سید ابتسام اشرف۔ یونیورسٹی آف انجنئیرنگ
اینڈ ٹیکنالوجی لاہور
عزیزدوستو!یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ ایک طالب علم کے تعلیمی دورمیں اچھے
اوربہترین تعلیمی ادارے کاانتخاب نہایت اہمیت کاحامل ہے۔عام
طورپردیکھاگیاہے کہ طالب علم میٹرک کے بعد تعلیمی ادارے کاانتخاب کرنے میں
مشکل محسوس کرتے ہیں۔اسی مشکل کاسامنا راقم کو بھی کرناپڑاجب 2013ء میں
میٹرک کاامتحان پاس کیا توگھرمیں ہماری پڑھائی کے بارے میں جنگ عظیم سوم
شروع ہوگئی کہ سال اوّل میں کہاں داخلہ لیاجائے ۔اﷲ اﷲ کرکے بیل تب منڈھے
چڑھی جب ہم نے ازخود ایکشن لیتے ہوئے گورنمنٹ کالج جہانیاں کاانتخاب
کیا۔اہل علم ودانش کے نزدیک تعلیم کے لیے بنیادی سہولیات فراہم کرنا ریاست
کے اولین فرائض میں سے ہے۔اسی لیے سرکاری سطح پر سکولوں وکالجوں اور جامعات
کا جال بچھایاجاتاہے تاکہ نونہالان چمن کی آبیاری ہوسکے۔ مگر گزشتہ چند برس
سے یہ موضوع سنجیدہ حلقوں میں زیربحث ہے کہ تعلیمی معیار بہتربنانے میں
سرکاری تعلیمی اداروں کی نسبت نجی تعلیمی ادارے زیادہ فعال کردار ادا کر
رہے ہیں۔
پاکستان میں بدقسمتی سے کیرئیرکونسلنگ کاشدید فقدان ہے۔ جس کانقصان براہِ
راست طلباکو ہو تا ہے کیونکہ میٹرک کے بعدان کے سامنے کوئی واضح راہ متعین
نہیں ہوتی کہ تعلیمی ادارے کاانتخاب کیسے کیاجائے؟ مضامین کون سے اختیار
کیے جائیں اور بہتر مستقبل کا تعین کیسے کیاجائے……؟راقم الحروف ایف ایس سی
(پری انجینئرنگ) اور انٹری ٹیسٹ کی بھول بھلیوں سے گزر کر انجینئرنگ
یونیورسٹی لاہور میں سال آ پہنچا ہے۔ تو علاقے کے طالب علم مشورے کے لیے
آتے رہتے ہیں ۔اس کے علاوہ مختلف سکولوں اور اکیڈمیوں میں کیریئر کونسلنگ
پر لیکچر بھی دئیے ہیں تو اس بات کاشدت سے احساس ہواکہ آج کل کے طلبا صرف
بس نمبروں کی ریس میں لگے ہوئے ہیں۔
اس بے حکمتی کاسب سے بڑانقصان طلبا خود ہی اٹھاتے ہیں کیونکہ جب ہروقت وہ
کتابی کیڑا بنے رہیں گے،کتابیں گھول گھول کر پیئیں گے تووہ صرف اچھے نمبر
ہی لے سکتے ہیں۔یہ کبھی نہیں سمجھ سکیں گے کہ ہم نے یہ مضمون کیوں پڑھا؟ اس
کاعام زندگی میں کہاں استعمال ہے۔
یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم یہ بات بھی محسوس کی گئی ہے کہ ایف ایس سی
اوریونیورسٹی کے اساتذہ کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونے کے برابرہے۔ ایف ایس سی
کے اساتذہ یہ نہیں جانتے کہ یونیورسٹی کانصاب کیاہے؟ جبکہ یونیورسٹی کے
پروفیسرز یہ نہیں جانتے کہ ایف ایس سی میں طلبا کیاپڑھ کر آئے ہیں۔
اس کانقصان یہ ہوتاہے کہ طلباکچھ اسباق اور کچھ چیزیں جو ایف ایس سی میں
غیرضروری سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں، وہی چیزیں خاص طورپرمیڈیکل اورانجینئرنگ
