سبھی مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ رکھ نیچی نظر اپنی

کل کی بات ہے" جب آتش جوان تھا" کا مصرعہ ہماری بھی زبان پہ رہا کرتا تھا۔ آتش کی جوانی محاورۃ استعمال کی ہے۔ وگرنہ یہ تو آگ تھی جو حیوانی رنگ رکھتی ہے۔اور کل سے مراد بھی چند روز پہلے کا ذکر نہیں کر رہا ہوں۔ کیونکہ اگر پچیس تیس سال لکھ دیتا تو کہا جاتا پرانی بات ہے۔ رات گئی بات گئی ۔اگر دن پچیس سال پرانا ہو تو بات پھر بھی رہ جائے گی۔ باتوں باتوں میں یہ بتانا تو بھول گئے کہ عنوان میں ایک مصرعہ کا کیا کام دوسرے مصرعہ کے بنا تو تحریر نا مکمل رہے گی۔ چلیں پہلے اسے مکمل کرتے ہیں۔
سبھی مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ رکھ نیچی نظر اپنی
کوئی ان سے نہیں کہتا نہ نکلو یوں عیاں ہو کر

بات مختصر اور قصہ شروع کرتے ہیں۔ قصہ سنانے والے داستان گو تو ہیں نہیں۔ جو ایک دفعہ کا ذکر ہے سے ایک کہانی بیان کریں۔ بات تو شروع ہوئی تھی آتش سے جو بات بے بات بھڑک اٹھتا۔ جب یہ ارادہ ہی کر لیا کہ پانی سر سے بھی گزر جائے غصہ میں ڈوبے گے نہیں۔ سو غوطے کھا کھا کر تیرنا سیکھ ہی لیا۔

ایک بار جو ٹرین کا فرسٹ کلاس کا ٹکٹ ہاتھ میں اور بیٹھے سیکنڈ کلاس میں اور وہ بھی کسی کی مہربانی سے اس کی برتھ پہ تو پسینہ ماتھے سے بہنے نہیں دیا۔ ٹکٹ چیکر نے جب ہمیں غلط جگہ بیٹھے پایا تو قبضہ ختم کرنے کا حکم صادر فرما دیا۔ جلے بھنے تو پہلے ہی بیٹھے تھے۔ اس سے پہلے کہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا۔ کمپارٹمنٹ کے ہمدرد بھڑک اٹھے کہ پہلے ہی جناب سیکنڈ کلاس میں چھت پر لٹکے ہیں۔ اب یہاں سے کہاں پہنچاؤ گے۔ اس دوران ہم مونگ پھلی اور چلغوزے بے دھڑک چھیلتے رہے۔

بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی جب روزانہ ہی ملازمت میں ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر پلے پڑ جائے اور وہ بھی ویگن کا جہاں داخلہ تو انسانوں کا ہوتا ہے۔ مگر بیٹھنا بھیڑ بکریوں جیسا۔ اتنے کم پیسوں میں تو ایسی ٹرانسپورٹ ہی نعمت ہوتی ہے۔

خواہشیں تو ایسی ایسی تھیں کہ یار لوگ کہہ دیتے"نہ نو من تیل ہو اور نہ رادھا ناچے "اگر تیل پورا بھی ہو جاتا تو ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا والی ضرب المثل رہ جاتی۔ مگر بچنے کی امید پھر بھی کم ہی رہتی ہے۔ انگلیوں پر نچانے والے فنکارانہ صلاحیتیں بروئے کار لے آتے ہیں۔ ایک ہماری انگلیاں ہیں جہاں شعلہ سلگتا تو انگلیاں ناچتی ہیں۔ بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ذکر تو ویگن کے سفر کا ہو رہا تھا۔ شدید سردی، بند شیشے ہوں اور انگلیوں میں سگریٹ ناچے تو دھوئیں کے بادل ای این ٹی یعنی آنکھ ناک گلا کو دعوت تکلیف دیتے ہیں۔ آتش کو ہلکی آنچ پہ رکھا اور شعلہ بجھانے کی ترغیب دے ڈالی۔ مگر ہماری تجویز ذاتی عناد قرار دے دی گئی کہ پوری وین میں اکیلے ہم ہی ای این ٹی کی تکلیف میں مبتلا ہونے کی شکائت کر رہے ہیں۔ دوسرے مسافر" سفر خاموشی سے کریں "کے کلیہ پر عمل پیرا تھے۔ صبر کا دامن ہم نے ہاتھ سے پھر بھی نہ جانے دیا۔ اس سے پہلے کہ کہیں آتش بھڑک اٹھے۔ ماچس جلا کر اپنا سگریٹ سلگا لیا اور اپنے روزانہ کے ہمسفر دوست کو بھی اس نیکی کے کام میں شریک کر لیا۔ دھوئیں کی مقدار بڑھنے سے بند وین کے تمام مسافر ای این ٹی کی تکلیف میں مبتلا ہو گئے۔ اور لگے کوسنے۔ اگر پہلے ہی ساتھ میں بول اٹھتے کہ " یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے " تو کھانسنے سے پہلے ہی معاملہ دب جاتا۔ لیکن پھر بھی" دیر آید درست آید"۔ اگلا سفر جناب ای این ٹی مریضوں کے زیر عتاب رہے۔ اور ہم ضمیر جگا کر یا غصہ دلا کر تیزی سے پاس گزرتے درختوں کے نظارہ کے مزے لوٹتے رہے۔

