اسلام کیا ہے ؟
اسلام وہ وحی ہے جو اللہ تعالیٰ نے عرش عظیم سے سید الانبیاء محمد صلی اللہ
علیہ وسلم پر نازل فرمائی۔ یہ وحی آج دو صورتوں میں ہمارے پاس موجود ہے۔
(1) قرآ ن مجید (2) صحیح حدیث
جو بھی علم ان دو چشموں کے علاوہ حاصل کیا جائے گا وہ قابل موازنہ ہے یا تو
وہ قرآن و صحیح حدیث کے موافق ہوگا یا مخالف ‘ اگر موافق ہوگا تو قبول کر
لیا جائے اور اگر مخالف ہو تو اس کو رد کرنا واجب ہوگا خواہ کہنے والا کوئی
بھی ہو۔ بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ ضعیف اور موضوع احادیث ہیں تو
احادیث ہی۔ ان کی خدمت میں گذارش ہے کہ ایک اصلی نوٹ ہوتا ہے اور ایک نقلی
نوٹ ‘ اگر کوئی روشن خیال بازار جائے اور یہ کہتے ہوئے نقلی نوٹ لے جائے کہ
ہے تو یہ بھی نوٹ ہی ‘ پھر جب اسے پولیس والے ڈرائنگ روم کی سیر کروائیں گے
تو فرق فوراً سمجھ آ جائے گا۔
ایک اور مثال سے سمجھئے سر درد کے لئے ڈسپرین گولی استعمال کی جاتی ہے لیکن
اگر کوئی جاہل اس بات پہ اڑ جائے کہ میں سر درد کی صورت میں چوہے مار گولی
کھاﺅں گا کیونکہ ہے تو یہ بھی گولی تو اس کی طبعیت صاف ہو جائے گی کیا خیال
ہے آپ کا؟
دنیا میں حق کتنے ہیں ؟
(1) اللہ نے اپنے آپ کو حق کہا ہے ذلک بان اللہ ھو الحق (سورة الحج آیت 62)
”یہ اس لئے ہے کہ اللہ ہی برحق ہے “۔
( 2)اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ۔ اللہ ولی الذین امنو ا یخرجھم من
الظلمات الی النور۔ (سورہ البقرة آیت 257)
”اللہ ایمان والوں کا دوست ہے انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے
کر آتا ہے“۔
ظلمات:جمع کا صیغہ ہے یعنی باطل راستے
نور :واحد کا صیغہ ہے یعنی حق راستہ اس آیت کریمہ سے پتہ چلا کہ حق ایک ہی
ہوتا ہے۔
(3)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ایک سیدھی لکیر کھینچی۔ دو اس کے
دائیں اور دو اس کے بائیں لکیریں کھینچیں اور سید ھی لکیر پر انگلی رکھ کر
فرمایا۔
وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعو االسبل فتفرق بکم عن سبیلہ (سورة
الانعام آیت 153)
”اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو سیدھا ہے سو اس راہ پر چلو اور دوسری
راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تمہیں اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی “
غور کیجئے دوسری راہیں بھی اسی حقراستے سے نکل رہیں ہیں لیکن ایک اور سیدھی
رحمن کی ‘ باقی ترچھی شیطان کی۔ اس حدیث مبارکہ سے بھی پتہ چلا کہ حق ایک
ہی ہوتا ہے۔
(4)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے تہتر (73) فرقے ہونگے سب
جہنم میں جائیں گے صرف ایک جنت میں جائے گا ’صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ
نے پوچھا وہ کونسا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جواس دین
پر ہوگا۔
ما انا علیہ الیوم و اصحابی جس دین پر میں اور میرے صحابہ ہیں ۔(مشکوة)
کیا ہر شخص حق تک پہنچ سکتا ہے؟
جی ہاں ہر شخص حق پر پہنچ سکتا ہے اگر وہ دو شرائط پر پورا اترتا ہو۔
(۱) تقویٰ
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ! یا ایھاالذین امنوا ان تتقو االلہ یجعل لکم
فرقانا ( سورة الانفال آیت ۹۲)
”اے ایمان والو !اگر تم اللہ کا تقوی اختیار کرو گے تو وہ تمہیں فرقان (حق
اور باطل کے درمیان فرق) عطا کرے گا “۔
(۲) جہد مسلسل
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے والذین جاھدو افینا لنھد ینھم سبلنا ( سورة
العنکبوت آیت 69)
”اور جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھائیں
گے “۔
کیا امت میں کوئی ایسا شخص ہے جس کو دین کا علم اسی طرح ہو جس طرح نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کو تھا؟
نہیں ایسا کوئی شخص نہیں۔
(۱) ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اس امت میں انبیاء کے بعد سب سے افضل
ہیں ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میں مرنے والے کی نانی لگتی ہوں اس
کی وراثت میں میرا کونسا حصہ ہے؟ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میرے
علم کے مطابق تمہارا کوئی حصہ نہیں۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نانی کو چھٹا حصہ وراثت میں سے دلایا تو
ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس عورت کو کہا کہ تمہارا چھٹا حصہ ہے۔
