حقیقی خواب
(Dr. Muhammed Husain Mushahid Razvi, Malegaon)
منصور کیا تم نے آج کا اخبار پڑھا
ہے۔ ابو عبداللہ نے منصور کو بازار میں دیکھا تو روک کر پوچھا۔نہیں،
عبداللہ کوئی خاص بات ہے کیا۔
خاص بھی اور حیرت انگیز بھی، مفتی اعظم عراق کے فتویٰ پر شاہ عراق نے حضرت
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے مزارات کھول
کر سلمان پاک میں منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ابو عبداللہ نے جواب دیا۔
لیکن تیرہ سو سال گزرنے کے بعد آخر یہ سب کیوں کیا جارہا ہے۔ منصور نے حیرت
کا اظہار کیا۔
تفصیلات تو مجھے بھی نہیں معلوم، ایسا کرتے ہیں منیب خلجی سے معلوم کرتے
ہیں۔ اس کا شاہ کے دربار میں آنا جانا ہے اسے یقینا معلوم ہوگا۔ ابو
عبداللہ نے تجویز پیش کی۔
دونوں کا رخ منیب خلجی کے گھر کی جانب ہوگیا۔
٭....٭....٭
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبداللہ تھی اور تعلق قبیلہ
غطفان سے تھا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے راز دان تھے۔ آپ کے اور آپ کی
والدہ دونوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے بخشش کی دعا کی تھی۔
آپ رضی اللہ عنہ کئی غزوات میں شریک رہے۔ عراق فتح ہونے پر حضرت عمر رضی
اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو نواح د جلہ کا افسر مقرر کیا۔ بتیس ہجری
میں آپ نے آذربائیجان فتح کیا اور بعد میں مدائن کے حاکم بھی بنائے گئے۔ آپ
رضی اللہ عنہ نے ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قرآن پاک کی نقلیں کراکر
ساری اسلامی سلطنت میں پھیلانے کا مشورہ دیا تھا۔
حضرت جابر بن عبداللہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برگزیدہ صحابی ہیں۔
عقبہ ثانیہ میں والد سمیت مسلمان ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر قرض
کی ضرورت پڑتی تو آپ ہی سے لیتے۔ متعدد غزوات میں شریک رہے۔ بیعت رضوان اور
حجتہ الوداع کے موقع پر بھی موجود تھے۔
٭....٭....٭
بغداد سے چالیس میل دور ایک مقام کا نام مدائن تھا جس کا موجودہ نام سلمان
پاک ہے، دائیں طرف تھوڑے فاصلے پر دریائے دجلہ بہتا ہے۔ یہاں حضرت سلمان
فارسی رضی اللہ عنہ،حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے
مزارات ہیں آخر الذکر دو صحابہ کرام کے مزارات آج سے کچھ دہائیاں قبل عراق
کے شاہ فیصل اول کے دور میں دوبارہ تدفین کے بعد بنائے گئے ہیں اس سے قبل
یہ دو مزارات سلمان پاک سے تقریباً دو فرلانگ کے فاصلہ پر تھے۔
ایک رات عراق کے شاہ فیصل اول کے خواب میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ تشریف
لائے اور فرمایا کہ میرے مزار میں پانی اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے مزار
میں نمی آنا شروع ہوگئی ہے لہٰذا ہمیں یہاں سے منتقل کرکے دریائے دجلہ سے
ذرا فاصلہ پر دفن کیا جائے۔ دو راتوں تک یہ خواب شاہ عراق کو مسلسل آتا رہا
لیکن وہ مصروفیات کے سبب بھول گئے۔ تیسری رات عراق کے مفتی اعظم کو حضرت
حذیفہ رضی اللہ عنہ نے خواب میں وہی بات کہی اور کہا ہم دو راتوں سے بادشاہ
سے کہہ رہے ہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں آپ بادشاہ کی توجہ دلائیں۔
مفتی اعظم نے ٹیلی فون پر وزیر اعظم نوری السعید پاشا کو صورتحال سے آگاہ
کیا اور پھر وزیر اعظم کے ساتھ بادشاہ سے ملاقات کی اور صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم کے حکم پر عمل کرنے پر زور دیا۔ شاہ عراق نے کہا کہ اچھّا تو پھر
آپ فتویٰ دیجیے چنانچہ یہ فتویٰ شاہ عراق کے اس فرمان کے ساتھ عید الاضحی
کو نماز ظہر کے بعد حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر رضی
اللہ عنہ کے مزارات کھولے جائیں گے۔اخبارات میں شائع کرادیا گیا۔ فتویٰ اور
فرمان کا اخبارات میں شائع ہونا تھا کہ تمام عالم اسلام میں جوش و خروش اور
ہلچل پھیل گئی۔ اس وقت کی مشہور رائٹر نیوز ایجنسی اور دیگر کے ذریعے یہ
خبر دنیا بھر میں پھیل گئی۔
یہ حج کا زمانہ تھا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مکّہ معظمہ آئی
ہوئی تھی، انہوں نے اور دنیا کے دیگر کئی ممالک نے شاہ عراق سے درخواست کی
کہ قبر کشائی عید الاضحی کے کچھ دن بعد کی جائے تاکہ وہ بھی صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم کے جنازے میں شامل ہوسکیں۔
شاہ عراق کے لیے یہ بہت مشکل مرحلہ تھا۔ ایک طرف عالم اسلام کا اصرار اور
دوسری جانب مسلسل آنے والے خواب میں جلد از جلد منتقلی کی ہدایت۔ آخر دریا
کے رخ پر دس فٹ کے فاصلے پر ایک لمبی اور گہری خندق کھدوا کر اس میں سیمنٹ
اور بجری وغیرہ بھروادی گئی اور شاہی فرمان جاری ہوا کہ اب مزارات کی
منتقلی عید کے دس روز بعد کی جائے گی۔
عراق کی حکومت نے اس موقع پر دوسرے ممالک سے آنے والوں پر کسٹم پاسپورٹ
وغیرہ کی تمام شرائط ختم کردیں۔ اس موقع پر مختلف ممالک کے وفود عراق آنا
شروع ہوگئے۔
آخرہ وہ دن بھی آگیا جب مختلف مذاہب مسالک اور عقائد سے تعلق رکھنے والے
لاکھوں افراد اسلام کی حقانیت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے سلمان پاک
میں جمع ہوگئے۔ سرکاری وفود مختلف ممالک کے سفراء، شاہ فیصل اور مفتی اعظم
اور لاکھوں افراد کی موجودگی میں مزارات کو کھولا گیا تو واقعی حضرت حذیفہ
رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک میں پانی اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی قبر
مبارک میں نمی آچکی تھی۔ ایک کرین کے ذریعے جس پر اسٹریچر نصب تھا حضرت
حذیفہ رضی اللہ عنہ کی نعش مبارک کو زمین سے اس طرح اٹھایا گیا کہ ان کی
نعش خودبخود کرین پر نصب اسٹریچر پر آگئی۔ اسٹریچر کو کرین سے علیحدہ کیا
گیا اور شاہ عراق، مفتی اعظم عراق، شہزادہ فاروق والی مصر اور ترکی وزیر
مختار نے اسٹریچر کو کندھا دیا اور شیشے کے ایک بکس میں رکھ دیا۔ اسی طرح
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی بھی نعش مبارک کو نکالاگیا۔
دونوں صحابہ رضی اللہ عنہم کا کفن حتیٰ کہ ریش ہائے مبارک بالکل صحیح حالت
میں تھے اور دیکھ کر ہرگز یہ نہیں لگتا تھا کہ دونوں صحابہ رضی اللہ عنہم
کی رحلت کو تیرہ سو سال بیت گئے ہیں بلکہ یوں لگتا تھا کہ دو تین گھنٹے
ہوئے ہیں۔
سب سے حیرت کی بات جو نظر آئی وہ یہ تھی کہ دونوں صحابہ رضی اللہ عنہم کی
آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور ان میں ایک پراسرار چمک تھی۔ لوگوں نے ان کی
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا چاہا لیکن ان کی آنکھیں اس چمک کے آگے
ٹھہرتی نہیں تھیں اور جن آنکھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا ان
آنکھوں میں کس کی نظر ٹھہر سکتی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر عالمی شہرت یافتہ
جرمنی کے ماہر امراض چشم نے مفتی اعظم کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔
صحابہ رضی اللہ عنہم کی لاشیں شیشے کے بکس میں رکھی گئیں۔ رونمائی کی غرض
سے چہروں سے کفن ہٹادیا گیا۔ عراقی فوج نے باقاعدہ سلامی دی۔ مجمع نے نماز
جنازہ پڑھا۔ بے شمار لوگوں نے جنازہ کو کندھا دینے کی سعادت حاصل کی۔
مزارات کھلنے سے لے کر آخر تک تمام کارروائی ایک جرمن فلم ساز کمپنی نے
وہاں موجود لاکھوں افراد کو تیس فٹ لمبی اور بیس فٹ چوڑی اسکرین پر دکھائی،
مزید چار بڑی اسکرین لگائی گئیں جس کے سبب تقریباً پانچ لاکھ افراد نے یہ
منظر دیکھا جس میں خواتین اور بچّے بھی شامل تھے ورنہ زیارت کے شوق میں
ہزاروں افراد کا ریل پیل اور بھگڈر کے نتیجے میں جاں بحق ہونے کا خطرہ
درپیش تھا۔
اس کے بعد جنازہ کو سلمان پاک کی طرف لے جایا گیا لوگوں نے راستے میں منوں
پھول برسائے۔ ہر طرف اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں کی گونج تھی۔ کئی جگہ
راستے میں جنازے رکوائے گئے اور بالآخر دو فرلانگ کا فاصلہ چار گھنٹے میں
طے کرکے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مزار کے پاس پہنچے۔
یہاں مختلف ممالک کے سفراءنے پھول نچھاور کیے، انہی ہستیوں نے جنہوں نے
پہلے نعشوں کو کرین سے اتارا تھا۔ پورے ادب و احترام کے ساتھ پہلے سے تیار
کی گئی قبروں میں سبحان اللہ اور اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں کے درمیان
سپرد خاک کیا۔
بیسویں صدی کے اندر اسلام کی حقانیت کے اس شاندار معجزہ اور واقعہ کو دیکھ
کر اتنے لوگ ایمان لائے کہ اندازہ لگانا مشکل تھا۔یہ واقعہ بلاشبہ رہتی
دنیا تک دین اسلام کی صداقت کو ثابت کرتا رہے گا۔ ان شاءاللہ ٭٭٭٭ |
|