مزے تو ہم پتنگیں لوٹنے میں بھی لیتے رہے ہیں۔ لیکن یہ تب کی بات ہے جب آتش نادان تھا۔ کٹی پتنگ اور خالی ویگن کے پیچھے بھاگنا کبھی بھی اچھا تجربہ نہیں رہا۔ تجربے تو اور بھی بہت سے ہیں۔ ایک شعبہ سے آج کے لئے ایک ہی کافی ہے۔

ہر سفر کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ سفر کاٹنے کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہوائی جہاز کے سفر میں کھڑکی سے باہر جھانکنے سے سفر نہیں کٹتا۔ اس لئے تو ایک نشست ایک سکرین اور ایک ہیڈ فون سے منسلک سفر کی صعوبت گھٹاتی ہے۔ اب اگر ہیڈ فون کی ایک پن ٹوٹ کر ایسی پھنسے کہ نئے ہیڈ فون کے داخلہ کا راستہ روک لے۔ تو ائیر لائن کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے کیا۔ جی ہاں وہی تو اپنی پی آئی اے کا ہم سفر ہونے کا اعزاز حاصل ہوتا رہا ہے۔ جانے ائیر ہوسٹس کون کون سے کچن کے اوزاروں سے پن نکالنے کی ناکام کوشش کر چکی تھی۔ سارا جہاز ای این ٹی کے مزے لے رہا تھا یعنی کھانا پینا ائیر کنڈیشنر کی ٹھنڈی ہوائیں اور کانوں میں رس گھولتے گانے۔ یہاں ای سے مراد آنکھ نہیں کان لیا جائے۔ اس بار بھی ایک نیا تجربہ کیا۔ کیونکہ ویگنوں کے سفر میں گھٹنے درد کی شکایت سے روشناس ہوئے۔ اب درد کے روگی تھے۔ اکانومی کلاس پرانے زخم تازہ کرنے کا سبب ہوئی تو پی کلاس میں جا گھسے۔ بزنس کلاس نے ہمیں پہلے کبھی قریب نہ بھٹکنے دیا۔ اب ہم خود قریب جانے سے کتراتے ہیں۔ یہ وقوعہ پی کلاس کا ہے جو اکانومی کلاس سے صرف اتنی بہتر رہی کہ کھانے سے پہلے گیلا گرم تولیہ استعمال کرنے کو دیا جاتا ہے۔

"پلٹ تیرا دھیان کدھر" اگر آپ نہ بھی کہتے تو میں واپس وہیں آنے والا تھا۔ جب پن نکالنے کی ہر کوشش ناکام ہو گئی تو پونے دن کے سفر میں مزید کوفت سے بچنے کے لئے سیٹ کی تبدیلی کا عندیہ دیا گیا۔ ارد گرد نظر دوڑائی تو آگے والی چار سیٹوں پر ایک خاتون پاؤں پھیلائے خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھیں۔ اور ہم سکرین پر نمودار ہونے والی تصویروں کی آواز سننے سے لاچار۔ بائیں جانب انہی خاتون کے شوہر نامدار ایک نشست پر خود اور ساتھ والی دو پر غیر ضروری سامان رکھ کر قبضہ ظاہر کر رہے تھے۔ جیسے بسوں میں اکثر سفر کرنے والے دیہاتی کھڑکی سے اپنا پرنا یعنی سافہ خالی نشست پر باہر سے ہی پھینک کر دھکم پیل سے بس کے اندر بعد میں داخل ہوتے اور قبضہ پہلے حاصل کر لیتے۔ وہاں لڑ جھگڑ کر قبضہ ختم ہوتے تو کئی بار دیکھ چکے تھے۔ مگر یہاں واسطہ ایک پڑھے لکھے ریٹائرڈ افسر کے ساتھ پڑا جو سفید بالوں کے نیچے ٹائی کوٹ میں ملبوس اپنے دفتر میں ناک کے نچلے حصے سے فائلوں پر نظریں جمائے دستخط کرنے کا منظر پیش کر رہا تھا۔

اب یہ کسی سرکاری افسر کا دفتر تو تھا نہیں۔ سرکاری ائیر لائن ضرور تھی۔ تو ہم بھی ایک عدد عینک کے ساتھ تیسری نشست پر جا براجمان ہوئے۔ مگر ہیڈ فون کانوں میں لگانے سے پہلے ہی بھاری رعب دار آواز نے چونکا دیا کہ جناب آپ یہاں کیسے تشریف لائے۔ اپنی نشست پر تشریف رکھیں۔ دیکھتے نہیں ہم یہاں بیٹھے ہیں۔