کی تعلیم میں پہلے سال ہی استقبال کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ میٹرک کے بعد یہ فیصلہ طلبا کے لیے مشکل ہوتاہے کہ مضامین کو ن
سے اختیار کیے جائیں۔ اس کے لیے طلبا کو چاہیے کہ اپنے ذہنی رجحانات
کاجائزہ خود لیں۔وہ یہ مشاہدہ کریں کہ کون سا کام انہیں خوشی دیتاہے، کو ن
سامضمون پڑھتے ہوئے انہیں وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا،انہیں ریاضی میں
دلچسپی ہے یابائیولوجی میں،کیمیا میں وہ اچھے ہیں یاکمپیوٹر میں،سائنس میں
انہیں آگے جانے کاشوق ہے یاآرٹس مضامین کی طرف رجحان ہے،تووہ باآسانی اپنے
مستقبل کا تعین کر سکتے ہیں۔
ایف ایس سی میں پری میڈیکل(فزکس ،کیمسٹری اور بیالوجی)جبکہ پری انجینئرنگ
گروپ فزکس،کیمیااور ریاضی۔
اس کے علاوہ سائنس گروپ میں شماریات ، معاشیات اور ریاضی کابھی کمبی نیشن
ہوتاہے۔
ہمارے معاشرے کاالمیہ یہ ہے کہ طلبانے یا تو ڈاکٹر بنناہوتاہے یاپھر
انجینئر۔تیسرا کام نہ توانہیں بتایا جاتا اور نہ ہی وہ جانناچاہتے ہیں جبکہ
دیگر ممالک میں ایسا بالکل نہیں ہے۔ آپ اگر ڈاکٹرنہیں بن سکے،یاانجینئر
نہیں بن سکے توآپ پرخدانخواستہ گناہوں کا بوجھ نہیں بڑھ جائے گا۔
آپ کو یہ سوچناچاہیے ،سمجھنا چاہیے کہ ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے علاوہ بھی
کئی شعبے ایسے ہیں جن میں طلبا جاکر اپنی صلاحیتوں کے مطابق بہترکارگردگی
دکھا سکتے ہیں۔
میٹرک کے بعداگرکوئی طالب علم آرٹس گروپ میں جاناچاہے،جنرل سائنس میں
جاناچاہے توسرکاری کالجوں میں ان کے لیے بھی خاطرخواہ انتظامات ہوتے ہیں
مگر افسوس اس بات کاہے کہ طلبا ایف اے کرنا ،اپنی توہین گردانتے ہیں
حالانکہ انہیں یہ باور ہوناچاہیے کہ دنیا میں بے شمار کامیاب لوگ ایسے ہیں
جنھوں نے ڈاکٹری نہیں پڑھی،انجینئرنگ کی تعلیم نہیں حاصل کی مگر پھر بھی وہ
اپنے شعبے کے ماہر ہیں اور ان کی کامیابیوں کی کہانیاں زبان زدِ عام ہیں۔
طلبا کا مضامین کے انتخاب کے بعد بڑامسئلہ اچھے کالج کا چناؤ ہوتا ہے۔
سرکاری کالجز اور نجی ادارے اپنی اپنی جگہ پرخدمات سرانجام دے رہے ہیں مگر
یہ بات باعث افسوس ہے کہ نجی ادارے ہونہارطلبا کو راغب کرنے کے لیے
جائزوناجائز ذرائع کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ یہ نہایت غلط طرزِعمل ہے۔
کیونکہ ایک اچھے ادارے کا انتخاب طالب علم کو خودکرناہوتاہے اس کو مجبور نہ
کیا جائے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض نجی کالجز میں پڑھائی کا معیار تسلی بخش ہوتا ہے،
ٹیسٹنگ کا نظام اچھا ہوتا ہے، امتحانات کی تیاری اچھی کروائی جاتی ہے۔لیکن
دوسری طرف ان کالجز کی فیسیں بھی ا نتہائی ہوتی ہیں۔اس لیے صرف چند والدین
ہی ایسے ہیں جو اتنی مہنگی تعلیم برداشت کر سکتے ہیں۔
دوسری طرف گوکہ سرکاری کالجز میں طلبا کو بہت سی شکایات ہوتی ہیں،ٹیسٹنگ
کانظام اتنااچھا نہیں ہوتا مگر آج کل دن بدن حکومت پنجاب کے خصوصی احکامات
