پیاسی حسرتیں
(Farheen Naz Tariq, Chakwal)
میرا خواب مر گیا-" اس جملے کی گردان آج بھی سٹیشن کے پاس بھاگتے مٹی بھرے سر والے اک فقیر کے منه سے نکلتی سنائی پڑتی هے اور اس کے پیچھے لپکتی اسے سنبھالنے کو هلکان هوتی اک بڑھیا کی سسکیوں میں شامل یه آؤاز جهاں سے گزرتی هے ماحول کو سوگوار کر دیتی هے- |
|
ٹوٹی بان کی چارپائی پر بیٹھی بچوں کو اجلے
یونیفارم پہنے سکول جاتے تکتی آنکھوں میں جھلملاتے شکوے ،حسرت کے رنگ ہمارے
بہت خودمختار لوگوں کے منہ پر طمانچہ تھے یہاں درختوں کے نیچے رکھی اس بان
کی چارپائی پر بیٹھے گھنٹوں سامنے کی دیوار کو تکنا اور دیوار کے پیچھے سے
آتی ننھے بچوں کی سبق یاد کرتی آوازوں کو سننا اس کا محبوب مشغلہ تھا - اس
کا دل چہتا کبھی وہ بھی اس دیوار کے پار جھانک کر دیکھے جہاں اسکی جھگی کے
اندر کی دنیا سی یکسانیت نہ ہوتی جہاں اماں ابا کے مزدوری کر کے لائے گئے
پیسوں کا بہترین مصرف تلاش کرنے کی بجائے اک نیا جہان آباد تھا وہ سکول
جانا چہتی تھی بہت سارا پڑھنا چہتی تھی جب سے اسے یہ شوق چرایا تھا تب سے
اس نے اپنی ہم جولیوں کے سنگ پٹھو گرم کھیلنا بھی چھوڑ دیا تھا اس کے ساتھ
کی باقی لڑکیاں دن بھر ان درختوں کی اوٹ میں نت نئے کھیل سیکھتیں وہ درخت
کے نیچے بان کی چارپائی پر بیٹھی رہتی یا سکول کی اونچی دیوار کے پیچھے
جھانکنے کی کوشش کرتی - پچھلی گرمیوں میں مچھر کاٹنے سے جب ڈینگی کی وبا
پھیلی تھی تب ان سے ذرا پرے کی بڑی کالونی میں سپرے ہوا تھا مگر ان کی
جھگیوں کے واسکین کو کیڑے مکوڑے گردانتے ہوئے اس طرف کوئی نہ آیا تھا اور
یوں آس پاس کے علاقے کو صاف کرنے کی خاطر ساری گندگی اس طرف دھکیل دی گئی
جس میں اس کی سہیلی ذلیخاں ڈینگی بخار کی زد میں آکر مر گئی کئی اور بچے
بھی مرے تھے تبھی زینت بھی بیمار پڑ گئی اور ابا اسے بازو پہ اٹھا کر
ہسپتال لے گیا ان دونوں کے حلیے سے ہی عسرت ٹپکتی تھی لہذا کسی نے انہیں
وارڈ میں گھسنے تک نہ دیا ابا اسے گود میں اٹھائے ہسپتال کے فرش پر بیٹھا
ہاتھ سے پنکھا جھلنے کی کوشش کرتا رہا بمشکل تمام اسکو پرچی کاٹ کر دی گئی
اور ڈاکٹر کے ٹھنڈے کمرے میں جانے کی اجازت دی گئی اسے لگا وہ جہنم سے جنت
کا سفر طے کر کے آئی ہو وہ ٹھنڈا کمرہ ، ڈاکٹر کا خوبصورت پر آسائش چہرہ
اور اس تک پہنچنے کی لوگوں کی تگ و دو اس کے حواسوں پر اتنی سوار ہوئی کہ
رفتہ رفتہ اسکی خوہش اسکا خواب اس کا جنون بنتی چلی گئی وہ ڈاکٹر بننا چہتی
تھی اس نے ابا سے کہا وہ سکول جانا چہتی ہے وہ حیران ہوا انکے قبیلے سے
کبھی کسی نے سکول کا منہ نہ دیکھا تھا مگر پھر خوشی سے ناچتا اسے لے کر
سامنے والے سکول میں گیا بچوں کی آؤازیں ان باپ بیٹی کے چہروں پر حسرت کے
رنگوں میں اضافہ کرتی گئیں مگر سکول والوں نے اسے داخلہ دینے سے انکار کر
دی اسکی وجہ سے باقی بچوں کا ماحول خراب ہونے کا اندیشہ تھا یہ سڑک چھاپ
لوگ گھٹیا اور نازیبا زبان استعمال کرتےہیں جو باقی بچے سیکھتے اور وہ بھی
بگڑ سکتے تھے اس کے خواب ٹوٹنے لگے اعصاب پر اپنی کم مائیگی کا احساس چھانے
لگا نیچ ذات کا دھبہ اس کے خوابوں کی رہ کا کانٹا بن گیا مستقبل کے معمار
تخلیق کرنے والے اپنے اخلاق و کردار کا معیار گھٹا گئے تھے مگر تب ابا نے
اسے اک رہ سجھائی جسے سن کر وہ ششدر رہ گئی اس کے اماں ابا پوری برداری میں
اکیلے تھے جو بھیک مانگنے کی بجائے مزدوری کرتے تھے اماں جب بیہ کر اسکے
ابا کی جھونپڑی میں آئی وہ بھیک مانگتی تھی ابا نے اسے بھی عزت نفس کا درس
