ماں کے تشویش زدہ چہرے نے اسے عجیب سے کرب
میں مبتلا کر رکھا تھا۔کتنی راتوں کو بے خواب کرنے اور کتنے ہی دنوں کو بے
آرام کرنے کے باوجود ماتھے پر بل نہ آتے دینے والی ماں لمحہ لمحہ آنکھوں ہی
آنکھوں میں نثار ہونے والی ماں کی آنکھوں میں وہ یوں کانٹا بن کر کھٹکنے
لگی تھی، کرب سے دوچار تو ہونا ہی تھا۔
آتے جاتے ملاقاتی خواتین سے ہونے والی گفتگو کے جملے کانوں میں پڑتے ہی
رہتے تھے۔ اس کی خوبیوں، ہنرمندی اور خوش اخلاقی کا اظہار کرنے کے لئے ماں
نت نئے خوب صورت الفاظ ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتی، مگر تمام فصاحت و بلاغت کے
جواب میں یہی فقرہ کانوں کو سنائی دیتا۔
’’ہاں بہن ساری باتیں اپنی جگہ درست اور بہت خوب ہیں مگر …… ‘‘
اس مگر کے بعد لمبی چوڑی مجبوریوں کے قصے تھے وہی پرانے کہ کہیں حسن کی
مانگ تھی تو کہیں جہیز کی اور کہیں کم عمر لڑکی طلب تھی کوئی ان سے پوچھے
کم عمر لڑکی میں اتنی خوبیاں صلاحیتیں پیدا ہونے کے لئے بھی تو عمر درکار
ہونی چاہئے خوبیاں بھی ہوں اور عمر بھی کم ،کوئی بتلاؤ کے ہم بتلائیں کیا؟
ہر وقت کی فکر نے راتوں کی نیند بھی اڑا دی، اندر کی گھٹن باہر آنے کو بے
تاب تھی۔ حلق میں کانٹے پڑنے لگے تو آنکھ کھل گئی،بڑی مشکلوں سے تو ابھی
آنکھ لگی تھی۔
ایک بار نہیں بار بار آنکھوں کو مل کر دیکھا ہاں وہی تھی ان کے پلنگ کے
بالکل مقابل فرش پر جا نماز بچھائے پلکیں موندے اپنے رب سے راز و نیاز میں
مصروف اس راز ونیاز میں خود بھی شریک ہونے کو بے اختیار دل چاہنے لگا اور
وہ بھی نگاہیں جھکائے پلنگ پر بیٹھی رہ گئیں۔
’’اے ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والے پالن ہار میں نے خود کو تیری حفاظت میں
دے دیا اپنی ساری خوبیوں اور خامیوں سمیت خود کو تیرے حوالے کر دیا تو
جاننے اور سننے والا ہے۔فیصلے کرنے کا اختیار تجھے ہے۔ بے شک تیرے فیصلے سے
زیادہ کسی کا فیصلہ اچھا نہیں۔ اے سمیع و بصیر علیم و خبیر تجھے تو خبر ہے
میرے دروازے پر کیسے لوگ دستک دے رہے ہیں۔ ہاں وہ جن کا ہاتھ خالی اور دامن
داغدار ہے ، جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔مگر تو جو فیصلے آسمان پر کرتا ہے
مجھے یقین ہے تجھے منظور ہوا تو کوئی خوش کردار و خوش گفتار میرے در پر بھی
پہنچ جائےء گا۔اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو مجھے تیرا ہر فیصلہ قبول ہے دل و
جان سے، پھر ذرا یہ بتا دے میری جنت کیوں مضطرب ہے؟
’’کیو ں اس کی راتو ں کی نیند اور دن کا چین روٹھ گیا ہے؟ کیوں نوالے اس کے
گلے میں اٹکنے لگے ہیں کیوں وہ ہر ایک کے سامنے آنچل پھیلا دیتی ہے،
ہتھیلیوں کی پشت سے بہنے والے آنسوؤں کو پونچھ کر وہ پھر مخاطب تھی اپنی سب
سے زیادہ چاہنے والی ہستی سے۔
پھر بتا دے میری ماں کو کہ جب وہ انتہائی عاجزی اور انکساری سے میرے رشتے
کا سوال کرتی ہیں تو میرے دل پر کیا گزرتی ہے۔ اے دلوں کا حال جاننے والے
تجھے پتہ ہے اس وقت میں اپنی نظروں میں آپ ہی گر جاتی ہوں اور کوئی اپنی
نظر وں سے گر کر کیونکر جیئے؟
اے دانا و بینا!
پھر یہ بات بھی میری ماں کو سمجھا دے کہ خوفزدہ وہ ہوتے ہیں جن کا سرمایہ
راستوں میں بکھرا ہو چوراہے پر پڑا ہو۔ اس کا سرمایہ تو تیری حفاظت میں ہے۔،
پھر ڈر کیا؟ لوٹا دے ماں کا سکون اس کے چہرے کی بشاشت اس کی آنکھوں کی مہک
اور لبوں کی مسکراہٹ، بس میرا تجھ سے یہی سوال ہے اور تو قبول کرنے والا ہے۔
چہرے پر ہاتھ پھیر کر اس نے ماں کے پلنگ پر نظر ڈالی جواباً ماں کی محبت سے
لبریز آنکھوں اور شریر مسکراہٹ سے آراستہ لبوں نے اسے شرما کر نگاہیں جھکا
لینے پر مجبور کر دیا۔ |