پر پنجاب کے کالجز میں پڑھائی کاسلسلہ تسلی بخش ہے۔ امتحانات کاسلسلہ بھی
بہتر ہورہاہے۔
جبکہ سرکاری اداروں کی فیسیں بھی تمام والدین باآسانی ادا کرسکتے ہیں۔اس کے
علاوہ ہم نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کی طرف بھی دھیان دیاجاتاہے جبکہ یہ
سرگرمیاں نجی اداروں میں نہ ہونے کے برابرہیں۔
توہم اس تقابلی جائزے کے بعدیہ کہہ سکتے ہیں کہ سرکاری اور نجی کالجز میں
سے اچھا اور برا کوئی بھی نہیں بلکہ معاملہ بین بین ہے۔ کچھ سہولیات نجی
کالجز میں میسر ہیں جبکہ طلبا کی ذہنی نشوونما کے ایسے سرکاری کالجز بھی
ہیں جہاں باقاعدگی سے طلباکے درمیان مسابقت کاصحت مند جذبہ پروان
چڑھایاجارہاہے۔
اب یہ طلبا پرمنحصرہے کہ وہ اپنے مزاج کے قریب کن اداروں کوگردانتے
ہیں۔طلبا کو چاہیے کہ سنی سنائی باتوں پر دھیان دینے کے بجائے اپنی قوت
مشاہدہ استعمال کریں اور اچھے ،برے کافیصلہ خود کریں کیونکہ یہ بات حقیقت
ہے کہ جس شخص میں قوت فیصلہ کافقدان ہو،وہ شخص ہمیشہ دوسروں کامحتاج رہتاہے
اقبال نے توہمیں اپنے زورِ بازو سے اپنی منزل ، اپنا راستہ خود متعین کرنے
پرزور دیاہے۔
اپنی منزل آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی
کالج اور اکیڈمی کا تصادم :
عمومی طور پریہ دیکھاگیا ہے کہ میٹرک کے بعد کسی کالج میں داخلہ لینے کے
ساتھ طلبا کوئی نہ کوئی اکیڈمی جوائن کرتے ہیں۔نجی کالجوں میں داخلے والے
طلباایک طر ف کالج کی بھاری فیس ادا کرتے ہیں تو دوسری طرف اکیڈمی میں بھی
انہیں فیس بھرنا پڑتی ہیں۔یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اکیدمی جوائن کر انا ایک
فیشن بن چکا ہے اس کانقصان یہ ہوتا ہے کہ طلبا اکیڈمی اور کالج دونوں میں
بہت سا وقت ضائع کرتے ہیں اور سیلف سٹڈی کے کے لئے وقت کم ملتا ہے،یا پھر
وہ کالج میں کلاسیں لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر ایسا ہی کرنا ہے تو نجی کالج
کی بھاری فیس ادا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔اس صورتحال میں ہمارا مشورہ یہ ہے
کہ طلبا اچھے کالج کو جوائن کرنے کے بعداکیڈمی چھوڑ دیں یا اگر اکیڈمی
ضروری ہی پڑھنا ہے تو کسی سرکاری کالج میں داخلہ لیں۔ہاں البتہ امتحانات سے
قبل کسی اکیڈمی میں ’’ٹیسٹ سیشن‘‘ضرور دی اس سے ان کی تیاری بہتر ہوجائے گی۔
حرف آخر:
طلبا مشکلات کامقابلہ کریں اور اچھے تعلیمی ادارے کاانتخاب کریں اور ہمیشہ
ہمت سے کام لیں ،ناکامیوں سے مت گھبرائیں بلکہ انہیں کامیابی کی پہلی سیڑھی
سمجھیں۔ اپنی زندگی کو بامقصد بنائیں اور فارغ وقت کابہترین مصرف ڈھونڈیں،
اپنی غلطیوں پرنظررکھیں اور خود احتسابی کاجذبہ اپنے اندرپیداکریں۔
جوانوں کو میری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا! آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے |