”تالاب کھٹیکاں“ مسلمانان جموں کی شناخت کا مرکز

جھلستی گرمی میں صبح کی سرد ہوائیں بدن کو ٹھنڈک پہنچارہی تھیں۔پاس ہی مسجد کے میناروں سے درودازکار کا وردفضا کو معطر اور روح کو معمور کررہا تھا۔نمازی ایک ایک کرکے مسجد سے نکل رہے تھے۔رات کی ظلمتوں کو چیرتے ہوئے ایک نئی صبح طلوع ہوچکی تھی۔چرندوں کی چہچہاہٹ ماحول میں سر اور ساز کا اثر پیدا کررہی تھی۔پاس کی سڑک پر زبردست گہما گہمی تھی۔ ہلکے کپڑوں میں ملبوس لوگ سڑک کے برلب قائم ہوٹلوں کی جانب رواں دواں تھے۔زبان اجنبی ،صورت بیگانہ ،لیکن منزل سب کی ایک تھی۔سب کے قدم ان ہوٹلوں کی جانب اٹھ رہے تھے جو مسجد کے متصل اس تنگ سڑک پر قائم ہیں۔آخر صبح صبح ہوٹلوں میں یہ بھیڑ بھاڑ کیوں؟۔کیوں لوگ جوق در جوق یہاں آرہے ہیں۔اشتیاق بڑھنے لگا اور یہ اشتیاق ہوٹل میں لے گیا۔ہوٹل کا منیجر مرکزی دروازے کے ساتھ ہی ایک کیبن میں شاندار کرسی پر تشریف فرما ہے اور اندر داخل ہونے والے مہمانوں کے استقبال میں لگا ہے۔اندر چند نوجوان بہرے مہمانوں کو چائے پیش کرنے میں لگے ہیں۔آخر اس چائے میں کیا خوبی ہے جو ان اجنبی لوگوں کو یہاں کھینچ لائی ہے۔وجہ جاننے کا اشتیاق بڑھتا گیا اور میں اور قریب ہوگیا۔بھیڑ بھاڑ کی ساری وجہ اس وقت مجھ پر آشکار ہوگئی جب میں نے دیکھا کہ ہوٹل میں نمکین چائے کا انتظام ہے۔میں سمجھ گیا کہ اندر جو بیٹھے لوگ ہیں یہ کشمیر ،چناب ،پیرپنچال اور لداخ خطہ سے آئے ہوئے مہمان ہیں۔ایک عجیب ملن کا ماحول ہے۔ایک دوسرے کی زبان نہ جاننے کے باوجود ایک عجیب قسم کی اپنائیت ہے۔سلام و کلام کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ایسا محسوس ہورہا تھا کہ پردیس نہیں بلکہ اپنا علاقہ ہے۔نمکین چائے کے بہانے مسلم آبادی کا ملن تو ٹھیک ہے لیکن کوئی اور وجہ بھی ہوگی جو یہاں مسلمانوں کو مجتمع ہونے پر مجبور کردیتی ہے۔ابھی یہ خیال ذہن میں گردش کرہی رہا تھا کہ میری نظر باہر بالکل ہوٹل کے مخالف مسجد کے عظیم و شان مینارے کی طرف پڑی، میں سمجھ گیا کہ یہ اس مسجد کی عظمت ہی ہے جس نے اس علاقہ کو مسلمانوں کیلئے مرکزی اہمیت دی ہے۔یہ مرکزی مسجد جموں کے تالاب کھٹیکاں علاقہ کی ہے جو جموں شہر میں مسلم شناخت کی علامت بن چکی ہے۔چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے میری ایک مہمان سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ وہ لداخ سے آئے ہیں۔مہمان نے اپنا تعارف محمد زمان کے طور دیا۔جب میںنے ان سے ہوٹل میں آنے کی وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا''جموں میں نمکین چائے اور نصیب کہاں،یہاں آکر نہ صرف ہم نمکین چائے کا لطف لیتے ہیں بلکہ اپنائیت بھی محسوس کرتے ہیں''۔زمان کا مزید کہناتھاکہ ''تالاب کھٹیکاں جموں میں مسلمانوں کیلئے مرکز کی حیثیت اختیار کرچکا ہے اور جموں جب بھی آنا پڑتا ہے تو اسی علاقہ میں قیام کرتا ہوں کیونکہ یہاں مسجد کے میناروں سے بلال کے کسی وارث کی اذان سن کر نہ صرف قلب کو سکون میسر ہوتا ہے بلکہ تحفظ کا احساس بھی جاگزیں ہوجاتا ہے''۔ہوٹل کے ساتھ ہی ایک نانوائی کی دکان ہے جو مسجد کے مرکزی دروازہ کے بالکل سامنے ہے۔بورڈ آویزاں ہے '' بسم اللہ بیکری ''۔نانوائی کشمیری روٹیاں بناتا ہے۔