عصبیت کا زہر
(Faisal Shahzad, Karachi)
عصبیت شریعت کی نگاہ میں کتنی بری چیز ہے،
اس کا اندازہ قرآن وحدیث میں تدبر کرنے سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی
منشاء قوموں اور قبیلوں سے آپس کی پہچان ہے، لیکن ہم نے اسے بجائے تعارف کا
ذریعہ سمجھنے کے اس پر تفاضل اور تفاخر شروع کردیا۔سورۂ الحجرات میں ارشادِ
خداوندی ہے، فرمایا:
’’اے لوگو! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا
کیا ہے ، اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تا
کہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو۔‘‘ [۱۳]
حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: اس آیت
کریمہ نے مساوات کا یہ عظیم اصول بیان فرمایا ہے کہ کسی کی عزت اور شرافت
کا معیار اس کی قوم، اس کا قبیلہ یا وطن نہیں ہے بلکہ تقویٰ ہے۔ سب لوگ ایک
مرد و عورت یعنی حضرت آدم و حوا علیہما السلام سے پیدا ہوئے ہیں اور اﷲ
تعالیٰ نے مختلف قبیلے خاندان اس لیے نہیں بنائے کہ وہ ایک دوسرے پر اپنی
بڑائی جتائیں بلکہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ بے شمار انسانوں میں باہمی
پہچان کے لیے کچھ تقسیم ہو جائے۔
یہی معاملہ زبان کا ہے…… آج ملک عزیز میں سب سے بڑا جھگڑا زبان کی بنیاد پر
ہے۔ اسی بنیاد پر صوبے بنے ہوئے ہیں اور اسی بنیاد پر نئے صوبوں کی قرارداد
پیش کی جا رہی ہے……یہ نفرت کی سیاست ہے، زبان کا اختلاف تو اﷲ تعالیٰ کی
نشانی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور اس کی نشانیوں کا ایک حصہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری
زبانوں اور رنگوں کا اختلاف بھی ہے۔ یقینا اس میں دانش مندوں کے لیے بڑی
نشانیاں ہیں۔‘‘ [روم،22]
اب کوئی اس نشانی کو حقیر سمجھے تو کتنی گستاخی کی بات ہے۔مگرہم دیکھتے ہیں
کہ آج پنجابی بولنے والے سرائیکی زبان میں عیب نکالتے ہیں، اردو بولنے والے
پشتو اور بنگالی بھائیوں کی نقل اتارتے ہیں، یہ سخت گناہ کی بات ہے۔چنانچہ
حضرت حکیم اختر مدظلہ حضرت تھانوی رحمہ اﷲ کا واقعہ اس ضمن میں نقل فرماتے
ہیں۔ فرمایا کہ ایک بارحضرت حکیم الامت نے ایک شخص کا خط پڑھا جو بنگال سے
آیا تھاجس میں لکھا تھا کہ ہم بہت ہانستا ہے، اس کا علاج بتائیے۔ حضرت کی
مجلس میں ایک صاحب نے کہا کہ یہ بنگالی معلوم ہوتاہے۔ حضرت نے فرمایا کہ
تمہارے اس جملے سے حقارت کی بو آرہی ہے کہ تم نے اہلِ بنگال اور ان کی زبان
کو حقیر سمجھا،تم جا کر دوبارہ کلمہ پڑھو اور دو رکعات نمازِ توبہ
پڑھو،لہٰذا کسی زبان ، رنگ یا قبیلے کی بنیاد پر کسی کو حقیر جاننا اور
عصبیت کا نعرہ لگانے میں سوءِ خاتمہ کا اندیشہ ہے۔حدیث میں آتا ہے کہ جو
شخص عصبیت پر کسی کو بلائے یا عصبیت پر لڑے اور جو عصبیت پر مرے وہ ہم میں
سے نہیں ہے۔
کتنی سخت وعید ہے۔یعنی ایک چیز کو لوگ سمجھتے ہیں کہ غلط ہے مگر کبھی پارٹی
کا سوال، کبھی خاندان برادری کی طرف داری ، وہ امت مسلمہ سے نکل جانا گوارا
کر لیتے ہیں لیکن خاندان برادری کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔ سندھی زبان کا ایک
محاورہ’’سچ کو سچ مانیں گے لیکن لڑیں گے بھائی (یہاں بھائی سے مراد قبیلہ
یا قوم ہے)کے لیے‘‘ ہمارے معاشرے میں عصبیت و لسانیت کے گہرے اثرات کو ظاہر
کرتا ہے۔
مسلمانوں کے سیاسی زوال کے کئی اسباب کتابوں میں بتائے گئے ہیں لیکن یہ
تعصب ہی ہے جس نے اس زوال میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔تعصب کی نحوست کی
وجہ سے امت باقی نہ رہی، بلکہ قومیت، لسانیت اور علاقائیت کی بنا پر
جماعتیں اور چھوٹے چھوٹے گروہ وجود میں آگئے۔ سامراجی طاقتوں نے مسلمانوں
کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا، اس بندر بانٹ میں اگر کسی کے حصے میں چھوٹا سا
شہر آگیا تو اس نے اسی کو غنیمت جانا اور وہ وہاں کا راجا بن کر بیٹھ گیا،
تقسیم درتقسیم کے عمل نے جسدِ ملی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔ اب ظاہر ہے جان تو
جسم میں ہوتی ہے ٹکڑوں میں تو نہیں ہوتی، ان بے جاں ٹکڑوں کے ساتھ دنیا بھر
کے کفار بڑے مکروہ انداز میں کھیل رہے ہیں۔ آج یہی عصبیت و لسانیت کا ناگ
وطن عزیز میں زہر اگل رہا ہے۔اﷲ اس زہر سے ساری امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے
اوردنیا بھر کے مسلمانوں کو پھر سے امت بننا نصیب ہوجائے۔ |
|