(موطا امام مالک رحمتہ اللہ علیہ )
یعنی ا بوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس حدیث کا علم نہیں تھا۔
(۲) عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
آئے‘ تین دفعہ دستک دی جواب نہیں ملا واپس چلے گئے۔ دوبارہ ملاقات پر عمر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا تم واپس کیوں چلے گئے تھے ؟ تو انہوں نے جواب
دیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنی ہے کہ تین دفعہ دستک دو
جواب نہ ملے واپس چلے جاﺅ۔عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا جاﺅ گواہی لے کر
آﺅ۔ وہ مسجد نبوی میں گئے وہاں کچھ صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے ان سے پوچھا
کہ تم نے یہ حدیث سنی ہے تو ان میں سے ایک نے جا کر عمر رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کے سامنے گواہی دی ۔(بخاری )
(۳) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ کوفہ میں ایک
عورت سے نکاح کیا پھر قبل جماع کے اس کو چھوڑ دیا اب اس عورت کی ماں سے
نکاح کرنا کیسا ہے؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ درست ہے پھر ابن
مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ میں آئے اور ان کو تحقیق کرنے پر
معلوم ہوا کہ عورت کی ماں مطلقاً حرام ہے خواہ وہ عورت سے صحبت کرے یا نہ
کرے اور صحبت کی قید ربائب میں ہے پھر جب ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ
واپس لوٹے تو اسی سائل کے گھر گئے اور اس کو بتلایا کہ اس عورت (ماں ) کو
چھوڑ دے۔(موطا امام مالک کتاب النکاح) پس معلوم ہوا کہ امت میں مکمل دین کا
علم کسی کے پاس ہونا ممکن نہیں۔
٭ کیا ضروری ہے کہ عالم و مجتہد کی تفقہ درست ہی ہو؟
عالم و مجتہد کی تفقہ درست بھی ہو سکتی ہے اور نہیں بھی۔
(۱) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! جب عالم اجتہاد کرتا ہے تو اگر
صحیح ہو تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اجتہاد صحیح نہ ہونے کی صورت میں اس
کے لئے ایک اجر ہے۔ ( بخاری )
(2) تین صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آئے
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شب و روز کے معمولات دریافت کئے۔ انہوں نے
یہ سوچا کہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تو بخشا ہوا ہے اس لئے ہمیں
زیادہ عبادت کرنی چاہیے ایک نے کہا میں ساری رات سوﺅں گا ہی نہیں ‘ ساری
رات عبادت کیا کروں گا۔ دوسرے نے روزانہ روزہ رکھنے کا کہا۔ تیسرے نے کہا
میں نکاح نہیں کروں گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ کو سارا
واقعہ بتایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں کو ارشاد فرمایا! اللہ
کی قسم !میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں‘ میں سوتا بھی ہوں
اور عبادت بھی کرتا ہوں‘ میں (نفلی )روزے رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں
نکاح کرنا میری سنت ہے پس جو میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں۔
(بخاری)
(3) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا لشکر جمعہ کی صبح روانہ فرمایا جس
میں عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے ان کے ساتھی حکم
سنتے ہی صبح صبح روانہ ہو گئے لیکن انہوں نے سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ میں اس
جنگ میں شہید ہو جاﺅں لہٰذا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جمعہ
پڑھنے کی سعادت حاصل کر کے انہیں جا ملوں گا۔ جمعہ کے بعد حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر ارشاد فرمایا لو انفقت ما فی الارض جمیعا
ماادرکت فضل غدوتھم ”اگر تم ساری زمین کی دولت بھی خرچ کر لو تم ان کی صبح
روانگی کی فضیلت کو نہیں پا سکتے“(عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ ترمذی)
(4) حضرت عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حاتم بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل
ہوئی
کلو اواشر بو حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر۔
(البقرہ آیت ۷۸۱)
”کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ رات کے سیاہ دھاگے سے تمہارے
لئے ظاہر نہ ہوجائے“تو میں نے ایک سیاہ دھاگہ اور ایک سفید دھاگہ لے لیا
