بلوچستان میں بھی یومِ یکجہتی کشمیر
(Raja Majid Javed Ali Bhatti, )
مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی نئی لہر نے
بدمعاش بھارتی فوج کو پاگل کردیا ہے جس نے آزادی کے متوالوں کو گولیوں کی
بوچھاڑ سے دبانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اب تک 2500کشمیری زخمی جبکہ 40کے
قریب شہید اور 70کے قریب کو بصارت سے محروم کردیا گیا ہے۔ نہتے کشمیریوں کے
ساتھ ہونے والے بھارتی فوجی مظالم پر ویسے تو سارا پاکستان ہی سراپا احتجاج
ہے تاہم بلوچستان میں بھی یوم یکجہتی کشمیر قابل ذکر ہے۔ جہاں ’’را اور
بھارت علیحدگی کی نام نہاد تحریک چلا رہے ہیں وہاں بلوچستان کے ہر حصے سے
مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کی حمایت میں جلسے جلوس اور بڑی ریلیاں نکالی
گئیں۔ یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں کے طلبہ نے بھی سول سوسائٹی اور
مقامی رہنماؤں کے ہمراہ یکجہتی کشمیر ریلیوں میں شرکت کی اور اپنے خطاب میں
کشمیریوں کی تائید و حمایت کا واضح پیغام دیا۔
پاکستان چاہتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کشمیر کے دیرینہ مسئلے کے لئے آگے
آئے اور پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرے لیکن چین کے
علاوہ بین الاقوامی برادری کے کسی بھی ملک نے پاکستان اور بھارت کے مابین
اس اہم مسئلے کے حل میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ کشمیر میں بھارت کی طرف
سے مظالم اور ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ 2010ء کے وسط میں بھی
کشمیری عوام بھارتی مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور قتل و غارت گری
کیخلاف کشمیر کی سڑکوں اور گلیوں میں زبردست احتجاج کیا تھا۔ مظاہروں کے
دوران بھی بھارتی فوج نے کشمیریوں پر بے پناہ تشدد کیا تھا جس کے نتیجے میں
کئی کشمیری نوجوان شہید ہو گئے تھے اور تقریباً دو ماہ کے دوران ایک سو
زائد کشمیری عوام شہید ہوئے۔ ان مظاہروں میں سکیورٹی فورسز کے بھی کئی
اہلکار ہلاک ہوئے۔ بھارت نے پاکستان کو دو لخت کیا۔ دریاؤں پر 65 ڈیم تعمیر
کرکے پاکستان کو بنجر کرنا چاہتا ہے۔ افغانستان میں اپنے نام نہاد قونصل
خانے قائم کرکے پاکستان میں تخریب کاری کررہا ہے اور جس کے ہاتھ کشمیریوں
کے خون سے رنگے ہوں وہ کیسے پاکستان کے لئے پسندیدہ ملک ہوسکتا ہے اور کیسے
پاکستان کا دوست ہوسکتا ہے۔ کشمیریوں کی تحریک مشکلات کے باوجود بھارت کے
ظالمانہ ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جاری ہے۔کئی سالہ تحریک کے دوران ایک
لاکھ انسانی جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا۔ ہزاروں لوگ معذور ہوئے۔ ہزاروں
جیلوں میں ڈالے گئے۔ اگرچہ بھارت نے خوب پراپیگنڈا کیا کہ مسئلہ کشمیر ختم
ہو چکا ہے اور کشمیری موجودہ صورتحال سے سمجھوتہ کرچکے ہیں لیکن کشمیریوں
نے ہمت نہیں ہاری اور اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔ او آئی سی نے اس
پر متفقہ قراردادیں پاس کیں۔ برٹش پارلیمنٹ اور اقوام متحدہ کے ایوانوں میں
زیر بحث آیا اور دنیا نے تسلیم کیا یہ مسئلہ حل طلب ہے اور بھارت کے اٹوٹ
انگ کے موقف کو مسترد کیا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد جو بھارتی فوج اپنے
آپ کو ناقابل شکست سمجھتی تھی اس کے 8 لاکھ جوانوں کو چند ہزار مجاہدین نے
بے بس کررکھا ہے۔ اب بھارت کے اہل دانش اور عوامی حلقوں نے کشمیر کی
متنازعہ حیثیت کو تسلیم کیا ہے۔ ارون دتی رائے جیسی بین الاقوامی شہرت
یافتہ شخصیت کشمیریوں کے موقف کی ترجمان بن چکی ہیں اور جسٹس تارکنڈے اور
پتن باس جیسے انسانی حقوق کے چمپئن بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی مذمت کرتے
ہوئے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ کشمیریوں کو ان کے حقوق دیئے جائیں اور بھارت
کے 65 فیصد عوام اس مسئلے کو حل طلب سمجھتے ہیں اور اپنی حکومت پر دباؤ ڈال
رہے ہیں کہ وہ کشمیریوں کو ان کے حقوق دے۔ اس کے باوجود کشمیر کے مسئلے کا
حل اس وقت ہوگا جب پاکستان ایک فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ |
|