نماز میں صف بندی کی فضیلت
(Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi, Narowal)
عن انس رضی اللّٰہ عنہ عن النبی ﷺ قال سوو
صفو فکم فان تسویۃ الصفوف من اقامۃ الصلوٰۃ(بخاری جلد اول صفحہ 92،مسلم جلد
اول صفحہ181)
حل لغات:سووا۔ سیدھی کرو تم ،صفوف :جمع ہے صف کی ، (یعنی اپنی صفوں کو)
ترجمہ :’’حضرت انس رضی اﷲ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کی کہ آپ (ﷺ) نے
فرمایا :تم اپنی صفیں سیدھا رکھو کیونکہ صفوں کو سیدھی رکھنا نماز کو قائم
کرنے سے ہے ۔‘‘
تشریح:اس حدیث میں نماز میں صفوں کے درست اور سیدھی رکھنے کا حکم فرمایا ہے
۔تسویۃ الصفوف کا معنی یہ ہے کہ :نماز میں ایک سمت پر برابر کھڑا ہونا ،کوئی
بھی آگے پیچھے نہ ہو اور درمیان میں خالی جگہ نہ چھوڑنا بھی تسویۃ الصفوف
سے ہے ۔بعض روایات میں اقیمو اصفوفکہ ہے ۔اس کا معنیٰ بھی یہی ہے ،یعنی
صفوں کو سیدھی رکھنا۔ اس حدیث کے ماقبل امام بخاری نے سیدنا ابو ہریرہ رضی
اﷲ عنہ سے روایت کی ،اس میں ہے کہ اقامت صف ،یعنی نماز میں صف سیدھی رکھنا
نماز کا حُسن ہے ۔بعض روایات میں من تمام الصلوٰۃ ہے ،یعنی نماز کے پورا
ہونے سے ہے اور یہ روایت مختلف الفاظ ، مختلف اسناد سے مروی ہے ۔سیدنا انس
رضی اﷲ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ سید دو عالم ﷺنے اقامت صلوٰۃ کے بعد لوگوں
کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا :لتسون صفوفکم اولیخالفن اللّٰہ بین وجوھکم۔
’’تم اپنی صفوں کو ضرور سیدھا کرو گے یا اﷲ تعالیٰ تمہارے چہرے بدل دے
گا۔(بخاری)
اس میں وعید شدید ہے ،صفیں سیدھی نہ کرنے میں چہروں کے بدلنے کا خطرہ ہے ۔بعض
نے اس حدیث کو اپنے ظاہر پر محمول کیا ہے ،یعنی صفیں سیدھا نہ کرنے کے جرم
میں بعض حقیقۃً بدل دئیے جائیں گے ۔چہرے کو پچھلی جانب کر دیا جائے گا ۔جیسا
کہ امام کی مخالفت پر وعید فرمائی گئی کہ اس کا سر گدھے کی طرح کر دیا جائے
گا اور یہ سزا دنیا میں بھی ہو سکتی ہے اور آخرت میں بھی اور مسئلہ ہے کہ
تمام وعیدات کا نفاذ اﷲ تعالیٰ کی مشیت پر ہے چاہے وہ عذاب میں مبتلا فر ما
دے اور چاہے اپنے فضل وکرم سے معاف فرمادے ۔
معلوم ہوا کہ صفیں سیدھی نہ کرنا بہت بڑا جُرم ہے اور چہروں کے بدلنے کا
خطرہ ہے ،اور یہ وعید اُس کے لئے ہے ۔جو صفیں سیدھی نہ کرے ، اس میں بیان
ہے جیسا جرم ویسی سزا کا یعنی آگے پیچھے کھڑے ہونا اور سزا بھی چہرے میں
مخالفت ،یعنی چہرے کو پیچھے کی طرف کر دینا ،اس کو ظاہر پر محمول کرنے کی
تاکید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں لفظ ہیں ۔اولتطمن الوجوہ۔یعنی چہرے
مسخ کردئیے جائیں گے ،اگر چہ اس کی سند ضعیف ہے ۔
شارح مسلم امام نووی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا :اس سے مرادیہ ہے کہ تمہارے
درمیان عداوت اور بغض اور دلوں میں مخالفت پیدا فرما دے گا ۔جیسا کہ محاورہ
ہے : تغیر وجہ فلان علی ۔یعنی ’’فلاں کے جانب سے مجھے کراہت (ناپسند یدگی ،ظاہر
ہوتی ہے ۔‘‘ اس لئے کہ صفوں میں مخالفت ، ظاہر ی مخالفت ہے اور ظاہری
