کشمیر آگ وآہن کی لپیٹ میں، حالات انتہائی سنگین

”....ہمہ گیرعوامی ایجی ٹیشن وادی کے کسی ایک علاقہ تک محدود نہ ہے بلکہ اس کا دائرہ اس مرتبہ بہت وسیع ہے۔ بھارت کو دیر سویر یہ تسلیم کرنا ہی ہوگا کہ کشمیر سیاسی مسئلہ ہے ، بہتر یہ ہوگاکہ وقت ضائع کئے بغیر اس حقیقت کو ابھی تسلیم کر لیاجائے۔کشمیر مذہبی سوال نہیں ہے نہ ہی یہ ہندو¿ بنام مسلم کاسوال ہے بلکہ یہ ایک سیاسی سوال ہے جس کا جواب مرکزی سرکار کوہرحال میں جواب دینا چاہئے ©©‘....‘
جموں//سی پی آئی ایم کے سنیئر رہنما اور رکن اسمبلی کولگام محمد یوسف تاریگامی نے وادی کشمیر کی صورتحال کو انتہائی تشویش ناک اور سنگین قرار دیتے ہوئے مرکزی سرکار پر زور دیا ہے کہ حالات کو معمول پر لانے کے لئے فوری طور اعلیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات شروع کئے جائیں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے تجویز پیش کی ہے کہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیکر کشمیر روانہ کی جائے جوکہ مختلف اعلیحدگی پسند تنظیموں کے رہنماؤں اورسول سوسائٹی سے بات چیت کرے۔انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ کے علاوہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کی گونج ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ نریندر مودی جوکہ کبھی ’من کی بات‘تو کبھی ’تن کی بات‘اور کبھی ’دھن کی بات‘کرتے ہیں، نے اس بارے کوئی لب کشائی نہ کی۔ وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ اس اپنے من کی بات کہیں، تاکہ کچھ پتہ چل سکے۔تاریگامی نے انکشاف کیا ہے کہ کشمیر کے موجودہ تشویش ناک حالات میں ”مین سٹریم سیاسی جماعتیں“Irrelevant ’غیرمتعلقہ‘ہوکر رہ گئی ہیں، ایسی صورتحال میں حالات کو معمول پر لانے کے لئے اعلیحدگی پسندتنظیموں کے ساتھ مذاکرات کے سوا کوئی چارہ نہ ہے۔ سرینگر سے جموں پہنچنے پر یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تاریگامی نے کہاکہ کشمیر اس وقت دردناک صورتحال سے گذر رہاہے، وادی کے حالات انتہائی سنگین ہیں، موجودہ حالات کو روایتی انداز سے دیکھنا بہت بڑی غلطی ہوگی، صورتحال کو گہرائی سے جانچنے کی ضرورت ہے۔ اس کو ایک اور بے چینی(Unrest)کانام دیکر نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔سی پی آئی رہنما نے وادی کی اندرونی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے بتایاکہ”ہمہ گیرعوامی ایجی ٹیشن وادی کے کسی ایک علاقہ تک محدود نہ ہے بلکہ اس کا دائرہ اس مرتبہ بہت وسیع ہے، قاضی گنڈ جس سے پنجاب کا ’گرداسپور‘کہاجاتا تھا میں بھی اس مرتبہ عوام سراپا احتجاج ہے۔ اس مرتبہ1989-90،2008،2009اور2010سے حالات مختلف ہیں، اگر موجودہ صورتحال کونوے کی دہائی کے بعد سے وادی میں پیدا حالات سے موازنہ کیاجائے تو اس مرتبہ صورتحال کے کئی پہلووں سنگین ہیں“۔ان کا کہنا تھاکہ مرکزی سرکار اور بھارت کے دیگر حلقوں سے اکثریہ کہاجاتا ہے کہ چند مٹھی بھر لوگ کشمیر کے حالات خراب کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کو خود آکر زمینی حقائق دیکھنے چاہئے کہ اس وقت مٹھی بھر لوگ نہیں بلکہ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ وادی کے اندر بمشکل ہی کوئی گھر ایسا ہوگا جس کا کوئی نہ کوئی فرد اس وقت سڑکوں پر اتر کر ایجی ٹیشن میں شامل نہ ہوگا۔صرف یہی نہیں بلکہ مین سٹریم کی مختلف سیاسی جماعتوں بشمول پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس، کانگریس، بھارتیہ جنتا پارٹی، پینتھرز پارٹی، پیپلز کانفرنس وغیرہ سے وابستہ کارکنان وعہدادران بھی اس ایجی ٹیشن کا حصہ ہیں۔ تاریگامی نے نئی دہلی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ مرکز کے اندر اقتدار میں آنے والی سبھی سرکاروں نے کشمیر مسئلہ کے تئیں صدق دلی سے کام نہیں کیا، اس مسئلہ کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیاگیا۔آج تک مرکزی سرکار کی طرف سے جوبھی اقدامات کئے گئے وہ صرف مخصوص صورتحال سے نپٹنے اور آگ کو بچھانے کے لئے فی الوقتی طریقہ کار اپنایاگیا بلکہ مسئلہ کا دائمی حل بارے کبھی بھی بات نہ ہوئی۔ جب جب کشمیر کے اندر حالات ناساز ہوئی، عوامی ایجی ٹیشن ہوئی تب تب مرکزی سرکار نے اڈہاک طریقے اپنائے۔حکومت ہند نے کشمیر کی غیر یقینی سیاسی صورتحال سے نپٹنے کے لئے کوئی ایساقدم نہ اٹھایا جس سے مسئلہ کو حل کرنے میں رہنمائی ملتی۔ حکومت ہند نے جواقدامات کئے بھی ان پر کوئی عمل نہ ہوا،مثال کے طور پر وزیر اعظم کی سربراہی میں کل جماعتی وفد کشمیرآیا، اعلیحدگی پسندوں سے بات چیت کی، اس کل جماعتی وفد نے مرکز کو کچھ سفارشات پیش کی تھیں لیکن ان سفارشات کا کیا کیاہو، کچھ اتہ پتہ نہیں۔ دلیپ پڈگاؤکر، این این ووہرا، پنت کی قیادت میں مذاکراتکاروں کو الگ الگ ادوار میں کشمیر بھیجاگیا، انہوں نے بھی مین سٹریم اور اعلیحدگی پسند سیاسی رہنماؤں سے بات چیت کرنے کے بعد اپنی سفارشات پر مبنی رپورٹ پیش کی، اس پر بھی کوئی عملدرآمد نہ ہوا۔ تاریگامی نے کہاکہ مرکزی سرکار سیکورٹی فورسزکے ذریعہ بے تحاشہ طاقت اور ظلم وستم کے ذریعہ زبردستی آگ کوبجھانا چاہتی ہے لیکن کشمیر جوکہ اس وقت آگ وآہن میں جل رہاہے، میں اگر یہ مان بھی لیاجائے کہ آگ بجھ جائے گی مگر چنگاری پھر بھی باقی رہے گی جوکہ اس بھی وقت بھیانک شعلے کا روپ اختیار کرکے پوری ریاست، ملک اور برصغیر ہند کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔زیادہ فوج کشمیر میں بھیجنے سے کبھی بھی اورکسی بھی صورت میں مسئلہ حل نہیں ہوگا۔وادی میں حالات کو معمول پر لانے کے لئے مخصوص اعتماد سازی اقدامات اٹھانے ہونگے ۔ اس بارے وضاحت کی درخواست پر تاریگامی نے کہاکہ سب سے بڑا اعتماد سازی کا قدم یہ ہوگا کہ بھارت یہ تسلیم کر لے کہ کشمیرسیاسی مسئلہ ہے، اس سے عظیم جمہوری ملک کی شان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی، بلکہ پوری دنیا کو اس ہندوستان کی جمہوریت پر فخر ہوگا۔ کشمیر سیاسی مسئلہ ہے ، کو تسلیم کر کے بھارت اس کے حل کیلئے کوششیں تیز کرے۔ تاریگامی نے کہاکہ کشمیر کے اندر وزیر داخلہ کے احکامات کے باوجود پیلٹ گن کا بے دریغ استعمال ہورہا ہے، وادی بھر کے اسپتالوں میں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے، بوڑھے، نوجوان زیر علاج ہیں، سینکڑوں کی تعداد میں معصوم بچے بینائی سے محروم ہوئے ہیں،صورتحال بہت ہی زیادہ سنگین ہے۔ انہوں نے جموں کی عوام سے اپیل کی کہ وہ کشمیر کی موجودہ صورتحال سے پیدا درد کے حصہ دار بنیں، ہماری تاریخ ایک ہے۔ ریاست میں کئی اتارچڑاؤ، گلے شکوؤں کے باجوود ، اس کی وحدانیت قائم ہے۔ انہوں نے جموں وکشمیر کو مستقبل کو تعمیر کرنے کے لئے جموں، کشمیر اور لداخ کے لوگوں کو مل کر کوششیں کرنا ہوگی۔ خطوں کے درمیان ایکدوسرے سے چیمبر آف کامرس، تجارتی، سماجی، مذہبی تنظیمیں، سول سوسائٹی کے ممبران اور صحافی حضرات ملیں۔ آپس میں تبادلہ خیال کریں۔یہ پوچھے جانے پر کہ کشمیر میں جنگجو برہان وانی کے مارے جانے کے بعد ہی کیوں صورتحال خراب ہوئی تو اس پر تاریگامی نے کہاکہ کشمیر ایک مسئلہ ہے اور اس حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ اس کو حل کرنے کے تئیں حکومت ہند کی ہٹ دھرمی، وعدہ خلافی، اسمبلی انتخابات میں ایکدوسرے کے خلاف محاذ کھولنے کے بعد پی ڈی پی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا مل کر اقتدار میں آنے سے لوگوں کے دلوں میں کافی عرصہ سے لاوا پک رہا تھا، برہانی وانی تو صرفSymbolبنا، اب یہ لاوا پھٹ چکا ہے ، جس کا رد عمل اب دیکھاجارہاہے۔ کشمیری پنڈتوں کی نوے کی دہائی میں وادی سے نقل مکانی بھی مسئلہ کشمیر (سانحہ)کا ہی ایک حصہ تھی۔ کشمیر مذہبی سوال نہیں ہے۔ یہ ہندو بنام مسلم نہیں ہے، یہ ایک سیاسی سوال ہے جس کا جواب مرکزی سرکار کوہرحال میں جواب دینا چاہئے ۔انہوں نے مرکزی سرکار سے اپیل کی کہ فوری طور پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیکر اعلیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے بھیجا جائے، اگر زیادہ دیر ہوئی تو حالات بے قابو ہوجائیں گے۔ انہوں نے وزیر صحت بالی بھگت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ وادی کے ساتھ اسپتالوں میں دوائیوں کا سخت فقدان ہے جبکہ وزیر غلط بیان بازی دے رہے ہیں کہ ادویات کا وافر سٹاک موجود ہے۔ یہ صرف لوگوں کو گمراہ کرنے کی بات ہے بلکہ زمینی حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں۔
 
Altaf HUssain Janjua
About the Author: Altaf HUssain Janjua Read More Articles by Altaf HUssain Janjua: 35 Articles with 56092 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.