سماج میں ٹھگ نما پیر بابوں کی موجودگی اور علماءکی خاموشی لمحہ فکریہ!
(Altaf HUssain janjua, Jammu,Jammu and kashmir ,India)
خطہ پیر پنجال میں ولی اولیاءکرائم اور بزرگان دین کافی اہمیت دی جاتی ہے جس کافائیدہ اٹھاکر مختلف جرائم پیشہ افراد بھی پیر بابوں کو روپ اختیار کر کے عوام کا استحصال کر رہے ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس واقعہ کے سامنے آنے کے بعد خطہ پیر پنجال سے کسی بھی علماءیا دیگر دانشوروں نے اپنی کوئی رائے زنی نہیں کی اور ایک لفظ میں نہیں کہا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کے اہل اسلام کا ضمیر کس حد تک مرچکا ہے۔ اسی طرح کا ایک واقع وادی کشمیر میں چند برس قبل پیش آیا تھا جس میں شمس آباد خانصاب بڈگام میں ایک نام نہاد مدرسہ چلانے والے قالین باف گلزار احمد بٹ ولد غلام قادر بٹ سا |
|
حالیہ دنوں ضلع پونچھ کی تحصیل مینڈھرکے
سخی میدان علاقہ سے جمیل احمد نامی’ٹھگ نما پیر‘کو پولیس نے چند لوگوں کی
شکایت پر حراست میں لیا جس کے بعد کی گئی تفتیش میں سنسنی خیز انکشافا ت
ہوئے۔یہ شخص گذشتہ دو برسوں کے زائد عرصہ سے پونچھ ضلع میں سرگرم ہے جس نے
کئی طرح کے روپ اختیار کر کے ، بھیس، نام اور پتہ بدل بدل کر سادح لوح عوام
کو دو دو ہاتھوں لوٹا ، دھوکہ کھانے والوں میں کثیر تعداد خواتین کی بھی
شامل ہے جنہوں نے اپنی مشکلات ومسائل کے ازالہ کی یقین دہانی دیئے جانے پر
لاکھوں روپے نقدی اورسونے کے زیورات پر بھی اس ٹھگ نما پیر پر لوٹادیئے۔
پیر کا روپ اختیار کر کے لوگوں کا استحصال کرنے والے تھنہ منڈی کے پیر نما
بدقماش کی دوران پولیس تحقیقات حرکات سے جوں جوں پردہ سرک رہا ہے ،نت نئے
انکشافات سامنے آرہے ہیں جو نہ صرف انتہائی چونکا دینے والے ہیں بلکہ ہر ذی
حس شخص کو یہ سوچنے کی دعوت دیتے ہیں کہ خطہ پیر پنجال کے مسلم سماج کا
تانا بانا کس حد تک بکھر چکا ہے اور کس طرح یہاں اب مذہب اور اسلام کے نام
پر بھی دھوکہ دہی، تجارت کی ناقابل بیان داستانیں انجام دی جارہی ہیں۔خطہ
پیر پنجال میں ولی اولیاءکرائم اور بزرگان دین کافی اہمیت دی جاتی ہے جس
کافائیدہ اٹھاکر مختلف جرائم پیشہ افراد بھی پیر بابوں کو روپ اختیار کر کے
عوام کا استحصال کر رہے ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس واقعہ کے سامنے آنے
کے بعد خطہ پیر پنجال سے کسی بھی علماءیا دیگر دانشوروں نے اپنی کوئی رائے
زنی نہیں کی اور ایک لفظ میں نہیں کہا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کے
اہل اسلام کا ضمیر کس حد تک مرچکا ہے۔ اسی طرح کا ایک واقع وادی کشمیر میں
چند برس قبل پیش آیا تھا جس میں شمس آباد خانصاب بڈگام میں ایک نام نہاد
مدرسہ چلانے والے قالین باف گلزار احمد بٹ ولد غلام قادر بٹ ساکن لٹر
چاڈورہ کو گرفتارکیاتھا، اس کے خلاف وادی بھر میں تمام مذہبی تنظیموں نے
مسلک، نظریات وخیالات سے اوپر اٹھ کر اس کی نہ صرف مذمت کی بلکہ زبردست
احتجاجی راستہ اختیار کیاتھا ۔سرحدی اضلاع راجوری پونچھ کے اطراف واکناف
میں اس طرح کے سینکڑوں ٹھگ نما پیر بابے ہیں جواسلامی شریعت کی خود ساختہ
تشریح اور طلسماتی تاویلات ودلائل کے نت نئے طریقے اختیار کر کے لوگوں کو
اپنی طرف راغب کرنے پر عمل پیرا ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم
یافتہ، سماج کے ذی شعور افراد اور دانشور طبقہ بھی ان کے جھانسے میں آجاتا
ہے۔ اس طرح کے ٹھگ نما پیر نہ صرف اہل اسلام کو گمراہی کی طرف لے جارہے ہیں
بلکہ وہ اللہ کے نیک بندے، درویش بھی شک کے گھیرے میں آگئے ہیں جوکہ اللہ
تبارک وتعالیٰ کے ہاں بلند مرتبہ رکھتے ہیں اور جوں اسلام کی خدمت انجام دے
رہے ہیں۔ یہ ایک دو کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ اس طرح کے ٹھگوں کی ایک پوری
فوج ہمارے سماج میں موجود ہے اور وہ لوگوں کی توہم پرستی اور دین سے دوری
کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ان کا بڑی آسانی کے ساتھ استحصال کررہے ہیں۔ پہلے
ہی ریاست کے دیگر علاقوں کی طرح غیر مسلم عناصرخطہ پیرپنجال میں بھی
مسلمانوں کو مسلک، ذات پات وغیرہ کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے لئے سرگرم عمل
ہیں، جن کے لئے ایسے ٹھگ نما پیر بابوں کے ذریعہ اپنے مشن کو عملی جامہ
پہنانے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ اس سے بھی قطعی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ایسے
ٹھگ نما پیر بابوں کو اسلام مخالف طاقتوں کی سرپرستی بھی بلاواسطہ اور
بلاواسطہ پر حاصل ہے۔ اسطرح کے مولوی نما اور درویش نما ٹھگ اگرچہ زیادہ تر
اسلام کا نام لیکر ہی لوگوں کا استحصال کرتے ہیں، البتہ وہ خود اس کی
تعلیمات سے کوسوں دور ہوتے ہیں اور اس کا نام صرف اپنی کمپنی کی مشہوری اور
سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔علمائے کرام اور
دانشورانِ ملت سے ایسے شرمناک واقعات کو دوبارہ رونما ہونے سے رکوانے کی
خاطر ایک موثر اور مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینے کی کوشش کرنی چاہئے ہے تاکہ
آئندہ سادہ لوح مسلمان ایسے شیطان صفت ٹھگوں کے ہتھے چڑھ جانے سے محفوظ رہ
سکیں۔ جس طرح مینڈھر کی عوام نے ایسے درندہ صفت ٹھگ کے کالے کرتوتوں سے
پردہ اٹھا کر ایک نمایاں کام انجام دیا ہے۔وہیں پر اب ذمہ داری قانون نافذ
کرنے والی ایجنسیوں پر ہے کہ وہ اس کیس کی مزید تحقیقات کر کے جمیل احمد کے
دیگر حواریوں کو بھی قانون کے دائرے میں لاکر قانونی کاروائی شروع کریں۔
اسلام عقل کی کسوٹی پر اُترنے والا ایک مکمل اور معقول نظامِ زندگی ہے،
البتہ صدیوں کی غلامی کی وجہ سے ہمارے ہاں اس پر مشرکانہ رسوم کی گہری چھاپ
پڑگئی ہے اور مسلمان ہونے کے باوجود ہمارے لوگ مختلف قسم کے توہمات اور
واہمات کے شکار ہیں اور وہ آسانی سے اس قسم کے بہروپیوں کے ہتھے چڑھ جاتے
ہیں۔بہر کیف اس معاملہ کی نزاکیت کو سمجھتے ہوئے خاموشی کوئی علاج نہیں
ہے۔صحیح اور غلط میں تمیز کرنے اور سزا دینے کا حق خدا کو ہے لیکن جہاں
ایسی حرکتوں سے زمینی سطح پر ہمارے سماجی اور مذہبی اقدار کو ٹھیس پہنچنے
کا احتمال ہو،وہاں کھڑا ہونا ناگزیر بن جاتا ہے۔ان کی فہمائش کرکے انہیں
واپس صحیح دائرے میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ پشت بہ دیوار ہوکر وہ کوئی
سنگین اقدام کرنے پر مجبور نہ ہوجائیں جس کے نتیجہ میں یہ سماج پورا بکھر
کر رہ جائے گا بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں اس شیطان صفت شخص کو قرار
واقعی سزا دینے میں سب متحد ہوجائیں وہیں متاثرین کی دلجوئی اور ان کی
واپسی کیلئے موثر رہنمائی کو اولین ترجیح دی جائے تاکہ اجتماعیت زند ہ رہے
اور انفرادیت شکست فاش ہو۔ |
|