ناکام بغاوت اور سرفراز قیادت

ترکی میں حالیہ ناکام بغاوت ترک فوج نے نہیں بلکہ فوج کے اندر سے امریکہ نواز ٹولے نے کی تھی جواقتدار کی ہوس میں گمراہ ہوگئے تھے ۔ تاہم ترک فوج ،ترک پولیس اورترک عوام نے جوائنٹ ایکشن سے اس مہم جوئی کو ناکام بنادیا۔اگرمسلمانوں کے اندرمیرجعفراورمیرصادق نہ ہوتے توآج اسلام کی جغرافیائی اور تاریخی حیثیت بہت مختلف ہوتی۔دوسروں کواستعمال اوران کااستحصال کرناامریکہ کوخوب آتا ہے مگر امریکہ تنہاقصوروارنہیں اس کی فرمانبرداری کرنیوالے گھر کے بھیدی بھی قابل گرفت ہیں جوامریکہ کی تاریخ اورغداروں کے انجام سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجودپرائی آگ میں کود پڑتے ہیں۔ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے ارتکاب میں گرفتارہونیوالے ''میرجعفر '' جس وقت سخت سزاکاسامنا کریں گے تواس وقت امریکہ انہیں بچانے نہیں آئے گا۔اسلام دشمن قوتوں کے درمیان اتحاد ویکجہتی ہے جبکہ بدقسمتی سے مسلمان منتشر اور ایک دوسرے کے خون سے پیاس بجھارہے ہیں۔مسلمان حکمرانوں کودوست دشمن کی پہچان نہیں،دنیا بھر کے مسلمانوں اوربالخصوص پاکستانیوں کا سرمایہ دارٹریڈرز کو اپنالیڈرسمجھنا المیہ نہیں تواورکیا ہے۔تجارت پیشہ لوگ صرف منفعت بخش کام کرتے ہیں،جس کام میں گھاٹا ہواس میں کوئی سرمایہ دارہاتھ نہیں ڈالتا ۔امریکہ کی آنکھوں میں ہروہ مسلم ریاست،قیادت اورحکومت کھٹکتی ہے جواسلام ،امن ،انصاف اورانسانیت کی بات کرے ۔ترکی کے باوفااورباصفا صدر طیب اردگان نے فلسطینی مسلمانوں پراسرائیلی بربریت کیخلاف آوازاٹھائی ۔انہوں نے برمامیں مسلمانوں کی نسل کشی پربرہمی کااظہار کیا اوربھارت کی ریاستی فسطائیت کیخلاف سربکف کشمیریوں سے اظہاریکجہتی کیا ۔غیور طیب اردگان نے ایک بھائی کی حیثیت سے پاکستان دشمن قوتوں کوللکارا ۔طیب اردگان کے اندرایمان کی طاقت ہے ،وہ اپنے شفاف افکاراوردبنگ کردارکی بنیادپرترک عوام سمیت دنیا بھر مسلمانوں میں مقبول اوران کے محبوب ہیں ۔ترک عوام کی بروقت اوربھرپور مزاحمت سے فوجی بغاوت کی ناکامی نے منتخب قیادت کوسرفرازکردیا۔

نہ جانے امریکہ ،اسرائیل اوربھارت کوکس بات کازعم ہے،اس شیطانی تکون کی امن دشمنی کس طرح ختم ہوگی۔اپنے مفادات کیلئے دوسروں کے مفادات کوبلڈوزکرناانصاف اورانسانیت نہیں ہے۔امریکہ جوموضی کرلے وہ دنیا کاتھانیدارنہیں بن سکتا۔پاکستان اورچین کی پارٹنر شپ نے بازی پلٹ دی ہے۔بھارت کویہ بات کون سمجھائے وہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کومرعوب نہیں کرسکتا۔پاکستان اورچین فطری اتحادی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔امریکہ اوراس کے اتحادی دنیا بھر میں ہرفتنہ وفساد کے پیچھے ہوتے ہیں اورپھرجس وقت ان کے چہروں سے نقاب اٹھتا ہے تویہ خفت مٹانے کیلئے معصوم بن جاتے ہیں ۔مقتدرقوتوں کے نزدیک دنیا میں بھی جنگل کی طرح طاقت کاقانون چلتا ہے ۔ اقوام متحدہ کاضابطہ اخلاق کتابوں اورقراردادوں تک محدود ہے ۔اقوام متحدہ میں اقوام متحدہ والی کوئی بات نہیں ،متعصب یوناٹیڈ نیشن کے افکاراورکردارسے اسلام دشمنی صاف آشکار ہے مگرزیادہ تر اسلامی ملکوں کے سرمایہ داراورعیش پرست حکمران اسلام اورمسلمانوں کی حفاظت کیلئے کسی قسم کاکرداراداکرنے سے قاصر ہیں۔فلسطینیوں کے ساتھ مسلسل کئی دہائیوں سے جوکچھ ہورہا ہے اس پرترک صدر طیب اردگان کے سواکسی مسلم حکمران کی تواناآوازنہیں سنائی دی ،عرب حکمرانوں کی طرح ایٹمی پاکستان کے حکمرا ن بھی خاموش ہیں۔عراق ،افغانستان ،لیبیا اورشام سمیت مسلمان ملکوں کوباری باری نشانہ بنایا گیا مگراس کے باوجود مسلم حکمرانوں کوآپس میں سرجوڑنے کی توفیق نہیں ہوئی انہیں شاید ایک دوسرے کاسرپھوڑنے میں زیادہ مزاآتا ہے۔مسلمان حکمرانوں کوزمینی حقائق کاادراک نہیں ،وہ اپنے اندرونی مخالفین کوتوچیونٹیوں کی طرح مسلنے میں ماہر ہیں مگر وہ اسلام اورمسلمانوں کے بیرونی دشمنوں کونہیں للکارتے ۔

12اکتوبر1999ء کوپرویز مشرف اقتدارمیں آئے توتخت لاہورسمیت چاروں صوبوں میں عوام کی طرف سے کسی مقام پرجمہوریت سے اظہاریکجہتی جبکہ آمریت کیخلاف مزاحمت نہیں کی گئی بلکہ زیادہ ترشہروں میں مٹھائی تقسیم کی گئی اورکوئی بعید نہیں مستقبل میں بھی لوگ موروثی سیاست کی علمبردار جمہوریت سے نجات پرجشن منانے کااہتمام کریں۔میاں نوازشریف نے خودبھی کئی بار شکو ہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 12اکتوبر 1999ء کے بعدجب میں نے ''قدم بڑھاؤمیاں نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں''کانعرہ لگانیوالوں کومڑکردیکھا توان میں سے وہاں کوئی بھی نہیں تھا ۔پاکستان میں اقتدار کیلئے'' بغاوت'' کرنیوالے صرف فوجی جرنیل نہیں بلکہ معصوم اورشریف سیاستدان بھی یہ شوق فرماتے رہے ہیں۔ڈکٹیٹرجنرل ضیاء الحق نے منتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کاتخت الٹایا اورانہیں تختہ دار پرلٹکایا تواس وقت میاں نوازشریف فوجی آمر کے کیمپ میں تھے،درحقیقت وہ خاندانی تجارت بچانے کیلئے سیاست میں آئے اورپھرسیاست انہیں خوب راس آئی اوران کے خاندان نے تجارت میں خوب چمکائی ۔ڈکٹیٹرجنرل ضیاء الحق نے جس وقت اپنے ''بے بی''وزیراعظم محمدخان جونیجو کوچلتا کیا تو اس وقت بھی میاں نوازشریف اپنے پارٹی سربراہ محمدخان جونیجوسے بغاوت کرتے ہوئے ڈکٹیٹرجنرل ضیاء الحق کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے۔میاں منظوروٹونے میاں نوازشریف کیخلاف پنجاب اسمبلی میں علم بغاوت بلندکیا اورپیپلزپارٹی کی مدد سے غلام حیدروائیں کو کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بل پرہٹاکرخودوزیراعلیٰ منتخب ہوئے توانہیں لوٹاقراردے دیا گیامگرپھر نظریہ ضرورت کے تحت میاں نوازشریف نے انہیں اپنے گھرماڈل ٹاؤن مدعوکرکے سینے سے لگالیا ۔