راجوری پونچھ اضلاع .... ’جعلی خیراتی ادارے ‘اور’کاغذی دینی مدارس‘

مذہب اسلام کی ترویج وترقی اور اسلامی معاشرہ کے قیام کے لئے دینی مدارس انتہائی اہمیت کے حامل ہیں،انہی کی بدولت دنیا میں اسلام کی تعلیمات اور مراسم قائم ہیں،انہیں اس وقت دین کے مضبوط قلعوں کی حیثیت حاصل ہے۔ان میں پڑھنے والے طلبہ دین کی علامات کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔دینی مدارس کی اہمیت سے انکار مشرق سے طلوع آفتاب کے انکار کے مساوی ہے، جس طرح مشرق سے طلوع آفتاب کا یقین بغیر کسی دلیل کے مسلم ہے۔ایسے ہی موجودہ دور میں دینی مدارس کا وجود انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔دینی مدارس کا انتظا م وانصرام کی بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ ملت کے صاحب ثروت اور اہل مخیر کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان مدارس کی مالی معاونت کریں تاکہ یہ گلستان شاد وآباد رہیں جن میں کھلنے والے پھول پورے چمن کو خوشگوار ومعطر بنائیں۔ان دنوں ہرجگہ علماءکرام ، مفتیان عالم وغیرہ مساجد اور دیگر دینی اجتماعات میں زکوة کی ادائیگی کی تلقین کر رہے ہیں، ایسے میں ا س وقت جہاں ہم پر زکوة کی ادائیگی فرض ہے تو وہی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اگر ہم یہ رقم دینی مدارس کو دیتے ہیں ،تو اس بات کویقینی بنالیاجائے کہ یہ حقیقی معنوں میں صحیح جگہ لگے ۔ خیر اس کالم میں جس بات پر خصوصی توجہ مبذول کرانا ہے وہ ’جعلی خیراتی ادارے ‘اور ’کاغذی دینی مدارس ‘ہیں۔اس طرح کی شکایات وخبریں وادی چناب سمیت صوبہ جموں کے متعدد علاقوں بلکہ وادی کشمیر سے بھی سننے کو ملتی ہیں اور موصول ہوتی ہیں لیکن راقم السطو ر کو خطہ پیر پنچال کا چونکہ ذاتی تجربہ ہے ، اس لئے میں صر ف اس حوالہ سے اپنے کالم میں اضلاع راجوری پونچھ کے ایسے جعلی خیراتی ادارے اور کاغذی دینی مدارس کی بات کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ خطہ پیر پنچال سے ماہ رمضان المبارک میں بالخصوص اور سال کے دیگر مہینوں کے دوران بڑی تعداد میں لوگ دینی مدارس کے لئے خطہ جموں کے دیگر علاقوں، وادی کشمیر اور بیرون ریاست جاتے ہیں، چند جمع کرنا اچھی بات ہے، آخر مدارس کے انتظام وانصرام کے لئے مالی وسائل درکار ہیں، اور ایسا کرنا کوئی گناہ یا غلط بات نہیں لیکن سب سے لمحہ فکریہ اور حیران کن امر یہ ہے کہ راجوری پونچھ میں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے صرف جعلی رسیدیں بنارکھی ہیں ، جن پر جعلی نام وپتہ درج ہے، اس بنا پر وہ چندہ کر کے پیسے اپنی ذاتی استعمال میں لاتے ہیں۔ بٹھنڈی، سنجواں اور صوبہ جموں کے دیگر مسلم اکثریتی علاقوں میں متعدد لوگ جو لباس وترز عمل سے بظاہر سنجیدہ،نیک سیرت دکھائی دیتے ہیں مگروہ جعلی رسیدوں کی بنا پر چندہ مانگتے ہیں۔سرنکوٹ، مینڈھر اور پونچھ منڈی سے تعلق رکھنے والے ایسے متعدد لوگوں سے ملاقات کا میرا ذاتی تجربہ بھی رہا، جب ان کی رسیدبک دیکھی، اس پر درج نام وپتہ پر غور کیاتو معلوم ہوا کہ زمینی سطح پر اس نام کا کوئی مدرسہ موجود ہی نہیں ۔جموں میں میرے ایک دوست کے گھر کرایہ پر ایک شخص رہتے تھے، جوکہ کافی پرہیز گار اور دیندار معلو م ہوتے تھے ، کئی ماہ یہاں رہنے کے بعد وہ چپ چاپ کرایہ ادا کئے بغیر وہاں سے چلے گئے۔ کمرہ میں بستر اور ایک چھوٹے سے بکسے میں رکھی کتابیں وغیرہ بھی چھوڑ گئے، جب ان کو کھول کر دیکھا تو یہ بکس جعلی رسیدوں سے بھر ا پڑا تھاکہ جس میں راجوری کے ایک علاقہ میں دینی مدارس کا ذکر تھا، جب اس پر دیئے گئے نمبرات وغیرہ سے مدرسہ بارے دریافت کیاگیا تو معلوم ہوا نمبرات، نا م وپتہ سب جعلی ہیں۔جموں میں اس طرح کے لوگ ہر جگہ دیکھے جاسکتے ہیں جن کے خلاف کڑی کارروائی کی ضرورت ہے۔ اس معاملہ کو اجاگر کرنے کا مقصد ہرگز کسی کو بدنام کرنے یا شبہہ خراب کرنا مقصد نہیں بلکہ سماج میں موجود ایسے دریندہ صفات اور ضمیر فروش افراد کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے جنہوں نے دینی مدارس اور مساجد کی تعمیر کے نام پر تجارت شروع کر رکھی ہے، لوگوں سے چندہ کے نام رقم جمع کر کے اپنا پیٹ پالاجارہاہے اور عیش وعشرت کی جارہی ہے۔ علماءحضرات، مفتیان عالم، ائمہ مساجد کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہئے ۔ ساتھ ہی تحصیل سطح پر اوقاف ایڈمنسٹریٹرز کو چاہئے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ متعلقہ علاقہ میں جتنے بھی مدارس موجود ہیں، ان کا باقاعدہ ریکارڈ موجود ہو۔ انتظامیہ کو چاہئے کہ پریٹنگ پریسوں اور چھاپہ خانوں کے مالکان کو بھی سخت ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ مساجد اور دینی مدارس کے نام کی رسید بکیں وبلیں تیار کرنے سے پہلے اس بات کو مکمل طور یقینی بنائیں اور اس کی تصدیق کریں کہ آیا ایسا ادارہ زمینی سطح پر موجود بھی ہے کہ یہ صرف جعلی ہورہاہے۔اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے یاچھاپہ خانے والے محض چند پیسوں کی لالچ میں آکر جعلی رسید بکیں پرنٹ کر کے دیتے ہیں تو ان کے خلاف قانون کے مطابق سخت سے سخت کارروائی ہونی چاہئے۔یہ ہم سب کا فرض ہے کہ مساجد کی تعمیر اور دینی مدارس کے لئے جوبھی مدد کریں ، وہ صحیح جگہ لگے، یہ رقم غلط ہاتھوں میں نہ جائے۔
Altaf HUssain janjua
About the Author: Altaf HUssain janjua Read More Articles by Altaf HUssain janjua: 35 Articles with 52886 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.