اور ان دونوں کو اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیا اور رات کو اٹھ اٹھ کر ان کو
دیکھتا رہا مگر مجھے کچھ معلوم نہیں ہوا تو صبح کو میں رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ (سیاہ دھاگے سے مراد) تو رات کی
سیاہی اور (سفید دھاگے سے مراد )صبح کی سفیدی ہے۔(بخاری)
٭ اگر کسی نیک و متقی شخص کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے
مخالف آجائے تو؟
تو اس کو چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
نے ہمیں بڑوں اور بزرگوں کی عزت کا حکم دیا ہے اور کسی کی قربانیاں اور
عبادات اس بات کا تقاضا نہیں کرتیں کہ اب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کی بات کو چھوڑ کر اس کی بات کو لے لیا جائے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیعنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تورات
کا نسخہ لیکر آئے اور کہا اےاللہ کے رسول یہ تورات کا نسخہ ہے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے تو انہوں نے پڑھنا شروع کر دیا اور نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور متغیر ہونے لگا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
تعالی عنہ نے کہا گم کریں تجھ کو گم کرنی والیاں! کیا تو رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی طرف نہیں دیکھتا !تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا میں اللہ کی پناہ
مانگتا ہوں اس کے غضب اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غضب سے ‘ میں
اللہ کے رب ہونے ‘ اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی
ہونے پر راضی ہوا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !والذی نفس محمد بیدہ لو بدالکم موسی
فاتبعتموہ و تر کتمونی لضللتم عن سوا ءالسبیل ولو کان موسی حیا و ادرک
نبوتی لا تبعنی ۔(مشکوة)
”اس ذات کی قسم !جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر
موسیٰ علیہ السلام تمہارے لئے ظاہر ہو جائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی
پیروی کرتے تو تم سیدھی راہ سے بھٹک جاتے اور اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ
ہوتے اور میری نبوت پاتے تو میری ہی پیروی کرتے “۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اگر موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر
پیغمبر کی بات کو لے لیا جائے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو چھوڑ
دیا جائے تو یہ گمراہی ہے ۔
عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ عیسائی تھے وہ رسول کی خدمت میں حاضر ہوئے
تو آپ سورة توبہ کی تلاوت فرما رہے تھے یہاں تک کہ آپ جب اس آیت پر پہنچے ۔
اتخذوااحبارھم ورھبانھم ارباب من دون اللہ ۔( سورة التوبہ آیت 31)
”ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنالیا ہے“ ۔
تو عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے
تھے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!تمہارے علماء اور درویش جس چیز کو حرام کر
دیتے حالانکہ اللہ نے اسے حلال کیا ہوتا تو کیا تم اسے حرام نہیں جانتے تھے
اور جس چیز کو اللہ نے حرام کیا ہوتا لیکن وہ حلال کر دیتے تو کیا تم اسے
حلال نہیں جانتے تھے؟
میں (عدی) نے کہا ہاں تو آپ نے فرمایا یہی ان کی عبادت ہے ۔(ترمذی)
دلیل مانگنا گستاخی نہیں؟
اگر کوئی بندہ اپنے کسی عالم کی بات سن کر اس سے قرآن و حدیث سے دلیل طلب
کرے تو یہ گستاخی نہیں ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا! اے
میرے رب میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ مردوں کو کیسے زندہ کریں گے؟
اللہ رب العزت نے فرمایا! کیا آپ علیہ السلام کا اس بات پر ایمان نہیں؟
ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کیوں نہیں‘ لیکن میں اطمینان قلب کے لئے
دلیل مانگ رہا ہوں۔اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے طلب دلیل پر
ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا بلکہ دلیل دیتے ہوئے فرمایا آپ چار پرندے لے
لیں اور انہیں اپنے ساتھ مانوس کرلیں پھر انہیں ذبح کر کے ان کے گوشت کے
ٹکڑے کر کے باہم ملا لیں اور ان میں سے تھوڑا تھوڑا پہاڑوں پر رکھ دیں ‘
پھر انہیں آواز دیں وہ آپ کی طرف دوڑتے ہوئے آئیں گے۔ (سورة البقرہ آیت
260) |