افسانوی مزاحیہ
جھوٹ بولنا‘ سیاست کی فطرت کا لازمہ و لوازمہ ہے۔ جھوٹ اور دو نمبری کے
بغیر‘ اقتداری کرسی پر قبضہ جمانا ممکن ہی نہیں۔ طاقت بلا شبہ بڑی شے ہے‘
لیکن سیاست کے بغیر‘ زیادہ دیر تک اور زیادہ دور تک نہیں چل نہٰیں پاتی۔
مال و منال بھی اپنی ذات میں‘ بہت بڑی شے ہیں لیکن سیاست کے بغیر زیرو ہیں۔
میں نے پیسے والوں کو اپنی زوجہ کے حضور‘ بھ بھیڑ بنے دیکھا ہے۔ مجھ سے تو
خیر پ پتنی کے سامنے‘ بھ بھیڑ سے بھی کم تر ہوتے ہیں۔ ان کے برعکس سیاسی
مزاج کے‘ بھوکے ننگے شوہر‘ مزے اور تقریبا موج کی گزار رہے ہیں۔ گویا سیاست
دو نمبری یا دو نمبری سیاست کا مترادف ہے۔
پہلے کچھ رواج اور تھا‘ جو ووٹ دینے سے انکاری ہوتا‘ امیدوار اس کے داروازے
پر بار بار جاتا۔ وعدے کرتا۔ اگر ووٹر پھر بھی نہ مانتا‘ تو اس کے قریبوں
کو باطور پنچایت لے کر جاتا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ معاملات پیسے سے حل کر لیے
جاتے ہیں۔ لوگ بھی سمجھتے ہیں۔ اسے ہی غنیمت خیال کرتے ہیں‘ کیوں کہ وہ
جانتے ہیں کہ اس کے بعد‘ یہ متھے ہی کب لگے گا۔ سیاست دار دے گا نہیں‘ لے
گا سب کچھ۔ جب پیسے سے کام نہ نکل رہا ہو تو ڈنڈا کس لیے ہوتا ہے۔ اس مقولے
کے شاید وہ ہی بانی ہیں: ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا۔ ان لوگوں نے گولے
پالے ہوتے ہیں۔ انہیں عین موقع پر‘ شیطانی خدمت گار بھی میسر آ جاتے ہیں۔
سیاست دار‘ منہ پر جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم نے علاقہ میں یہ کام کیا‘ وہ کام
کیا‘ حالاں کہ انہوں نے‘ سرے سے کوئی کام ہی نہیں کیا ہوتا۔ بلکل اسی طرح‘
عرصہ کے اڑے پھسے کام کرنے یا کروانے کا وعدہ کرتے ہیں‘ بل کہ دعوے باندھتے
ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں لوگ یقین کر رہے ہیں‘ حالاں کہ لوگ خوب خوب جانتے ہوتے
ہیں کہ سب محض کہہ رہے ہیں‘ کرنا ان کے کاغذوں میں ہی نہیں۔ کرنے کروانے کے
لٰیے‘ ان کے اپنے بہت سے کام ہوتے ہیں۔ لوگ شہری نہیں‘ ان کی رعایا ہیں۔
رعایا کمانے کے لیے ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنا جگا اشیاء پر ٹیکس لگا کر‘ وصول
لینا ہوتا ہے۔
ٹیکس بال صفا پوڈر پر بھی لگا ہوتا ہے۔ ان کا موقف اپنی جگہ پر درست ہوتا
ہے‘ مرد صفائی کے لیے بلیڈ لیتے ہیں‘ کیا وہ بلیڈ پر عائد ٹیکس ادا نہیں
کرتے۔ دوسرا مرد اوپر داڑھی رکھتے ہیں اور کسی قسم کی پریشانی کا شکار نہیں
ہوتے‘ اگر ان کے دو چار گز بال نیچے بڑھ گیے‘ تو کون سی قیامت آ جائے گی۔
مرد حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھتے ہوئے‘ داڑھی مبارک رکھتے
ہیں۔ خواتین اسے سیاست داروں کا لطف و احسان سمجھیں۔ گھر میں آٹے کے لیے
