پاکستان کا قرضہ کون اتارے گا ۔۔۔؟

سکھ میں کٹے یا دکھ میں جینا توہرحال میں ہے ۔ کیونکہ پاکستان کو ہماری ضرورت ہے پاکستان کے حکمرانوں کو نہیں ۔ حکمرانوں کے بس میں ہوتو جس طرح وہ قرضے لے رہے ہیں پتہ نہیں وہ اس ملک کے ساتھ اور اس کی مجبور بے بس عوام کے ساتھ کیا کرنے والے ہیں ۔ جب سے پاکستا ن بناہے تب سے لے کر آج تک ہم نے صرف پاکستان کی عوام کو روتے ہوئے دیکھا ہے ۔ کبھی بھی ان کو خوش نہیں دیکھا ہو گا۔ جس سے سنوگے وہ اپنی ہی داستان سنائے گا۔پاکستان کا ہر مرد اور عورت اپنے دل میں نہ جانے کیا کیا لیے پھر رہے ہیں ۔ نہ تو وہ پاکستانی ہونے پر خوش ہیں کبھی موجودہ حکمرانوں پر رو رہے ہوتے ہیں تو کبھی مارشل لاء پر ۔۔وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ہم آزاد کب ہوئے تھے ۔ان کے ذہنیوں میں ابھی بھی وہی تحریک آزادی کے لمحات سموئے ہوئے ہیں ۔کیونکہ حالات ہی ایسے دیکھائی دے رہے ہیں ۔اُن حالات میں اور موجودہ حالات میں کیا فرق ہے ۔ اُس وقت یہ تھا کہ مسلمانوں کو ان کا حق نہیں ملتا تھا اب بھی وہی ہے ۔کس کو اس کا حق مل رہا ہے ۔اور کس کو انصاف مل رہا ہے ۔اگر تمام سہولیات میسر ہیں تو حکمرانوں کو اور ان کے چاہنے والوں بچاری تو سڑکوں پر ہے ۔زندگی کی تلاش میں،روزی روٹی کی تلاش میں ،اپنا سر چھپانے کے لئے پتہ نہیں کہاں کہاں ان کو رہنا پڑ رہا ہے ۔اور کیا کیاان کے ساتھ بیت رہی ہے ۔ وہ یہر نہیں۔ محلوں اور سکیورٹی کے اندر رہنے والے حکمران کیا جانے ۔کہ عوام کس قدر بلک بلک کر مر رہی ہے ۔ ہسپتالوں میں ،شہروں کی گلیوں میں بازاروں میں ،سڑکوں پر ان کا کوئی اﷲ کے سو امدد گارنہیں۔

ہمارے ملک کے اندر حالات ہم خود ہی خراب کر رہے ہیں ۔نہ تو ہم عوام ٹھیک ہیں اور نہ ہی ہمارے حکمران اس قابل ہیں کہ وہ ہمار ااور ہمارے ملک کا خیال رکھ سکیں ۔ہم اس لئے ٹھیک نہیں ہیں کہ ہم جن کو آگے لے کر آتے ہیں چند دن بعد ان کے ہی خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہم ان کو موقع ہی نہیں دیتے کہ وہ ہمارے لئے کچھ بہتر کر سکیں ۔ وہ ایسے ہیں کہ ہر دور میں عوام کو چونا لگاتے ہیں اور چلتے بنتے ہیں ۔

حالات کو بہتر بنانے اور ملک کو صحیح طریقے سے چلانے کے لئے ملک میں بہت سی حکومتیں آئیں ۔اور کئی بار مارشل لا ء لگا۔ مگر کسی نے بھی ملک کے بارے میں نہیں سوچا کہ اس کا کچھ اچھا کر لیں۔ وہ اس لئے کہ ہم نے کسی کو اچھا کرنے کا موقع ہی نہیں دیا ۔اگر کوئی بھی جمہوری حکومت بنتی تو اپوزیشن اور دوسری جماعتیں اس کے خلاف دھرنے دینے کے لئے تیار ہو جاتی ۔وہ ایسے حالات میں کیا خاک ملک کے بارے میں سوچیں گے وہ صرف اس وقت اپنی کرسی کے بارے میں سوچیں گے ۔عوام مرے یا جیئے اس وقت ان کو اپنی بنی ہو گئی وہ کیا عوام کے بارے میں سوچیں گے ۔

