کبھی کبھی ترا آنا گراں گزرتا ہے

وہ خواتین کے ایک مشہور ماہانہ اسلامی جریدے کی مدیرہ تھی اور اپنے فرائض انتہائی ذمہ داری اور خوش اسلوبی سے ادا کیا کرتی۔ جس منصب پر وہ فائز تھی اس کی اہمیت سے مکمل طور پر آگاہ بھی تھی۔

عید سے ایک دن پہلے جب شام کو چاند متوقع تھا اس نے سوچا کہ جلد سے جلد کام نمٹا کر گھر چلی جائے ، کیونکہ سب کے ساتھ چاند دیکھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ یہ کیا کہ ٹی وی پر سن لیا۔ ویسے بھی اس گھر میں چاند دیکھنے کا یہ آخری موقع ہے۔ عید کے بعد تو اک نئی زندگی اس کی منتظر تھی۔

ابھی وہ اپنی سیٹ پر آ کر بیٹھی بھی نہ تھی کہ چپراسی (نائب قاصد) نے اطلاع دی۔

وہ جی ! کسی صاحب کا فون تھا آپ کو پوچھ رہے تھے؟ نام نہیں پوچھا؟ جی پوچھا تھا، فخرِ عالم بتایا تھا او رکہا تھا کہ کچھ دیر بعد پھر فون کریں گے۔

اچھا ٹھیک ہے۔

فخرِ عالم نے فون کیو ں کیا؟ کیا ضرورت پیش آ گئی؟ اب سے پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا۔ ضرور کوئی اہم بات ہو گی ۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ بات رمضان کے چاند سے شروع ہوئی تھی۔ اس کے گھر سے چند بلاک کے فاصلہ پر رہنے والی چند خواتین آئی تھیں اور بس چند دنوں کے بعد ایک نفیس سی انگوٹھی کے ساتھ اس کے حقوق جناب فخرِ عالم کے فرائض میں شامل کر دینے کا فیصلہ سنوایا گیا۔

کون ہیں؟ کیا کرتے ہیں؟ نام کیا ہے؟ یہ ضروری معلومات بہنوں نے بغیر پوچھے ہی فراہم کر دیں اور اتنا ہی نہیں ، بلکہ انسانی خصو صیات اور خوبیاں زور شور سے گنوا دی گئیں۔ اس طرح کی کارروائی دونوں طرف جاری تھی۔ فخر کی بہنیں ذکیہ کی تعریف میں رطب اللسان رہا کرتیں اور ذکیہ کی بہنیں فخر کے بارے میں۔

سچ باجی فخر بھائی اتنے اچھے ہیں اتنے اچھے ہیں کہ بس کیا بتائیں انتہائی پر وقار شخصیت ، موزوں قد و قامت، پر اعتماد چال اور شائستہ مزاج پر کشش لفظوں میں ڈھلی گفتگو ۔ اﷲ بہت ہی اچھے ہیں بہت ہی اچھے۔

اور وہ مسکراتی ہوئی دوسری جانب متوجہ ہو جاتی۔

سچ بھیا ذکیہ باجی اتنی اچھی ہیں اتنی اچھی کہ بس کیا بتائیں ایسا ہی ریکارڈ انتہائی خلوص کے ساتھ ادھر بھی بجتا۔ خدا کرے ایسی ہی ہوں وہ دل ہی دل میں آمین کہتے، مگر پھر بھی بہنوں کو گانے کے لئے فرماتے:

ایسی ہی ہیں تمہاری باجی! یقین نہیں آتا بھئی اتنی خوبیاں ہیں کہ ہم دونوں نے گنوائی ہیں اگر کسی انسان میں جمع ہو جائیں تو وہ زمین پر رہنا تو کبھی پسند نہ کرے ، بلکہ چاند پر جا کر رہے اور بھئی ہم اپنی پیاری بہنوں کو چھوڑ کر چاند پر کبھی رہنے نہیں جا سکتے۔‘‘’’ نہ کریں یقین جب دیکھیں گے تو خود ہی یقین آ جائے گا۔‘‘ ان کے اتنے خلوص سے کیے گئے قصیدے کو یوں رد کرتے ہوئے دیکھ کر دونوں کے منہ پھول جاتے۔

اور وہ فوراً ہتھیار ڈال دیتا، ان کی ناراضگی کسی طرح منظور نہیں تھی اسے۔ ’’ اچھا بھئی چلو مان لیتے ہیں، مگر یاد رکھنا جتنی تعریفیں کی ہیں ۔ اگر ایک بھی کم ہو تو سمجھ لو تم دونوں کو فوراً سے پیشتر ایک اور بھابی ڈھونڈنی پڑے گی۔‘‘

’’ہائے اﷲ خدا نہ کرے جو ایسا ہو۔‘‘ دونوں فوراً سیدھی ہو جاتیں۔ اتنی سی دھمکی کافی تھی، دیکھ لیجئے گا کچھ زیادہ ہی خوبیاں ہوں گی۔ ان میں ، ہم نے تو کم کر کے بتائی ہیں۔‘‘

’’اچھا!‘‘ وہ مسکراتا ہوا اخبار پر جھک جاتا۔

اب وہ انہیں یہ بات تو بتا نہیں سکتا تھا کہ اس ناز ٓافریں کی تحریر نے ہی اسے متاثر کیا تھا۔ تحریر جو شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔

تحریر جو گفتگو کا عکس ہوتی ہے جب اس کی تحریر پر نظر ڈالتا اندر سے یہی آواز آتی۔

جس کے قلم سے اتنے سحر طراز شستہ اور چونکا دینے والے متاثر کن جملے نکلتے ہیں جس کے لکھے ہوئے الفاظ میں ایک پکار، ایک دعوت ایک بلاوا ہوتا ہے خیر کی جانب، بھلائی کی جانبت، حقیقت کی جانب تو وہ خود کتنی سخن نواز ہو گی اتنے پاکیزہ خیالات رکھنے والی خود کس قدر حیا دار ہو گی اور ان تمام باتوں کی ناہید اور تمہید نے ہمیشہ کچھ بڑھ چڑھ کر ہی تصدیق کی تھی۔

اب بھلا کیا کام ہو گا آتے ہی جو بات سننے کو ملی وہ حیر ت انگیز بھی تھی اور تشویش ناک بھی ۔ بہرحال جو بھی ہو گا دیکھا جائے گا۔آخر اور لوگ بھی کام کے سلسلے میں فون کرتے ہی رہتے ہیں ایک فون یہ بھی سہی، مگر یہ جھوٹی تسلیاں ذرا کام نہ آئیں۔ اس فون اور دوسرے فون میں جو فرق تھا اس سے وہ اچھی طرح واقف تھی اسی لمحہ فون کی تیز اور بے رحمی سے بجتی گھنٹی نے خیالات کا سلسلہ منقطع کر دیا۔ اس نے آہستگی سے فون اٹھا لیا۔

السلام علیکم! عادت کے مطابق اس نے ہیلو کے بجائے وہی کہا ۔ وعلیکم السلام میں فخرِ عالم بول رہا ہوں۔ گھمبیر سی آوازنے اس کے چاروں طرف احاطہ کر لیا۔

’’جی مجھے معلوم ہے۔ آپ فرمائیے کیسے زحمت کی؟‘‘

وہی سرد سی بیگانہ آواز! دوسری جانب ایک لمحہ خاموشی طاری رہی شاید لہجہ ناگوار گزرا تھا۔

آپ کو معلوم ہے آپ کس سے مخاطب ہیں اس کے باوجود اتنی سرد مہری۔ آواز میں ایک دوسرے کے لئے گلہ تھا ۔ اب ہم ایک دوسرے کے لئے اتنے بھی اجنبی نہیں ہیں؟ وہ بھی کم نہیں تھا ۔

شکایت اپنی جگہ، مگر علم میں جو برتری آپ کو حاصل ہے اس کی بناء پر یہ اعتراض تجاہل عارفانہ معلوم ہوتا ہے۔ جواب چمک کر دیا گیا تھا۔

اوہ! سارے شکوے رخصت ہو گئے تو یہ بات ہے، مگر اس ہونے والے ’’محرم‘‘ کیلئے آپ کی گفتگو میں تھوڑی سی شیرینی یا حلاوتشامل نہیں ہو سکتی؟

شوخ لہجہ میں سوال کیا گیا۔

’’ضرور ہو سکتی ہے محرم زار ہونے کا وقت تو آنے دیجئے۔‘‘ اچھا آپ فون کرنے کا مقصد بتائیے؟

اوہ ہاں بات دراصل یہ ہے کہ پچھلے دو ہفتوں سے امی اور بہنیں کچھ ہنگامہ آرائی کرنے کے موڈ میں ہیں۔ میرا مطلب ہے آپ کی طرف عید کا جوڑا، سویاں اور بہت کچھ الم غلم لے جانا چاہتی ہیں اور میرے خیال میں یہ سب غیر ضروری ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

میں آپ کی بات سے مکمل اتفاق رکھتی ہوں۔ خصوصاً الم غلم سے مجھے بھی اختلاف ہے۔
’’ہم خیالی کا بے حد شکریہ! میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا صرف اتنا بتا دیں ناچیز کی جانب سے آیا ہوا عید کارڈ تو قبول ہو گا۔

جواب میں دوسری جانب ریسیور رکھ دیا گیا ۔ وہ مسکرا دیا۔

شکر الحمد ﷲ ہمارے خیالات کس قدر ملتے جلتے ہیں۔ ذہنی ہم آہنگی کتنی بڑی نعمت ہے اس کی غلامی آنکھوں کی پلکیں جھک گئیں۔ اپنے رب کے حضور شکرانے کے طور پر۔

جلدی جلدی کام نمٹا کر گھر پہنچی تو کمرے میں قدم رکھتے ہی میز پر رکھے ہوئے عید کارڈ نے متوجہ کر لیا۔

’’عید مبارک ہو اسے جس نے لہجے کی کھنک ، آنچل کی دھنک سانسوں کی مہک کو چھپا رکھا ہے صرف میرے لئے‘‘
فخر عالم
’’یہاں ایسا لگتا ہے کہ نام میں ’’ف‘‘ فالتو ہو گیا ہے‘‘ اس نے شوخی سے سوچا۔
Aasia Abdullah
About the Author: Aasia Abdullah Read More Articles by Aasia Abdullah: 23 Articles with 22272 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.