ایدھی کی جیت
(Rana Tabassum Pasha(Daur), Dallas, USA)
ان نادانوں کو تو اتنا بھی معلوم نہیں کہ اس بادشاہ کے دربار میں ماؤں کی گودوں میں پلنے والوں اور ایدھی کے جھولوں میں ڈلنے والوں کی کوئی جدا جدا صف بندی نہیں ہوگی ۔ صرف انصاف ہو گا اپنے اپنے اعمال کی بنیاد پر ۔
|
|
دکھی انسانیت کے ایک سچے مسیحا اور قوم کے
محسن عبدالستار ایدھی صاحب کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے آج ایک ہفتے سے
زائد ہو چکا ہے ۔ میڈیا پر ابھی تک ایک وڈیو کا چرچا چل رہا ہے جو کہ عین
ان کی وفات کے روز سوشل میڈیا پر جاری کی گئی جس میں ایک خبطی مفتی نے
ایدھی کی بےلوث خدمات و مقاصد کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے انتہائی غلیظ
زبان استعمال کی ہے ۔ مخبوط الحواس فتوے باز ، ایدھی صاحب پر عطیات و صدقات
کے غلط لوگوں اور غلط جگہوں پر استعمال اور حرامی بچوں کی پرورش اور معاشرے
میں حرامکاری کی ترویج و فروغ میں کردار ادا کرنے کا الزام لگا رہا ہے ۔ اس
درویش کا ایک ایمان فروش سے تقابل کر رہا ہے ۔ یہ اصل میں ایک آڈیو ہے جو
کہ 16 جولائی 2011 کو یوٹیوب پر اپ لوڈ کی گئی تھی اور عین ایدھی صاحب کی
وفات کے روز کسی بےغیرت فسادی نے خود اپنے حرا ۔ ۔ پن کا ثبوت دیتے اسے
سوشل میڈیا پر جاری کیا اور اسے یوٹیوب سے براہ راست شیئر کرنے کی بجائے اس
کی ریکارڈنگ چوری کی کیونکہ بصورت دیگر یہ پتہ چلتا کہ یہ تو پانچ سال
پرانا اپ لوڈ ہے اور ڈسکرپشن میں چینل والے نے خود اس خرمغز متکبر مفتی کو
ملامت کی ہوئی ہے ۔ اس پر صرف دس ہزار ویوز لگے ہوئے ہیں ۔ جبکہ اس سے کئی
گنا زیادہ ویوز اس ویڈیو کے حوالے سے تحریر کئے جانے والے مضامین پر لگے ۔
حالانکہ یہ ہنگامہ تو اسی وقت برپا ہونا چاہیئے تھا جب یہ آڈیو ٹیپ یوٹیوب
پر ڈالی گئی تھی ۔ مگر ایدھی صاحب کی وفات والے روز اسے پھیلانے کا مقصد ان
سے کوئی ہمدردی یا عقیدت کا اظہار نہیں بلکہ اس آڑ میں انکی کردار کشی ان
کے خلاف اٹھائے جانے والے اعتراضات کا اعادہ ایدھی کے پرستاروں میں بےچینی
پھیلانا اور اپنے خبث باطن کا مظاہرہ تھا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایدھی کی
زندگی میں اس گھمنڈی مفتی کی ہرزہ سرائی قابل گرفت نہیں تھی؟ اسی طرح
سانحہء ارتحال کی خبر عام ہوتے ہی سوشل میڈیا پر ہی کچھ مذہبی مسخروں نے
ایدھی صاحب کے بارے میں ایک انتہائی گھٹیا اور اہانت آمیز بکواسیات پوسٹ کی
۔ اپنے گریبان میں جھانکے بغیر مرحوم ایدھی کے مقام آخرت کے تعین کا ٹھیکہ
اٹھایا ۔ انہیں یہ حق کس نے دیا؟
ایدھی جن معاملات و مسائل کی بنیاد پر ایک پورا ادارہ دنیا کا ایک عظیم
الشان نیٹ ورک چلا رہے تھے ان کے حل اور معاشرتی قباحتوں کی بیخ کنی کے لئے
ان ملاؤں مفتیوں نے ایک فلاحی سماجی ڈھانچہ تشکیل دینے میں کیا کردار ادا
کیا؟ کیا مذہب کا مطلب ایک بےعمل معاشی تگ و دو سے خالی زندگی اور زبانی
کلامی جمع خرچ ہوتا ہے؟ کیا آئندہ مرتب کی جانے والی لغات میں مفتی کے معنی
فتوے دینے والا نہیں بلکہ فتنہ برپا کرنے والا درج کیا جائے گا؟
ایدھی صاحب نے کبھی دینی سطح پر اپنے کسی مقام یا مرتبے کا دعویٰ نہیں کیا
انہیں تو مولانا کہلوانا ہی پسند نہیں تھا ۔ وہ مذہبی موضوعات پر بات کرنے
میں پہل نہیں کرتے تھے ۔ وہ ایک انتہائی بےغرض اور مخلص سماجی رہنما اور
بذات خود ایک فعال اور سرگرم کارکن تھے ۔ ہر بحرانی صورتحال میں بحالی کے
عمل میں عملی طور پر حصہ لیتے تھے ۔ خود کو کوئی ارفع و اعلا ہستی نہیں
مخلوق خدا کے ایک حصے کے طور پر ہی پیش کرتے تھے ۔ رسمی تعلیم سے محرومی
اور زبان و بیان پر مناسب عبور نہ ہونے کے سبب اکثر ہی اپنا مؤقف بہتر طور
