آزاد کشمیر الیکشن:وفاق کی حکمران جماعت آزاد کشمیر میں بھی حکمران
(عابد محمود عزام, Karachi)
آزاد کشمیر میں ہونے والے الیکشن میں حسب
روایت حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے میدان مار لیا ہے۔ غیر حتمی اور غیر
سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) 33 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے۔ مسلم
کانفرنس 3 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی
2، 2 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر، جبکہ جموں کشمیر پیپلز پارٹی ایک نشست
حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکی۔ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے لیے پاکستان
پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے 41، حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے 38، پاکستان
تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 28 اور مسلم کانفرنس کے 8 امیدوار میدان میں
تھے، جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف)، مجلس وحدت المسلمین اور جماعت اسلامی نے
بھی اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے۔ آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی 49 میں
سے 41 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں اراکین کے چناؤ کے لیے پولنگ صبح 8
بجے شروع ہوئی، جو بغیر کسی وقفے کے شام 5 بجے تک جاری رہی۔ انتظامیہ کی
جانب سے انتخابات کے لیے 5429 پولنگ اسٹیشنز اور 8048 پولنگ بوتھ قائم کیے
گئے، جبکہ الیکشن کمیشن کا مرکزی کنٹرول روم مظفر آباد میں قائم کیا گیا۔
انتخابات کے لیے 37 ہزار500 سیکورٹی اہلکار تعینات کیے گئے، ہر پولنگ
اسٹیشن کے اندر ایک فوجی اہلکار بھی تعینات تھا، جسے مجسٹریٹ کے اختیارات
دیے گئے۔ حساس پولنگ اسٹیشنز پر 6 پولنگ سیکورٹی اہلکار جب کہ نارمل پولنگ
اسٹیشنز پر 4 اہلکاروں کو تعینات کیا گیا، جن میں پاک فوج کا ایک جوان بھی
شامل تھا۔ آزاد کشمیر میں کئی پولنگ اسٹیشنز پر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں
میں ہاتھا پائی ہوئی جب کہ حویلی میں پولنگ اسٹیشن کے باہر ہوائی فائرنگ
کرنے والے شخص کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ اس سے قبل انتخابی مہم کے دوران
پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور مسلم کانفرنس نے جلسوں کے ذریعے اپنی سیاسی
طاقت کامظاہرہ کیا، جبکہ مسلم لیگ (ن) نے بھی آزاد کشمیر کا میدان کھلا نہ
چھوڑا۔
واضح رہے کہ آزاد کشمیر کی اسمبلی 49 اراکین پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان نشستوں
کی تقسیم کچھ یوں ہے کہ پہلی 29 نشستوں پر آزاد کشمیر کے 26 لاکھ 74 ہزار
584 ووٹرز اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں، جب کہ 12 نشستوں پر پاکستان میں
موجود 4 لاکھ 38 ہزار 884 کشمیری مہاجرین حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ 8
نمائندے مخصوص نشستوں سے آتے ہیں، جن میں 5 خواتین، ایک عالم دین، ایک
اوورسیز پاکستانی اور ایک ٹیکنوکریٹ کی نشست ہوتی ہے۔ وزیراعظم اس پارٹی یا
اتحاد کا بنتا ہے، جس کے پاس سادہ اکثریت یعنی کم از کم 25 سیٹیں ہوتی ہیں
اور مسلم لیگ ن نے 33 نشستوں پر میدان مار لیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اب
آزاد کشمیر میں حکومت مسلم لیگ ن کی ہوگی۔وزیر اعظم نے ن لیگ کی فتح پر
خوشی کا اظہار کرتے ہوئے نومنتخب نمائندوں کو مبارکباد پیش کی ہے۔ وزیراعظم
نواز شریف نے ایک پیغام میں کہا ہے کہ آزاد کشمیر میں پرامن انتخابات کا
انعقاد جمہوریت کی فتح ہے۔ نومنتخب نمائندے آزاد کشمیر کے عوام کی بہبود کے
لیے کام کریں۔ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے وفاق نئی آزاد کشمیر حکومت سے
ہر ممکن تعاون کرے گا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مختلف سیاسی نظریات کے
باوجود پوری پاکستانی قوم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کرتی ہے۔ امید