میاں نوازشریف کے جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ اورممنون حسین کے سواکسی صدرمملکت سے تعلقات مثبت نہیں رہے ،وہ بھی شایداسلئے کہ جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ کے پاس 8ویں ترمیم کا ہتھوڑا تھا اورنہ یہ تلوارممنون حسین کے ہاتھوں میں ہے ۔سابق صدرمملکت غلام اسحق خان نے میاں نوازشریف سے محاذآرائی کے نتیجہ میں ان کی منتخب حکومت کوبرطرف کیا ۔جنرل (ر)عبدالوحیدکاکڑ نے میاں نوازشریف سے استعفیٰ لیا ۔جنرل (ر)جہانگیرکرامت اورمیاں نوازشریف کے درمیا ن جوہوا وہ بھی قوم کویادہے ۔سابق صدرمملکت سردارفاروق خان لغاری اورمیاں نوازشریف کے درمیان بھی محاذآرائی دیکھنے میں آئی۔میاں نوازشریف نے اپنے معتمدساتھیوں میاں محمداظہر،سردارذوالفقارعلی خان کھوسہ اورچودھری سرورکومختلف ادوار میں پنجاب کاگورنر مقررکیا مگر یہ تینوں آج ان کے ساتھ نہیں ہیں ۔عدالت عظمیٰ کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے دورمیں حکمران جماعت کے حامیوں کوعدالت پرحملے میں نامزدکیا گیا اوران میں سے ایک سزایافتہ چودھری اختررسول آج بھی حکمران جماعت میں ہیں اور2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ممتازرہنما میاں اسلم اقبال نے انہیں شکست فاش دی اورمیاں اسلم اقبال اپوزیشن میں ہونے کے باوجود اپنے ووٹرز کوڈیلیورکررہے ہیں ۔ جنرل (ر)پرویز مشرف کومیاں نوازشریف نے اپنے ہاتھوں سے آرمی چیف بنایا اورپھران دونوں کے درمیان اناحائل ہوگئی اورپھرکان بھرنے والے پیارے میاں نوازشریف کو فوج کے مدمقابل لے آئے اوراس کانتیجہ سب نے دیکھا ۔ چودھری برادران نے بھی شریف برادران کے رویے کیخلاف بغاوت کی اورپرویز مشرف کیمپ میں چلے گئے ۔اگروہ بدستورشریف برادران کے پیچھے کھڑے ہوتے توزندگی بھران کے خاندان میں سے کوئی وزیراعظم تودرکنا روزیراعلی پنجاب بھی نہ بنتا ۔میاں نوازشریف نے جلاوطنی کے دنوں میں اپنے سہولت کار چودھری سرور کوپنجاب کاگورنر بنادیا مگر بعدازاں چودھری سرورکیلئے ان کے ساتھ چلنادشوارہوگیا اورانہوں نے بغاوت کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا اوران دنوں وہ پی ٹی آئی میں ہیں ۔آج حکمران جماعت میں ان افرادکی بہت بڑی تعداد ہے جوپرویز مشرف کے دورمیں بھی شریک اقتدار اورشریف خاندان کامیڈیا ٹرائل کرتے تھے اورجولوگ شریف برادران کی جلاوطنی کے دوران معتوب مسلم لیگ (ن) کی سیاست اورجدوجہد کوجلا بخش رہے تھے وہ آج معتوب اوراچھوت ہیں۔

اب ترکی میں ناکام بغاوت کی طرف واپس آتے ہیں۔باوفااورباصفاقیادت سے اس کے حامی بھی دل وجاں سے وفاکرتے ہیں۔جولیڈر عوام کے زخموں پرمرہم رکھتا ہے اس کے وفادار لوگ اسے زخمی نہیں ہونے دیتے۔ترک صدر طیب اردگان کایہ مقام اوراحترام زریازورنہیں بلکہ ان کے روشن ضمیر کامرہون منت ہے ، اسلئے وہ مقتدرقوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنے کاہنر آزماتے ہیں۔انہوں نے اپنے خاندان کوشریک اقتدار نہیں کیا۔