پر پیش نہیں کر پاتے تھے ۔ اور ان کی اس کمی کمزوری کا علم ہونے کے باوجود
اکثر ہی فسادی اور خبیث قسم کے میڈیا جوکر ان سے مذہبی نوعیت کے سوالات
کرتے تھے ۔ اور پھر ان کے جواب کو میڈیا پر خوب اچھالا جاتا تھا ۔ وہ صرف
اور صرف انسانیت اور خدمت پر یقین رکھتے تھے ۔ اور یہ بہت سی خباثتوں اور
منافقتوں سے لاکھ درجے بہتر تھا ۔ وہ ہمارے ملک کے عیاش کرپٹ چور لٹیرے
حرامخور حکمرانوں اور سیاستدانوں سے کروڑوں درجے بہتر انسان تھے ۔ ایدھی
بناوٹی رسمی قسم کے مذہبی بھی نہ سہی مگر منافق کام چور اور عیش پرست بھی
نہیں تھے ۔ موت کے خوف سے بلٹ پروف گاڑیوں اور سیکیورٹی گارڈز کی گود میں
بیٹھ کر باہر نہیں نکلتے تھے ۔ ہر طرح کے تعیش وآسائش کے حصول پر مکمل
دسترس رکھنے کے باوجود فقیروں والی زندگی کو پسند کرتے تھے ۔ یہ انکی بہت
بڑی توہین ہے کہ ان جیسے درویش صفت بندے کا موازنہ اک ایسے موقع پرست اور
ابن الوقت شخص سے کیا گیا جس کی ضمیرفروشی بس ایک ڈیل کی مار ہوتی ہے ۔
ایدھی نام کا سرپھرا کتنا مطمئین ضمیر اور روشن قلب شخص تھا کیسے وہ موت کا
سامنا کرنے کے لئے تیار رہتا تھا اس کا اندازہ صرف اتنی ہی بات سے لگایا جا
سکتا ہے کہ اس نے پچیس سال پہلے اپنی قبر خود اپنےباتھوں سے کھودی تھی اور
مرتے مرتے بھی اپنی آنکھیں اندھی قوم کو دے گیا ۔ اور اب ایک اور مفتے نے
فتویٰ داغا ہے کہ ایدھی کا اپنی آنکھوں کو عطیہ کر دینا جائز عمل نہیں تھا
وغیرہ وغیرہ ۔ اور یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو اندھا پیدا کیا ہے تو
آپ کون ہوتے ہیں اس کو آنکھیں دینے والے؟ اتنی جاہلانہ اور نامعقول بات کا
ترنت جواب کیا ہو سکتا ہے ظاہر ہے کہ وہ لکھے جانے کے قابل نہیں ہے ۔ غرض
منافقوں جاہلوں کاہلوں اور بےعملوں کا ایک ٹولہ ہے جو خود کچھ اچھا کر نہیں
سکتے اور کسی دوسرے کو کچھ کرتا ہؤا دیکھ نہیں سکتے ۔ ابھی اگر کسی بم
دھماکے یا خودکش حملے میں یہ زخمی یا ہلاک ہو گئے تو ایدھی کی ایمبولینس ہی
انہیں اٹھا کے لے کے جائے گی ۔ کسی حادثے یا بیماری کے نتیجے میں انکی
آنکھیں جاتی رہیں تو پھر انکے لئے ایدھی کی طرح کے کسی سرپھرے کی آنکھوں کا
عطیہ بٹورنا عین جائز ہو جائے گا ۔ اور ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر تھوک کر
چاٹنے کی روایت برقرار رکھی جائے گی ۔ جب ان کے اپنے سر پر پڑتی ہے تو ان
کی ساری شریعت دھری رہ جاتی ہے ۔ جب اپنا مطلب ہوتا ہے تو حرام کو حلال
ہوتے ہوئے دیر نہیں لگتی ۔ آخر کیوں ان کے فتووں کا اطلاق خود ان پر اور ان
کی اولادوں پر نہیں ہوتا؟ میرا چیلنج ہے کہ یہ جتنے بھی اپنے بارے میں
انتہا درجے کی خوش فہمی اور خود اعتمادی کے شکار فتوے باز حرام حلال کے
سرٹیفکیٹ بانٹنے والے مداری اور سادہ لوح عوام کے سامنے جنت کی نقشہ کشی
کسی عیاشی اور فحاشی کے اڈے کے طور پر کرنے والے گفتار کے غازی اپنی قبر
کھدوا کر رات کے وقت صرف پانچ منٹ کے لئے اس میں کفن پہن کر لیٹ جائیں ۔
میرا دعویٰ ہے کہ اس پانچ منٹ کے ٹرائل کے بعد انہیں آئی سی یو میں کافروں
کے طریقے اور ان کے ایجاد کردہ آلات کی مدد سے آکسیجن اور طبی امداد دی جا
رہی ہو گی ۔ مذہب کے نام پر اپنے مفادات کا چورن بیچنے والا کوئی ملا ہو یا
مفتی یہ ایدھی کی جوتی کے برابر بھی نہیں ہیں انہیں اپنے بارے میں بڑی خوش
فہمی ہے لہٰذا انہیں چاہیئے کہ قیامت کے روز جب انہیں ان کی ماں کے نام سے
اٹھایا جائے تو یہ اسے اپنی توہین گردانتے ہوئے اٹھنے سے انکار کردیں ۔ ان
نادانوں کو تو اتنا بھی معلوم نہیں کہ اس بادشاہ کے دربار میں ماؤں کی
گودوں میں پلنے والوں اور ایدھی کے جھولوں میں ڈلنے والوں کی کوئی جدا جدا
صف بندی نہیں ہوگی ۔ صرف انصاف ہو گا اپنے اپنے اعمال کی بنیاد پر ۔
|
|