بڑی مشکل سے آتش کو سنبھالا دیا اور عرض پردازی میں آنے کی غرض بیان کی۔ مگر جناب نے ہمیں کھری کھری سنا کر اپنا قبضہ بحال کرا ہی لیا۔ اگر وہیں غصہ کا اظہار کرتے تو دیکھنے والے کہتے کہ بزرگ سے بات کرنے کا سلیقہ نہیں ان پڑھ اجڈ کہیں کا۔ ہونٹوں کو دانتوں کے نیچے دبائے " بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے " گاتے ہوئے وہیں آ بیٹھے۔ پھر اس کے بعد آتش جو بڑھکا تو دیکھنے والوں نے ضرور کہا ہو گا کہ " گرا گدھے سے غصہ کمہار پر " والی بات ہے یہ تو۔

پی آئی اے کے عملہ کو لائن حاضر کیا کہ جناب پہلی مرتبہ اکانومی سے پی کلاس سفر کا آغاز کر رہے ہیں جہاں ہم " ڈی گریڈ " ہو رہے ہیں۔ ہمیں تو اپنی نشست پر ہی ہیڈ فون لگانا ہے۔ تو ایک کے بعد ایک اپنی تمام توانائیاں ضائع کر کے بھی ہماری ایک ادنیٰ خواہش پوری نہ کر سکے۔ پوری ہوتی بھی کیسے۔ دوسروں سے خوش اخلاقی سے پیش آنے والے اور خدمت سر انجام دینے والے نازک ہاتھ تو ملازمت کے حصول میں مشکل سے کامیاب ہوئے تھے۔ اب مستری تو تھے نہیں کہ ٹھوک ٹھاک کر پن نکال دیتے۔ حالانکہ اتنا تردد کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک نہتی پن کے پیچھے سارا عملہ ہاتھ دھو کر پڑ گیا۔ ایک بزرگ ریٹائرڈ افسر کو ہی آنکھیں دکھا دیتے تو بات بن جاتی۔

ہم نے بھی سیدھی انگلی سے گھی نکلتا نہ دیکھ کر اپنے تیور ٹیڑھے کر لئے کہ پی آئی اے کے اعلیٰ افسران تک اپنا مدعا پہنچائیں گے۔ انصاف کے حصول تک پی آئی اے میں سفر کے بائیکاٹ کی دھمکی بھی دے ڈالی جو کارگر ثابت ہوئی۔ اور ہمیں اپنی پسند کی نشست حاصل کرنے کا حق مل ہو گیا۔ تو پھر کیا۔ ہاتھ آیا موقع کھو دیتے۔ جہاں بزرگ کی بیگم لیٹ کر سہانے سپنے دیکھ رہی تھیں۔ درمیان والی نشست پر انگلی رکھ دی۔ چار و نا چار بیگم خاوند کے پہلو میں بٹھا دی گئیں اور ہم چاروں نشستوں پر براجمان ہوئے۔ اس کے بعد میرے آتش کو ٹھنڈی پیپسی سے مسلسل ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔

اگر بات یہیں پر ختم ہوتی تو ہیپی اینڈ ہوتا۔ مگر کہانی چند گھنٹوں کے بعد نئے رنگ میں ڈھل گئی۔ وہی خاتون اٹھ کر میرے پاس آئیں اور اپنی کمر درد کا واسطہ دے کر اپنے خاوند کے ناروا رویے پر ندامت کا اظہار کیا تاکہ میں ان کی آرام دہ بستر نما نشستوں سے دستبردار ہو جاؤں۔

ہم نے تعلیم سے دولت نہیں کمائی صرف شعور پایا ہے۔ اگر دولت کما لیتے تو ریٹائرڈ افسر کی طرح شعور سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ آخر کار ہم ان کی تکلیف کا اندازہ کرتے ہوئے اپنے حق سے دستبردار ہو گئے۔ اور اسی جگہ جا بیٹھے جہاں سے کبھی اٹھائے گئے تھے۔ لیکن فرق صرف اتنا تھا کہ ساتھ بیٹھنے والا پہلے سانپ کی طرح پھنکار رہا تھا۔ اب بھیگی بلی بنا بیٹھا تھا۔ تعلقات میں کشیدگی کم ہونے پر دوران گفتگو معلوم ہوا کہ وہ اپنے ڈاکٹر بیٹے سے ملنے ودیش یاترا جا رہے تھے۔ جو کسی بڑے ہسپتال میں بڑا ڈاکٹر تھا۔

اس سفر کا تجربہ بہت اچھا رہا۔ اس لئے نہیں کہ دوران سفر کیا ہوا۔ بلکہ جو وی آئی پی پروٹوکول عملہ کی طرف سے حاصل ہوا۔ اتنی پزیرائی تو کبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔

کہانی کو یہیں ختم نہ سمجھیں یہ زندگی ہے جو چلتی رہتی ہے۔ دن اور رات کے درمیان میں اپنا سفر طے کرتی ہے۔ یہاں بے شمار واقعات ایسے پیش آتے ہیں کہ انسان یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

سبھی مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ رکھ نیچی نظر اپنی
کوئی ان سے نہیں کہتا نہ نکلو یوں عیاں ہو کر
Mahmood ul Haq
About the Author: Mahmood ul Haq Read More Articles by Mahmood ul Haq: 93 Articles with 96078 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.