دکان کے مالک محمد لطیف، جو گذشتہ 56 برسوں سے یہاں نانوائی کا کام کر رہے ہیں،سے جب بات ہوئی تو معلوم ہوا ہے کہ ابھی جو ہوٹل میں چائے کے ساتھ روٹی کھائی ،وہ اسی دکان سے گئی تھی۔جب میں نے آن سے انکی جموں آمد کے بارے میںپوچھا تو انہوںنے کہا'' 1955میںان کے دادامرحوم حاجی محمد سلطان صوفی نئی بستی اسلام آباد( اننت ناگ )کشمیر سے یہاں ا?کر آباد ہو گئے تھے اورنانوائی کا کام شروع کیا تھا،جس کے بعد میرے ابا نے یہ کام آگے بڑھا یا اور اب میں اپنے آبائی پیشہ کو آگے بڑھارہا ہوں''۔محمد لطیف،جو کہ نانوائی یونین جموں کے صدر بھی ہیں، نے بتایا کہ جامع مسجد تالاب کھٹیکاں کی وجہ سے مسلمانوں کاتشخص برقرار ہے یہ صوبہ جموں میں مسلمانوں کا مرکز بن گئی ہے جہاں پر جموں میں بیرون یاست سے آنیو الے لوگ بھی تشریف لاتے ہیں۔تالاب کٹھیکاں مسجد کی تاریخ کے بارے میں جب ان سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے اپنے دادا اور اباجان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا'' 1947سے پہلے مسجد کی جگہ ایک چھوٹا سا بازار ہوتا تھا اور موجودہ مسجد کی عمارت کے صحن میں ایک تالاب تھا جہاں پر قصائی (کٹھیک )اکثر چمڑا صاف کیا کرتے تھے،بعد میں گردونواح میں آبادی کے اضافہ کی وجہ سے تالاب کو بھر دیا گیا اوراس جگہ کوتالاب کھٹیکاں کا نام دیا گیا''۔انہوں نے مزید کہا''مسجد کے متصل، جہاں اس وقت دکانیں تعمیر کی گئی ہیں، وہاں ایک باغیچہ ہوا کرتا تھا اور دو یا تین مرلہ رقبہ پر محیط ایک چھوٹی سی مسجد ہوتی تھی ہر سال اس باغیچہ میں علی پور ہزارا(پاکستان )سے پیر جماعت علی شاہ آتے تھے اور یہاں ایک سالانہ عرس کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ ریاست کے دور درازعلا قوںسے آنے والے مہمان اور مزدور لوگ اسی باغیچہ میں رات کو ٹھہرتے تھے، رفتہ رفتہ یہ جگہ ان غریب مزدوروں اور مسافروںکیلئے جموں میں ایک مرکز بن گیااور یوں جموں میں کام کرنے والے مسلموں کا مسکن بھی''۔محمد لطیف نے بزرگوں کے حوالہ سے مزید بتایاکہ'' 1960میں جب بخشی غلام محمد ریاست جموں وکشمیر کے وزیر اعظم تھے ،انہوں نے یہاں ریاست کے دور دراز علاقوں سے آنے والے مسلمانوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے محسوس کیا کہ یہ جگہ جموں میں مسلمانوں کا مرکز بن سکتی ہے جس کے بعد آسی سال یہاں پرانہوں نے مسجد کی تعمیر کا نہ صرف سنگ بنیاد رکھا بلکہ مسجد کے تعمیری کام میں خودحصہ لیا ''۔لطیف نے کہا کہ آج جو مسجد موجود ہے ،یہ بخشی غلام محمد کے دور میں بنائی گئی ہے۔لطیف نے کہا کہ''راجوری ،پونچھ ،ڈوڈہ ،کشتواڑ ،رام بن ،ریاسی ،کشمیر اور لداخ کے مسلمان جب جموں آتے ہیں توقیام کیلئے ان کی پہلی ترجیح تالاب کھٹیاں ہوتی ہے کیونکہ یہاں آکر وہ اپنے آپ کو محفوظ تصور کرنے کے علاوہ اپنے آپ کو مسلم ماحول میں پاتے ہیں''۔جموں آنے والے زیادہ تر مسلم جامع مسجد تالاب کھٹیکاں کے اردگرد ہوٹلوں میں رات گذارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ہوٹل میں مقیم کشمیری مہمان کو شکایت ہے کہ ہوٹل مالکان ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر نہ صرف مہنگے داموں ک،رے کرایہ پر دیتے ہیں بلکہ کھانا پینا بھی سستا نہیں ہے۔