پڑھوا دیا ساری برداری ان سے خار کھاتی اور برادری کے بہر والے اس سے کرہیت
کھاتے اور یوں وہ چکی کے دوپاٹوں میں پسنے لگا اور آج زینت کے ارمان پورے
کرنے کی خاطر اک نئی تجویز نے اسکے دماغ میں پرورش پائی- شیداں اور زینت
اسکے منہ تکے جارہی تھیں وہ گویا ہوا-
" رمضان میں بارشوں کا اعلان ہوا ہے پہاڑوں پر برف بھی پگھلے گی تو سیلاب
آئیگا ان دنوں ہم اپنی جھگی یہاں سے اکھاڑ کر بالائی علاقے چلے جائیں گے
سیلاب میں جب سب کے گھر بہہ جاتے ہیں تو پنہ گزینوں کو امداد ملتی ہے تب
ہمیں بھی کہیں اک آدھ کمرہ دے دیا جائیگا پھر ہم اپنی زینت کو خوب پڑھائیں
گے-" تعلیم سے ناآشنا بہری دنیا کا مقدور بھر چہرہ دیکھے ہوئے اس شخص کی
آنکھیں ان میں پنپتے خوابوں کی روشنی سے جھلملا رہی تھیں -
" رشید یہ تو بے ایمانی ہے اگر پکڑے گئے تو-" شیداں کسی طور راضی نہ تھی
خوفزدہ تھی
" ارے ہم بھی تو اس ملک کے شھری ہیں حکومت کئی بار ہمیں جھگیوں اکھاڑنے اور
زمینیں دینے کا اعلان کر چکی ہے پھر خود ہی سارا پیسہ وڈیرے کھا جاتے ہیں
اور ہمیں کچھ نہیں ملتا- ہمارا بھی حق بنتا ہے اس ملک پر اور پکڑے جانے کی
تم نے خوب کہی ہر سال کتنے لوگ اور گھر سیلاب کی نزر ہوتے ہیں سیاستدان آتے
ہیں تصویریں بنواتے اور چلے جاتے ہیں پھر کوئی رفاعی ادارہ آتا ہے تھوڑی
بہت امداد اور ڈھیر سا مال اور تصویریں بنوا کے چلا جاتا ہے ہماری تفتیش
کون کرے گا کہ ہم کہاں سے آئے...... وہ وڈیرے جو اپنی زمینیں بچانے کے لئے
غریبوں کو دریا کی نزر کر دیتے ہیں - " اسے شیداں کی بات ناگوار گزری تھی
جبھی بگڑ کر بولا-
"ابا تجھے یہ سب کس نے بتایا کیا ایسا ہوتا ہے-" زینت آنکھوں میں تاسف اور
حیرانی لیے بولی
" سارا دن چہ کے ہوٹل پر صفائی کرتا ہوں نت نئے لوگ آتے ہیں باتیں کرتے ہیں
سب سمجھ میں آجاتا ہے- " اسنے قدرے فخر سے بتایا
اور یوں یہ چھوٹا سا کنبہ خوشی خوشی کوچ کی تیاریاں کرنے لگا اپنے مطلوبہ
علاقے میں پہنچ کر قدرے الگ تھلگ جھگی ڈال لی دوسرے دن بارشیں شروع ہوئیں
برف پگھلی -اس کے اندازے کے مطابق پانی کل تک انکے علاقے سے گزرنے والا تھا
وہ اور شیداں محفوظ جگہ کی تلاش میں سرگرداں تھے جہاں سے وہ پنہ گزینوں کے
ساتھ بھی مل سکتے زینت اپنی جھگی میں سو رہی تھی پانی بند توڑتا ہیڈ سے بہر
نکلتا اور پھیلتا چلا گیا رشید سرپٹ اپنی جھگی کی طرف بھاگا مگر پانی اس سے
زیادہ تیز نکلا اس کے پہنچنے سے بھی پہلے اسکی جھگی کو زینت سمیٹ اکھاڑ کر
دور تک دھکیلتا چلا جارہا تھا وہ اپنے حواسوں میں نہ رہا بمشکل تمام لوگوں
نے دونوں میاں بیوی کو پانی میں کودنے سے روک رکھا تھا وہ رونے پیٹتے چلاتے
پانی کی لہروں کو کوسنے دیتے اسکے پیچھے بھاگنے کی جستجو کرتے بہت سی
انسانی حقوق کی تنظیمیں آئیں ،حکومتی عہدار بھی آئے انکے ساتھ تصویریں
بنوائیں انکو چند سو ہزار کے چیک تھما کر ان لوگوں کے منہ پر طمانچے بھی
مارے گئے جو اپنے قیمتی اور پیارے رشتوں کو گنوا چکے تھے اور اب یہ چیک ان
کے کسی کام کا نہ تھا ایسا ہی ایک چیک رشید کو تھمایا گیا-
" اب یہ میرے کسی کام کا نہیں جسکو چہیئے تھا اسکی تو لاش تک نہیں پہچانی
جاتی تھی میری بچی میرا خواب مر گیا..... میرا خواب مر گیا-" ہوش و خرد سے
بے گانہ ہونے سے پہلے یہ اسکے آخری الفاظ تھے - اس جملے کی گردان آج بھی
سٹیشن کے پاس بھاگتے مٹی بھرے سر والے اک فقیر کے منہ سے نکلتی سنائی پڑتی
ہے اور اس کے پیچھے لپکتی اسے سنبھالنے کو ہلکان ہوتی اک بڑھیا کی سسکیوں
میں شامل یہ آؤاز جہاں سے گزرتی ہے ماحول کو سوگوار کر دیتی ہے- |
|