پیسے نہیں‘ یہ ٹیکس آلودہ کریمیں یا پھر بال صفا پوڈر پر‘ پیسے برباد کرتی
ہیں۔ بچے کی فیس ضروری ہے یا زیر ناف صفائی ضروری ہے۔۔ سیاست دار اپنی
رعایا کو فضول خرچیوں سے بچانا چاہتا ہے۔ ان کے پلے ہی کچھ نہ چھوڑو۔ نہ
فالتو یا بہ قدر ضرورت پیسے ہوں گے‘ نہ فضول خرچی کریں گے۔ گویا نہ رہے گا
بانس نہ باجے گی بانسری۔
یہ ہی حال مذہبی لوگوں کا ہے۔ خیر اس میں ان کا قصور نہیں‘ جس طرح سے پڑھا
ہوتا ہے‘ اسی طرح سے پڑھاتے ہیں۔ ان کے ہاں معاملہ‘ بات کے غلط اور صحیح
ہونے کا نہیں۔ اکثر کہتے سنا ہو گا‘ اس بات کو چھوڑیے‘ کیوں کہ یہ فلاں
فرقے کی کتابوں میں ہے۔ دوسرا اڑ جانا‘ ان کی فطرت ثانیہ ہے۔ کہہ دیا کہ
ہاتھی انڈا دیتا ہے‘ تو طے پا گیا ہاتھی انڈا دیتا ہے۔ اس مسلے کے بیچ شک
کرنے والا کافر ہے۔ مولوی نما عباس ہوا کرتے تھے۔ ایک دیہاتی مسجد کے امام
مسجد تھے۔ غالبا نہیں‘ سچ مچ انہوں نے چھے چھوٹی سورتیں یاد کر رکھی تھیں۔
ان ہی سے‘ ساری عمر کام چلایا۔ جب پانچ وقت کی مشقت سے تھک جاتے تو بیٹی کے
ہاں آرام کی غرض سے چلے جاتے اور پانچ وقت کی نماز پڑھنے اور پڑھانے سے
چھٹکارہ پا لیتے۔
مسلے مسائل بھی کرتے۔ ان کی روایات‘ سنی سنائی اور گھڑی گھڑائی پر استوار
ہوا کرتی تھیں۔ اگر کوئی نہ کرتا‘ تو موقع پر کافر قرار پاتا۔ چپ میں بھی
سکھ نہ تھا۔ ہاں میں ہاں ملانا پڑتی تھی۔ یہ ہی نہیں‘ سبحان اللہ کہنا بھی
ضروری تھا۔ تقریبا ہر مذہبی مین‘ عدم وجود کو وجود دے کر‘ ایمان لانے پر
اصرار کرتا ہے۔ نہ تسلیم کرنے والے کے لیے‘ کفر کا فتوی کھیسے میں رکھتا۔
ضروری نہیں‘ کہ وہ خود بھی عامل ہو۔ سیاست دان بھی گا کی بدولت اپنا سکہ
جماتے ہیں۔ مذہبی مین بھی اس سیاسی اصطلاح گا پر اپنے کہے کی بساط اٹھاتے
ہیں۔
زکراں بی بی کے اقوال زریں کی بساط بھی‘ ان ہی دو سیاسی اصول و امور پر
استوار ہے۔ میں روز اؤل سے اس کے منہ سے سنتا آ رہا ہوں: ہائے میں مر گئی۔
گہرے غور و فکر کی ضرورت ہی نہ پڑی‘ سامنے نظر آ رہی ہوتی‘ کہ زندہ ہے۔
الله معافی‘ منہ پر اتنا بڑا جھوٹ۔ اسے دیدہ دلیری اور سینہ زوری کہتے ہیں۔
زندہ ہے‘ اور کہہ رہی ہے‘ ہائے میں مر گئی۔
یہ بھی کہتی آ رہی ہے: ہائے میں مر جاں۔۔۔۔۔۔ میں کئی دن انتظار کرتا کہ اب
مری‘ اب مری‘ مگر کہاں۔ آدمی کو زبان کا اتنا بھی کچا نہیں ہونا چاہیے‘
اپنے کہے پر ہر حال میں پورا اترنا چاہیے۔ کچھ ہی دن ہوئے‘ حسب سابق اپنا
یہ سیاسی بیان داغا: ہائے میں مر گئی۔ میرے منہ سے بےاختیار نکل گیا: میری
اتنی کہاں چڑھی۔ پھر کیا ہوا‘ مت پوچھیے‘ پلیز خود ہی سمجھ جائیے اور اس کے
حضور میری بخشش اور توبہ کے لیے دل سے دعا کیجیے۔ |