مخالفت، باطن کے اختلاف کا سبب ہوتی ہے ،یعنی قلبی مخالفت اس کی تاکید ابو
داؤد کی روایت ہے ،جس کے الفاظ اس طرح ہیں : اولیخالفن اللّٰہ بین
قلوبکم۔’’اﷲ تعالیٰ تمہارے دلوں میں مخالفت ڈال دے گا۔‘‘
ہمارا حال:آجکل اولاً تو اکثر لوگ نماز ہی نہیں پڑھتے ،جو کہ ایمان کے بعد
تمام فرائض سے اہم فریضہ ہے ،اور جو پڑھتے ہیں ان میں اکثر جماعت کا خیال
نہیں رکھتے اور جماعت کا اہتمام نہیں کرتے جبکہ جماعت سنت مؤکدہ ہے اور
واجب کے قریب ۔اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے :وارکعوا مع الراکعینo’’یعنی نماز با
جماعت ادا کرو۔‘‘
جو جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں ،تو صفوں کے سیدھا رکھنے اور صفوں کے درمیان
خالی جگہ نہ چھوڑنے کا خیال نہیں فرماتے ،کوئی آگے کھڑا ہو تا ہے ،کوئی
پیچھے ، ابھی اگلی صف میں جگہ باقی ہوتی ہے ،تو پھر پچھلی صف میں کھڑے
ہوجاتے ہیں ۔بالخصوص جن مساجد میں قالین وغیرہ ڈالے ہوئے ہوتے ہیں ،اس میں
خاص کر صفوں کو سیدھا رکھنے کا خیال بہت کم ہوتا ہے ،ایسے ہی گرمیوں میں
پنکھے وغیرہ کی لالچ پر آگے جگہ خالی چھوڑدی جاتی ہے اور سردیوں میں دھوپ
وغیرہ کی لالچ میں خالی جگہ چھوڑ دی جاتی ہے حالانکہ اگلی صف میں جگہ ہوتے
ہوئے پیچھے کھڑا ہونا مکروہ ہے اور خالی جگہ کو پُر کرنا بہت اہم اور لازم
ہے ۔حتیٰ کہ حکم ہے کہ نمازیوں کی گردن پھلانگ کر بھی اگلی صف کو پورا کرنے
کے لئے آگے جاناپڑے پھر بھی جائے اور صف کو پورا کرے۔
حدیث سے مسائل:اس حدیث میں حکم ہے صفیں سیدھی کرنے کا ،یہ امام اعظم ،امام
شافعی اور امام مالک رحمہم اﷲ تعالیٰ کے نزدیک نماز کی سنت ہے اور ابن حزم
کا زعم ہے کہ یہ واجب ہے ، کیونکہ آپ نے فرمایا صفیں سیدھی کرنااقامت صلوٰۃ
سے ہے اور اقامت صلوٰۃ فرض و واجب ہے اور جو فرض سے ہووہ بھی فرض ہے ۔ لیکن
یہ دلیل اُنکی کمزور ہے ۔کیونکہ بعض روایات میں صفیں سیدھی کرنا حُسن صلوٰۃ
سے ہے اور بعض روایات میں تمام صلوٰۃ سے۔
جب روایات میں اختلاف ہے ،تو وجوب پر دلالت نہ ہو گی ۔علامہ عینی فرماتے
ہیں :یعنی ’’مخفی نہ رہے کہ نماز میں صف سیدھی کرنا نماز کے ارکان سے نہیں
ہے ،بلکہ نماز کا حُسن اور اُس کا کمال ہے ،چاہے واجب ہو یا سنت یا مستحب
‘‘تا ہم شارح بخاری بدر الدین عینی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا :تسویۃ الصفوف
کا حکم بصیغہ امر ہے اور امر وجوب کے لئے ہوتا ہے ،خصوصاً جبکہ وعید کے
ساتھ مقرون ہو لہٰذا حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نفس تسویۃ الصفوف واجب ہے
لیکن نماز کے واجبات سے نہیں ۔یعنی صف سیدھی نہ کرنا ترکِ واجب ہے اور سخت
گناہ ہو گا اگر چہ نماز ہو جائے اور نماز کا اعادہ لازم نہ ہو گا ۔ اس کی
تائید میں وہ حدیث بھی ہے جو سید نا حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آپ
مدینہ منورہ میں آئے تو اصحاب نے سوال کیا کہ آپ ہم میں کونسی شے منکر ،یعنی
خلافِ شرع امر دیکھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا :اور کچھ بھی نہیں ۔صرف نماز میں
صفیں نہیں سیدھی کرتے!
پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ اس معاملے میں بہت سختی فرماتے :آپ
ایک شخص کے ذمہ لگاتے کہ وہ پہلے صفیں درست کرے ۔جب وہ کہتا کہ صفیں درست
ہو گئیں ۔تب وہ نماز شروع فرماتے اور حضرت علی اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ
عنہما سے بھی مروی ہے کہ آپ بھی صفوں کی درستگی کا بہت خیال فرماتے اور
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم فرماتے اے فلاں آگے ہو اور اے فلاں تو پیچھے
ہو ۔بہر حال صفیں درست اور سیدھی کرنا بہت اہم مسئلہ ہے ۔
اس حدیث سے ایک مسئلہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امام نماز کی اقامت کے بعد
لوگوں سے بات کر سکتا ہے ،جیسا کہ روایت میں آیا کہ حضور سید عالم ﷺ نے
اقامت کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر صفوں کے درست کرنے کا حکم فرمایا۔
یہ بھی ثابت ہوا کہ امام کو مقتدیوں کی نماز کا خیال رکھنا چاہئے اور اُن
کو مسائل سے آگاہ کرنا چاہئے اور نماز شروع کرنے سے پہلے صفوں کو درست
کرلینا چاہئیے۔جیسا کہ سیدنا عمر و سیدنا عثمان و سیدنا علی رضی اﷲ عنہم کے
افعال سے مروی ہے ۔بلکہ اصحاب سرکار دو عالم ﷺ سے مروی ہے :’’حضور ﷺ ہماری
صفوں کو درست فرماتے ۔ جب ہم نماز کے لئے کھڑے ہوتے ۔جب ہم درست کھڑے ہو
جاتے تو آپ نماز کی تکبیر فرماتے ۔‘‘(ابو داؤد جلد 5صفحہ254)
یہ بھی مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق اور حضرت بلال حبشی رضی اﷲ عنہما صف درست
نہ ہونے پر تعزیر فرماتے ۔یعنی مارتے تھے ۔
لہٰذا ان روایات سے ثابت ہوا کہ امام صاحب کی بھی ذمہ داری ہے کہ پہلے صفیں
درست اور سیدھی کروائے ۔بھر نماز شروع کرے ۔بلکہ مسجد میں ایسا انتظام کیا
جائے کہ صف خود بخود سیدھی ہو ، صفیں سیدھی بچھائی جائیں ۔اگر قالین ہو تو
صف کے قائم ہونے کی جگہ لکیر کھینچی جائے اور انتظام ہونے کے بعد بھی خیال
رکھا جائے ،کیونکہ لوگ پھر بھی کوتاہی کرتے ہیں ۔نمازیوں کی ایسی تربیت کی
جائے کہ انہیں خود ہی اس کی اہمیت کا احساس پیش نظر رہے ۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں نماز میں صفیں سیدھی رکھ کر صراط مستقیم پر عمل کی توفیق
دے۔ آمین! |
|