختیار اپنی وائف کو زور دار آواز دی وہ دوڑی چلی آئی کیونکہ اس سے
پہلے میں اس کو ہمیشہ محبت سے ہی آواز دیتا تھا اور آج پہلی مرتبہ میں نے
اسے اس طرح بلند آواز میں اور کرب میں بلایا تھا۔ میں نے اس پیپر کے حوالے
سے سارا ماجرا وائف کو سنایا عورتیں ہمیشہ نرم دل ہوتی ہیں اور کوئی بھی
عورت اپنے بچوں کا واسطہ اور خصوصاً ہونے والے بچوں کا واسطہ دینے پر کسی
کی درخواست نہیں ٹھکرا سکتی۔ فورا ً بول اٹھی کہ ہائے بے چارے کو نمبر دے
دیں کیا ہوا اگر ہماری ایک چھوٹی سے بے اصولی سے کسی کی زندگی سنورتی ہے تو
ہمیں خوشی ہونی چاہیے ا ور پھر اس نے مجھے اس کا طریقہ بھی بتایا کہ پیپر
پر سیاہی کی دوات الٹ دیں اور نوٹ لکھ دیں کہ بچے کا پیپر چیک ہو چکا تھا
اور اس نے پاسنگ مارکس حاصل کر لئے تھے لیکن سیاہی گرنے سے اس کا پیپر خراب
ہو گیا۔ یہ کہہ کر میری بیوی کچن میں چلی گئی اور میں دوات الٹنے کا طریقہ
سوچنے لگا اور پھر اس پر عمل بھی کر دیا لیکن ہوا یوں کہ دوات کچھ اس طرح
گری کہ اس نے کئی پیپرز خراب کر دئیے۔ میرے کپڑوں کا ستیا ناس کر دیا۔ ٹیبل
فرش اور قالین بر باد کر دئیے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس طالب علم کا پیپر
اسی طرح صاف ستھرا میرا منہ چڑا رہا تھا اور بس میں نے فوراً فیصلہ کر لیا
کہ میں اس طالب علم کو فیل کر دوں گا، کبھی کسی صورت پاس نہیں کروں گا۔ یہ
آخری الفاظ سن کر مجھے بہت دکھ اور افسوس ہوا کہ اس پیپر میں اتنی محنت سے
لکھی ہوئی تمام تدبیریں موثر ثابت ہونے کے عین قریب پہنچ کر دم توڑ گئیں
اور ایک سیاہی کی دوات گرنے کا انداز تمام تدبیروں پر پانی پھیر گیا کیونکہ
اﷲ کو کچھ ایسا ہی منظور تھا۔ مجھے دکھ اور افسوس اس لئے ہوا کہ یہ پیپر
میرا تھا۔
درسگاہ کے اس قصے سے محنت کا درس تو ملتا ہی ہے لیکن اس کا دوسرا پہلو آنے
والے الیکشن کے حوالے سے بھی ہے کہ ہمیں انتخابی امید واروں کی منتوں ،
ترلوں کی وجہ سے کسی غلط شخص کو ووٹ نہیں دینا چاہیے اور اگر ہمارے خاندان
کا کوئی عزیز ترین شخص بھی کسی غلط امید وار کو ووٹ دینے کی سفارش کرے تو
اسے بھی کہنا چاہیے کہ ہم نے ترس یا ترلوں ، منتوں سے دھوکہ کھا کر کئی
مرتبہ اپنے ووٹ ضائع کئے ہیں لیکن اب اپنے ووٹ سے ملک کی تقدیر بدلنی ہے
اور سیاہی کی دوات گرائے بغیر کسی سیاسی جماعت یا اُمیدوار کے دھوکے میں
آنے کی بجائے میرٹ پر اچھے لوگوں کو منتخب کرنا ہے۔ |
|