ہے نومنتخب نمائندے آزادی کی جدوجہد میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کی حمایت
جاری رکھیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی کشمیر کے انتخابات جیتنے
پر مسلم لیگ نون کو مبارک باد دی ہے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے آزاد
کشمیر کے انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) پر دھاندلی کا الزام
عائد کردیا۔ ترجمان پیپلز پارٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ
آزاد کشمیر کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے سائنٹفک طریقے سے پری پول
دھاندلی کی، ہم ان انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کرتے اور پیپلز پارٹی کے
تمام امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں احتجاجی پریس کانفرنس کریں گے۔تحریک
انصاف کے رہنماء بیرسٹر سلطان محمود نے آزاد کشمیر الیکشن میں وفاقی حکومت
پر پری پول رگنگ کا الزام لگایا ہے۔ بیرسٹر سلطان محمود کا کہنا تھا کہ
الیکشن سے پہلے مختلف اسکیموں کے لیے دو ارب روپے دیے گئے اور ووٹ خریدنے
کے لیے ہر امیدوار کو پانچ پانچ کروڑ روپے دیے گئے۔ آزاد کشمیر انتخابات
میں مسلم لیگ (ن) کی فتح پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اطلاعات پرویز
رشید کا کہنا تھا کہ پرامن انتخابات کا انعقاد جمہوریت کی فتح ہے۔ شفاف
انتخابات کے انعقاد پر نومنتخب اراکین، ادارے اور کشمیری عوام مبارکباد کے
مستحق ہیں۔ پرویزرشید کا کہنا تھا کہ کشمیری عوام نے ثابت کیا کہ وہ
وزیراعظم نواز شریف کے ترقی اور خوشحالی کے ویژن پر اعتماد رکھتے ہیں۔ مسلم
لیگ ن پر بلا جواز تنقید کرنے والوں کو عوام نے ووٹ کی طاقت سے جواب دیا
ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کشمیریوں کے دکھوں کا مداوا کریں
گے۔ پاکستان کی طرح اب ترقی و خوشحالی کا ایجنڈا کشمیر میں بھی آگے بڑھے
گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب بھارت مقبوضہ کشمیر میں معصوم
کشمیریوں کے خون کی ہولی کھیل رہا ہے، آزاد کشمیر میں مجموعی طور پر پرامن
الیکشن ایک خوش آئند بات ہے، یقینا اس کا مثبت اثرپڑے گا اور دنیا بھر میں
مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے عوام کے بارے میں تقابل کر کے پاکستان کے
حق میں اچھی رائے قائم کی جائے گی۔ مبصرین نے کہا ہے کہ یہ بات تو پہلے ہی
واضح تھی کہ آزاد کشمیر میں فتح حکمران جماعت کی ہوگی کیونکہ یہ روایت پہلے
سے چلتی آرہی ہے، لیکن حکمران جماعت کی فتح میں کسی حد تک اپوزیشن کی
نااہلی بھی ہے، جو پاناما لیکس کے ایشو کو حکومت کے خلاف ٹھیک سے استعمال
نہ کرسکے۔ پاکستان میں ایسی منفرد جمہوریت ہے، جس میں جو سیاسی جماعت ایک
بار عام انتخابات میں اکثریت حاصل کر لے، وہ جماعت اگلے عام انتخابات تک
ہونے والے ہر قسم کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔
چاہے وہ مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوں، گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی
کے ہوں، یا پھر کنٹونمنٹ بورڈز میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات۔ حتٰی کہ
آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں بھی وہی جماعت اکثریت حاصل کرتی ہے جس کی
حکومت اسلام آباد میں ہوتی ہے، جس کے بعد مذکورہ اکثریتی جماعت دعویٰ کرتی
ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت اور تنقید کے باوجود عوام حکومتی پالیسیوں
سے خوش ہیں، جس کا ثبوت انتخابات میں حکومتی جماعت کو ملنے والی اکثریت ہے۔
تاہم آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات میں حکومت وہی
سیاسی جماعت بناتی ہے، جس کی حکومت وفاق میں ہوتی ہے، جیسا کہ 2015ء میں
ہونے والے گلگت بلتستان کے انتخابات میں وفاق میں حکومت کرنے والی پاکستان
مسلم لیگ ن نے 24 جنرل نشستوں میں سے 15 حاصل کرکے حکومت بنائی۔ اس کے
علاوہ 2011 میں ہونے والے آزاد کشمیر انتخابات میں وفاقی حکومت پاکستان
پیپلز پارٹی کی ہونے کی وجہ سے مظفر آباد میں بھی حکومت پیپلز پارٹی نے