میں تو بس اتنا ضرور کہوں گابہت افسوس کے ساتھ کہ اس وقت جو ملک کے موجودہ حالات ہیں وہ ہمارے ملک کے موجودہ حکمرانوں اور سیاسی پالٹیوں کی بدولت ہیں ۔وہ اس لیے کہ سیاسی پالٹیاں کسی کو حکومت کرنے ہی نہیں دیتی ۔وہ ہر وقت ایسے چور سچوں کی تلاش میں رہتے ہیں عوام کے سامنے ہرروز ان کی کوئی نہ کوئی منفی سرگرمی کو اچھالتے رہیں ۔اور ان کو بدنام کرتے رہیں،اورعوام کو ان کے خلاف بھڑکاتے رہیں اور جب وہ چلے جاتے ہیں ان لوگوں کو موقع مل جاتا ہے جو ان کے راستوں میں روڑے اٹکاتے رہیں تو پھر یہ کھیل ہر سال اور ہر حکومت کے ساتھ چلتا رہتا ہے ۔جس سے ملک کے حالات دن بدن خراب ہوتے ہیں ۔اور ملک کی سرمایہ کاری تباہ ہو جاتی ہے۔جس سے ملک کو چلانے کے لئے قرضو ں کی طرف جانا پڑتا ہے۔اور جو ملک قرضوں کی بدولت اور سود کے پیسوں سے چل رہا ہو، وہ کیاخوب ترقی کرے گا ۔ ہم سب اس سے واقف ہیں ۔کہ سود کے پیسوں سے کاروبار کبھی ترقی نہیں کرتا اسی طرح ہمارا ملک کیا خوب ترقی کر رہا ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیراعظم بننے کے خواب ہر کوئی دیکھ رہا ہے ۔جتنے بھی بڑے بڑے سیاستدان ہیں وہ ہر روز یہ خواب دیکھتے ہیں کہ میں پاکستان کا صدر بن جاؤں گا وزیر اعظم بن جاؤ ں گا۔ بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں اس دوڑاورامید میں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح یہ حکومت جائے اور ہم آجائیں ۔ان کو صرف اور صرف کرسی مل جائے عوام مر ے جا جیئے ان کو اس سے کوئی مطلب نہیں ۔پتہ نہیں ان حکمرانوں سیاستدانوں کا کرسی کی پیاس کا نشہ کب اترے گا ۔ اور یہ پاکستان اور اس کی عوام کے بارے میں سوچیں گے ۔کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ملک کا قرضہ کون اتارے گا اور کیسے اترے گا ۔ ن لیگ ،پپلز پارٹی ،مسلم لیگ ق ، عوامی نیشنل پارٹی ،تحریک انصاف ،عوامی تحریک ،مشرف لیگ،ایم کیو ایم، اور دوسری پارٹیاں کیا یہ ملک کا قرضہ اتارنے کے لئے تیار ہیں یا کہ بس سب کو کرسی کی پڑی ہے ۔ شرم کرو ایسے حکمرانوں تم کہاں ملک اور اس کی عوام کے ساتھ مخلص ہو ۔تم تو اس ملک کا بیڑا غرق کر رہے ہو۔ مجھے تو ڈر ہیں کہیں یہ قرضے لے لے کر ملک کو بیچ ہی نہ دیں ۔اگر ان میں سے کوئی ملک کا قرضہ اتارنے کی ٹھان لے تو وہ ہی ملک کا صحیح خیرخواہ ہو گا۔باقی سب لٹیرے ۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ملکی اور غیر ملکی قرضے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ان کو اتارنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس وقت پاکستان کا کل قرضہ تقریباً 21ہزارارب سے تجاوز کر گیا ہے۔پاکستان کا ہر پیدا ہونے والا بچہ ہزاروں روپے کا مقروض ہے۔ کوئی بھی حکمران سیاستدان اس کو اتارنے کی بات نہیں کرتا بس ہر روز قرضوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جس سے بے روزگاری بڑھ رہی ، مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ ضروریات زندگی کی تمام اشیا ء کے ریٹ آسمان تک جا پہنچے ہیں ۔ غریب آدمی اپنے بچوں کو دو ٹائم کی روٹی نہیں کھلا سکتا ۔ اور ہمارے حکمران دن بدن ملک کو مقروض سے مقروض کیے جا رہے ہیں ۔کوئی بھی سیاسی پارٹی ان قرضوں کے بارے میں نہیں سوچ رہی ۔ اگر یہ سیاست دان ملک کے ساتھ مخلص ہیں تو پہلے یہ ملک کا قرضہ اتاریں پھر اس ملک کی کرسی کے بارے میں سوچیں ۔ اور جو اس ملک کا قرضہ اتارے گا وہی اس ملک کی کرسی کا حق دار ہو گا عوام بھی اس کا ساتھ دے گی اوراس کے ساتھ کھڑی ہو گی۔
Muhammad Riaz Prince
About the Author: Muhammad Riaz Prince Read More Articles by Muhammad Riaz Prince: 107 Articles with 105460 views God Bless You. Stay blessed. .. View More