بے جان عورت کی دنیا

السلام علیکم !
آج ہمارے معاشرے کے لوگوں کو کیا ہوا؟عورت ماں بھی ہے، بیوی بھی، بہن اور بیٹی بھی ہے۔اپنے ہر کردار میں اس کے جذبات و احساسات ایسے ایسے انوکھے رنگ دکھاتے ہیں کہ دیکھنے والے حیران رہ جائیں۔کہتے ہیں عورت جفا پیشہ اور فتنہ گر ہوتی ہے، یہ سب الزام نسوانی احترام اور فطرت کے بنائے ہوئے قوانین کی نفی کرتے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ عورت وفا پیشہ اور ایثار و محبت کا لازوال شاہکار ہے۔ ماں، بیوی، بہن، بیٹی چاہے وہ ان میں سے کسی بھی روپ میں ہو اس کا ہر رشتہ تقدس کا داعی ہے۔ وہ عہدوفا کی سچی اور کردار کی بےداغ ہوتی ہے۔ لیکن کیا آج معاشرے میں اس کو وہ اہمیت حاصل ہے جس کی وہ حقدار ہے۔مرد عورت کو کمزور سمجھتا ہے اور پھر ہر دور میں ناپاک خواہشات کے حامل لوگ عورت سے زیادتی کرتے آئے ہیں۔ لیکن اسلام ایک ایسا واحد مذہب ہے جس نے عورت کو اس کا صیحیح مقام و مرتبہ دیا، اسے عزت و توقیر عطا کی۔ اسلام نے عورت کو ظلم کی کال کوٹھری سے نکال کر اسے اس مقام پر بٹھا دیا جس کی وہ حقدار تھی۔ اسلام نے عورت کا جو معتبر اور قابل قدر کردار متعین کیا تھا مسلمانوں نے اسے ملحوظ خاطر نہ رکھا،آج کے دورپاکستان میں عورت کی عزت کو بازاری عورت سے بھی زیادہ سزاہ دی ہے لیکن اس معاشرے میں باراری عورت کو نیا نا م دینا والا بھی مرد ہے اور اس سے پیار،احساس کو بارار میں لے کر جاننا والا بھی مرد ہے لیکن پھر مجھے یہ سوچ آتی ہے کہ اسلام نے عورت کو جو رتبہ دیا دوسری قوموں نے اس سے متاثر ہو کر اس کی تقلید میں آزادی نسواں کے نام پر اس قدر آگے بڑھیں کہ عورت ہر میدان میں مرد کی ہمسر بن گئی۔ دوسری طرف مغربی معاشرے کے رنگ ڈھنگ کو اکثر مسلمانوں نے ترقی کی علامت سمجھ لیا، جس سے مسلم معاشرہ دو حصوں میں بٹ گیا، ایک وہ جس میں عورت مجبوری و بے بسی کی تصویر ہے اور دوسرا حصہ وہ جس میں عورت مکمل خود مختار ہے۔ یوں اسلام کا حقیقی نظریہ نظروں سے اوجھل ہو گیا جو متوازن اور قابل عمل ہے۔

کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے معاشرے کی عورت اتنی مجبور اور بے بس کیوں ہے۔ کبھی ہم نے غور کیا کہ آج عورت کی عزت کیوں محفوظ نہیں رہی، علاج کے نام پر مسیحا، انصاف کے نام پر قانون کے محافظ، تعویز اور ٹونے ٹوٹکے کے نام پر جعلی پیر ، حصول علم کی خواہش پر اساتذہ عورت کو بے آبرو کے دیتے ہیں۔ آج بازار سے لیکر ہسپتال تک اور کالج سے لیکر گھر کی چاردیواری تک عورت کی عزت کہیں بھی محفوظ نہیں رہی۔ خدا جانے مرد کی انفرادی غیرت سو گئی یا اجتماعی غیرت موت کے گھاٹ اتر گئی۔

آخر اس معاشرے کے مرد کا ذہن اتنا چھوٹا کیوں ہے کہ وہ عورت کو اتنا حقیر سمجھتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے اعلٰی تعلیم یافتہ لوگ بھی بیٹوں کو بیٹیوں کی نسبت زیادہ فوقیت دیتے ہیں۔ نچلے طبقے کا عورت سے رویہ دیکھ کر شرم سے نگاہیں جھک جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم نے عورت کو اس کا صیحیح مقام دے دیا ہے لیکن یہ ہم سب کی بہت بڑی بھول ہے۔ عورت باپ کے گھر میں ہو تو شادی تک پابندیوں میں گھری رہتی ہے اور شادی کے بعد سسرال والوں کی پابندیاں جھیلنی پڑتی ہیں،کبھی سسرال والوں کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہو جائے تو اس کا شوہر طاقت استعمال کر کے اسے مارپیٹ سکتا ہے اور طلاق جیسا گھناو ¿نا لفظ سنا کر اسے ذلیل و رسوا کرتا ہے۔ عورت کیا کیا باتیں اور کون کون سے ظلم برداشت نہیں کرتی، اس کے باوجود وہ سارا دن کولہو کے بیل کی طرح کام کرتی ہے گھر کو بناتی سنوارتی ہے، بچوں کی تربیت کرتی ہے لیکن بدلے میں اسے کیا ملتا ہے ذلت اور رسوائی کا تمغہ۔لیکن اہم سوال جو میں ایسے معاشرے میں رہے کر دیکھا رہا ہوں لیکن ان کے جواب نہیں ہیں کہ آخر کب تک عورت ان بازاروں میں نیلام ہو گی ،کب اس مسلم معاشرے کو ہوش آے گا کب یہ عورت اپنے گھر کا زیور بنے گئی،کب عام غریب آدمی کی بیٹی کو عزت محفوظ ہو گی،کب مرد حیوان سے انسان بنے گا،کب وہ عورت کی پہچان ماں، بیوی، بہن، بیٹی، کی عام آدمی کی بیٹی کی طرح کرے گا۔کب عورت کو پہچان ملے گی،کب اسلام کے محافظ ان کی عزت کریں گے،کب اس آدمی کو سزاجو طلاق کو مذاق کی طرح سمجھ کر دیتا ہے ایسی عورت کو انصاف ملے گا؟عدالت ،قانون، انسان ہے کوی جو اس جرم کو معاشرے سے روکے ہے کوی جو غریب کی بیٹی کو انصاف دیے ہے،کوئی ہے جو غلط کو غلط اور صیح کرے ؟میں نے الفاظ کا چناو بہترین کرنے والے اور بہترین کالم لکھانے والے دیکھے ہیں لیکن کوئی ہے جو دل سے اپنے عمل سے اس عورت کو طلاق کے عذاب سے روکے،کوئی ہے آواز بلند کرے اپنے عمل کے ساتھ ؟

عورت کے چار فورس ہیں۔ ماں، بیوی، بہن، بیٹی، ان چاروں رشتوں میں وہ پیار و محبت کی سچی تصویر ہے کیونکہ اس کا ضمیر محبت سے اٹھا ہے۔ وہ جب محبت کرتی ہے تو ٹوٹ کر کرتی ہے اور اس میں کسی کو ذرہ برابر بھی شریک نہیں کر سکتی۔ اگر کسی کے سامنے تن جائے تو ٹوٹ سکتی ہے جھک نہیں سکتی۔ عورت زمین پر رینگنے والا کیڑا نہیں، عورت احساسات سے عاری نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی انسان ہے۔
Attique Aslam Rana
About the Author: Attique Aslam Rana Read More Articles by Attique Aslam Rana: 13 Articles with 21899 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.