امریکہ کی اسٹیبلشمنٹ اس حکمران کی حامی ہوتی ہے جوان کے اشاروں پرناچتا ہو،طیب اردگان نے ترکی کوترقی کی شاہراہ پرگامزن جبکہ ترک قوم کی حمیت کاپرچم سربلندکیا۔طیب اردگان سے صادق وامین لیڈرکیلئے مقتدرقو تیں جال بچھاتی ہیں مگرباشعور عوام کی مزاحمت کے نتیجہ میں ناکامی ان کامقدر بن جاتی ہے۔ترکی میں فوجی آمریت کیخلاف جمہوریت نہیں خدمت ،کمٹمنٹ اورکردارکی جیت ہوئی ۔جو حکمران صادق جذبوں کے ساتھ اپنے ملک اور عوام کی خدمت کرتے ہیں وہاں قوم کو اپنے محبوب حکمران کی حفاظت کیلئے سردھڑکی بازی لگاتے دیکھا گیا ہے ۔ترک عوام نے جمہوریت نہیں بلکہ اپنے باکرداراورباصلاحیت قائد رجب طیب اردگان کی محبت میں قربانیاں دیں جبکہ فوجی بغاوت کیخلاف تاریخی مزاحمت کرتے ہوئے اپناملک اورمستقبل بچالیا۔ترکی میں فوجی بغاوت کے پیچھے یقینا امریکہ کاہاتھ تھا مگرترک عوام کی بروقت مزاحمت سے بازی یاپلٹ گئی۔ پاکستان میں باکرداراورایماندار قیادت کاقحط ہے لہٰذا ء پاکستان اورترکی کے درمیان موازنہ نہیں بنتا۔پاکستان میں سیاسی قیادت کی نااہلی کے سبب لوگ خود فوج کودعوت دے رہے ہیں،ماضی میں بھی پرویز مشرف کے آنے پر ملک بھر میں مٹھائی تقسیم کی گئی تھی۔ ترکی میں تازہ داخلی صورتحال ہمارے حکمرانوں کیلئے ایک پیغام ہے کیونکہ جو طیب اردگان کی طرح اپنے بچوں کیلئے محلات کی بجائے قومی ادارے بناتے ہیں ان کے اقتدار کیلئے خطرات پیدانہیں ہوتے اوراگرکوئی جرنیل بغاوت کرے بھی توعوام کچلنے کیلئے خودبخود اٹھ کھڑے ہو تے ہیں۔پاکستان میں فوجی بغاوت کادوردورتک کوئی امکان نہیں مگر حکمرانوں کی ''آبیل مجھے مار''والی گردان ناقابل فہم ہے۔پچھلے دنوں جومتنازعہ پوسٹرز لگائے گئے ،حکومت نے ان کرداروں کوابھی تک انصاف کے کٹہرے میں کھڑاکیوں نہیں کیا۔بہرکیف یہ حقیقت ہے اگرپاکستان میں فوج آئی تو قوم سڑکوں پرضرورآئے گی مگر پاکستانیوں کاآنا مزاحمت نہیں اظہارمسرت کیلئے ہوگا ۔ تاہم جس وقت پاکستان میں طیب اردگان جیسی قیادت برسراقتدارآ ئی تو اس وقت فوج بغاوت کاتصور بھی نہیں کرے گی ۔پاکستانیوں کوسیاست یاجمہوریت نہیں ریاست اور فوجی قیادت کے ساتھ محبت ہے ۔پاکستان میں موروثی سیاست کی علمبردارجمہوریت کاحامی ایک مخصوص طبقہ ہے اوریہ لوگ مراعات سے مستفیدہورہے ہیں ۔سیاسی قیادت خودکوقابل اعتمادبناسکتی ہے توضروربنائے یقینا عوام کی سوچ بدلی جاسکتی ہے ۔پاکستان کے باشعور لوگ اپنا محبوب بناتے وقت شعبدہ بازی سے متاثر نہیں ہوتے ۔پاکستان میں سیاسی جہالت کی موجودگی سے انکار نہیں کیاجاسکتا،یہ جہالت چند خاندانوں کی بادشاہت کیلئے آکسیجن کا کام کرتی ہے مگرمجموعی طورپرلوگ موروثی سیاست سے متنفراوربیزار ہیں۔میراوجدان کہتا ہے جولوگ پاکستان میں تعمیری تبدیلی کے خواہاں اوراس کیلئے کوشاں ہیں انہیں مایوسی نہیں ہوگی ۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139515 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.