مسجد کے ارگرد زیادہ تر مرغ فروشوں،قصابوں، نانوائیوں ، کشمیری وازوان تیارکرنے والے ہوٹلوں کے علاوہ دینی کتابیں اور اسلامی ملبوسات وغیرہ فروخت کرنے والے افراد کی دکانات ہیں۔ موسم سرمامیںتالاب کھٹیکاں زبردست چہل پہل ہوتی ہے اور مسجد کے گردو نواح میں عید کا منظر دیکھنے کو ملتا ہے ، سرما میں زیادہ تر کشمیرسے آنے والے دربار موو ملازمین اور دیگرکشمیری لوگ مسجد کے گرد ونواح میں کرایہ کے کمروں میں رہتے ہیںاور یہیں پر پنجگانہ نماز ادا کرنے آتے ہیں۔یہ مسجد ایک طرف سے جموں میں مرکزی عبادت گاہ ہونے کے ساتھ ڈوڈہ، کشتواڑ، بھدرواہ، رام بن، راجوری پونچھ اور کشمیر سے تعلق رکھنے وا لے مسلم طبقہ کے لوگوں کیلئے ایک ساتھ ملنے اپنے تجربات بانٹنے کا ایک مرکز ہے۔تالاب کھٹیکاں مسجد نے صوبہ جموں اور کشمیر کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیاہے جہاں سے وہ اسلام کی ترویج و ترقی کیلئے کوششیں کرسکیں۔اس شاندار مسجد کے باہر پختہ صحن جہاں جمعہ کی نماز ادا کی جاتی ہے جبکہ صحن کے ایک طرف ہیانش کدہ جموں پبلک اسکول، مدرسہ تعلیم القران اور مرکزی تبلیغ جماعت کی عمارتیں قائم ہیں جبکہ صحن کے ایک جانب بیت الخلاﺅں کا مناسب انتظام ہے جہاں نمازی وضو کرتے ہیں۔مسجد کے صحن میں کبوتروں کی چہچہاہٹ ہمہ وقت رہتی ہے اور اللہ کے بندے ان کبوتروں کیلئے غذا کا انتظام کرتے ہیں اور شاید ہی کسی وقت وہاں مکئی نہ ہوتی ہو۔مسجد کے باہر نانوائی، کشمیر ی وازوان ہوٹلوں اور گوشت کی دکانوں پر بھاری رش دیکھنے کو ملتا ہے۔آج بھی سینکڑوں کی تعداد میں غریب لوگ یہاں پر آکر رہتے ہیں۔ گزشتہ 50برسوں کے دوران مسلم آبادی میں قابل ذکر حد تک اضافہ ہوا ہے لیکن مرکزی عبادت گاہ کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔نمازیوں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر مسجد کی جدید طرز پر وسعت دینے کے لئے 16.39کروڑ تخمینہ لاگت کا ایک جامع منصوبہ ہاتھ میں لیا گیا جو کہ 4کنال رقبہ پر محیط ہے۔ اس مقصد کے لئے دانش کدہ جموں پبلک اسکول کی عمارت کو مسجد میں تبدیل کیا جائے گااورمدرسہ تعلیم القران اور مرکزی تبلیغ جماعت جموں کی عمارتوں کو منہدم کر کے ان کی جگہ نئی عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں۔اس منصوبہ کے مکمل ہوجانے کے بعد مرکزی جامع تالاب کھٹیکان میں بیک وقت 12000 نمازی سربسجود ہوسکتے ہیں۔ مسجد کے اندر 8000اور صحن میں 4000لوگ نماز ادا کر سکیں گے جبکہ ایک صف میں 200افراد کی گنجائش ہوگی۔ جدید طرز پر مسجدکی سرنو تعمیر کیلئے ایک خوبصورت نمونہ تیار کیا گیا ہے جس کو گجرات کے مشہور ڈیزائنر ذاکر قریشی نے تیار کیا ہے۔ مذکورہ منصوبہ کے تحت غسل خانوں، وضوخانوں کا عمدہ اور صاف ستھرا انتظام ہوگا جبکہ لوگوں کے بھاری رش کو دیکھتے ہوئے زیر زمین پارکنگ بھی تعمیر ہوگی۔جموں کے مسلمانوں کو امید ہے کہ یہ مرکز ریاست کی مسلم آبادی کو اکٹھا کرنے میں قلیدی رول ادا کرے گا اور جب کبھی بھی ریاست کی مسلم آبادی کو کوئی مسئلہ درپیش ہوگا جو اس مرکز کی وساطت سے اتحاد کا عملی مظاہرہ کیا جائے گا۔
Altaf Hussain Janjua
About the Author: Altaf Hussain Janjua Read More Articles by Altaf Hussain Janjua: 11 Articles with 6547 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.