بنائی۔ اب جب آزاد کشمیر میں دوبارہ سے انتخابات ہوئے تو حسب سابق پاکستان
مسلم لیگ ن اکثریت حاصل کرکے حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ ملک کے دیگر
حصوں میں تو ان کامیابیوں کی وجہ کوئی بھی ہو، مگر آزاد کشمیر کا معاملہ
تھوڑا مختلف ہے۔ یہاں کے ووٹرز اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ چونکہ
آزاد کشمیر حکومت، وفاقی پالیسیوں کے تحت چلتی ہے، لہٰذا وہ اپنے ووٹ کا
صحیح حقدار وفاق میں حکومت کرنے والی جماعت کو سمجھتے ہیں، جو ان کے خیال
میں ان کے مسائل حل کرنے کے لیے پوری طرح بااختیار ہے۔ مگر سوچنے کی بات یہ
ہے کہ پچھلے تین سالوں میں اسلام آباد میں موجود وفاقی حکومت نے ملک کے
دیگر حصوں، مسئلہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں عوامی مسائل کے حل کے لیے کس
بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جو اب کی بار یہاں پر کر دکھائے گی؟ مسلم
لیگ ن کا آزاد کشمیر میں اکثریت حاصل کرنا یقیناً اپوزیشن جماعتوں کی بھی
نالائقی ہے، جو کہ پاناما لیکس کو بھی نواز حکومت کے خلاف استعمال نا کر
سکیں، بلکہ حکومت کے ساتھ پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے ٹی او آرز پر وقت
برباد کرتی رہیں اور نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاناما
لیکس کے معاملے کو بنیاد بناتے ہوئے آزاد کشمیر کے انتخابی معرکے میں حکومت
کو شدید زک پہنچائی جاتی جس سے حکمران جماعت کو بھی اندازہ ہوجاتا کہ اس
معاملے کے کتنے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ مگر آزاد کشمیر انتخابات کے حوالے
سے اپوزیشن کا بھی عجیب رویہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جب انتخابات میں صرف چند
دن باقی رہ گئے تو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی قیادت انتخابی مہم چلانے
آزاد کشمیر جا پہنچیں اور اتنی تاخیر سے انتخابی مہم شروع کرنے کے باوجود
اپوزیشن جماعتوں کے رہنما اپنی جماعتوں کا منشور پیش ہی نہیں کر پائے، بلکہ
حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی خرابیاں اور کوتاہیاں بیان کرتے رہے، جو کہ یہ
ثابت کرتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس حکومت کی غلطیوں کو اپنے حق میں
کیش کروانے کے علاوہ کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ
’’متحدہ‘‘ اپوزیشن کے اختلافات بھی آزاد کشمیر کے انتخابات سے قبل کھل کر
عیاں ہو گئے۔ ایک طرف تو عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری حکومت کے خلاف
اکٹھے کنٹینر پر اکھٹے کھڑا ہونا چاہتے تھے تو دوسری طرف آزاد کشمیر میں
پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ایک دوسرے کے خلاف انتخابی مہم چلا تے رہے۔
یہاں تک کہ تحریک انصاف کی طرف سے نامزد وزیرِ اعظم بیرسٹر سلطان محمود
چوہدری پیپلز پارٹی کی طرف سے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں۔ کیا
یہ بہتر نہیں ہوتا کہ تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی کنٹینر پر ساتھ کھڑی
ہوتیں یا نہ ہوتیں، انتخابی معرکے میں ہی ساتھ کھڑی ہوجاتیں تاکہ اپنے
مشترکہ حریف کو نقصان پہنچایا جا سکے؟ لیکن لگتا ہے کہ ابھی ہماری جمہوریت
اور سیاسی جماعتیں ابھی اسی مقام پر ہیں کہ جہاں اپنے حریف کو ہٹانے کے لیے
تو سب ساتھ ہیں، مگر جیسے ہی اسے ہٹایا جائے گا، تو سارے ہی اقتدار کی
دھینگا مشتی میں مصروف ہوجائیں گے۔ کشمیر انتخابات میں مسلم لیگ ن کی
کامیابی کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے لیکن بلاشبہ اس میں مسلم لیگ ن سے
زیادہ کردار اپوزیشن جماعتوں کا ہے۔بہرحال وفاق میں حکمران جماعت مسلم لیگ
ن اب آزاد کشمیر میں بھی حکمران ہوگی، اب اس پر ضروری ہے کہ آزاد کشمیر میں
ترقیاتی کام اور عوام کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر کے اپنا فرض ادا کرے تاکہ
دنیا میں آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر اور ان دونوں کے عوام کی زندگیوں میں
فرق واضح سکے۔ |
|