حکومت کے تعلیمی اہداف؟
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
پنجاب میں تعلیم کا معیار بلند ہونے جارہا
ہے، شرح خواندگی بھی اگلے دو برس (2018)تک سو فیصد کی بلند ترین سطح کو
چھونے لگے گی، تینتالیس ہزار کے قریب نئے اساتذہ بھرتی کئے جائیں گے، زیادہ
تعداد والے سکولوں میں ڈبل شفٹ لگائی جائے گی، ’ارلی چائلڈ ہُڈ ایجوکیشن
پروگرام ‘کا دائرہ کار مزید بڑھایا جائے گا، 36ہزار اضافی کلاس رومز تعمیر
کئے جائیں گے، پانچ ہزار سکولوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا،
اپریل 17تک کم کارکردگی دکھانے والے سکول پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت
چلے جائیں گے۔اس سلسلہ میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ایک اجلاس
کی صدارت کی ، مندرجہ بالا فیصلے ہوئے اور احکامات جاری کئے گئے۔ خبر میں
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ برطانیہ کے بین الاقوامی ترقی کے ادارے (DFID)کے
خصوصی نمائندے سر مائیکل باربر اور سکول روڈ میپ ٹیم کے دیگر ارکان نے صوبے
میں معیاری تعلیم کے فروغ کے لئے موثر اقدامات پر وزیراعلیٰ کو خراجِ تحسین
پیش کرتے ہوئے ان کو اور ان کی ٹیم کی کاوشوں کو قابلِ ستائش قرار دیا ہے۔
پنجاب میں گزشتہ تیس برس میں سے تقریباً بیس سال میاں برادران کی حکومت رہی
ہے، جبکہ آٹھ سال سے صوبے کی حکومتی باگ ڈور انہی کے ہاتھ میں ہے۔ جہاں تک
تعلیم کی ترقی اور معیار کی بات ہے، تو یہاں کچھوے کی چال صادق آتی ہے۔
صوبہ بھر میں ایسے پرائمری سکولوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے ،جن
میں کلاس رومز پورے ہیں، واش رومز موجود ہیں ، وہ بجلی، فرنیچر سمیت دیگر
سہولتوں سے بھی آراستہ ہیں، ورنہ عالم یہی ہے کہ ابھی تک اکثر سکولوں میں
دو کمرے، کسی حد تک چاردیواری اور دو یا تین اساتذہ موجود ہیں۔ اساتذہ کی
حاضری کے لئے کچھ سالوں سے بہت سختی دیکھنے میں آرہی ہے، مگر معاملہ حکومت
کی مکمل گرفت میں نہیں ہے۔ شرح خواندگی میں اضافہ کی خواہش اور کوشش کے
باوجود یہ کام نہیں ہو سکا۔ اب یہی سکول پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے حوالے
کئے جارہے ہیں، کیونکہ فاؤنڈیشن نے گزشتہ دس برس میں اپنی اصول پسندی اور
محنت کی بنا پر اپنے وجود کا لوہا منوایا ہے۔ وزیراعلیٰ نے پبلک پرائیویٹ
پارٹنر شپ کے تحت جن سکولوں کی بات کی ہے وہ یہی فاؤنڈیشن کے حوالے کئے
جانے والے سکول ہی ہیں، ابھی چند ماہ قبل تعلیمی سال کے آغاز میں ایک ہزار
سکول اسی مد میں فاؤنڈیشن کے حوالے کیا گیا تھا، صرف تین ماہ کی قلیل مدت
میں ان سکولوں میں بچوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اسی
کامیابی کو دیکھتے ہوئے حکومت مزید ڈھائی ہزار سکول فاؤنڈیشن کو دے رہی ہے،
مزید بھی امکانات ہیں۔ حکومت کی اس پالیسی کے خلاف اگرچہ اساتذہ کی یونینز
نے احتجاج بھی کیا ہے، مگر ان کی کارکردگی چونکہ بہت ناقص رہی ہے، اس لئے
ان کی مزاحمتی تحریک کے کامیاب ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ایک طرف حکومت سکولوں کو فاؤنڈیشن کے حوالے کر کے اپنا بوجھ ہلکا کر رہی ہے،
دوسری طرف ہزاروں اساتذہ کی بھرتیاں کی جارہی ہیں۔ حکومت کے اس قدم سے
سکولوں میں اساتذہ کی کمی کا الزام یا اعتراض تو ختم ہو جائے گا، مگر پرانے
اور نئے اساتذہ کو یکسوئی کے ساتھ بچوں کو پڑھانے کا موقع بھی دیا جائے،
انہیں دیگر بیگار سے معاف رکھا جائے، ان کے اعتراضات کو سنا جائے۔ دوسری
طرف اربوں روپے کی لاگت سے اگلے برسوں میں سکولوں میں تعمیر ہونے والے کمرے
ضرورت سے پھر بھی کم ہیں، حیرت ہے کہ ان کو ’’اضافی کمرے‘‘ لکھا جارہا ہے۔
حکومت کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ان کے سکول ’’خراب کارکردگی‘‘ کے مرتکب
کیوں ہورہے ہیں، نئی بھرتیاں، فاؤنڈیشن کو جانے والے سکولوں سے فارغ ہونے
والے سرکاری اساتذہ دیگر سرکاری سکولوں کو کیسے کامیاب بنائیں گے۔ اب بات
چھتیس ہزار کمروں کی نہیں، حکومت کا فرض ہے کہ وہ تمام سکولوں کو پورے کلاس
رومز دے اور وہاں سٹاف بھی مکمل ہونا چاہیے۔ اگر حکومت تعلیم کے لئے بڑا
بجٹ مختص کرکے کمروں وغیرہ کی تعمیر کو سکول کمیٹیوں کے سپرد کردے تو بہت
سی بچت ہوسکتی ہے۔ بہت ہی کم بجٹ کے ساتھ یہ دعوے کسی صورت قابلِ عمل
دکھائی نہیں دیتے ، اسی بجٹ کے ساتھ اگلے دو برس میں تعلیمی میدان میں کسی
انقلاب کی نوید نہیں دی جاسکتی۔ ہاں اگر میاں صاحب تعلیم کو بھی کوئی میگا
پراجیکٹ تصور کرلیں تو دو سالوں میں بڑے معرکے سر کئے جاسکتے ہیں۔ ورنہ
قسطوں میں تمام سرکاری سکول پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے حوالے کرنے سے بھی
بہتری کے امکانات ہو سکتے ہیں۔
|
|