عظمت کے مینار (۱)
(Dr. Muhammed Husain Mushahid Razvi, Malegaon)
خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
پر جب قاتلانہ حملہ کیا گیا تو اس سے آپ رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہوگئے۔ آپ
رضی اللہ عنہ نے چھ احباب پر مشتمل ایک مجلس مشاورت تشکیل دی جس کا مقصد
اگلے خلیفہ کا انتخاب کرنا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے
بعد اس مجلس نے اتفاق رائے سے حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ عنہ کو
خلیفہ منتخب کرلیا۔ اس انتخاب کے بعد تمام مسلمانوں نے حضرت عثمان رضی اللہ
عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ خلیفہ منتخب ہونے اور بیعت کے بعد آپ رضی اللہ عنہ
نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر کھڑے ہو کر ایک پرتاثیر خطبہ
دیا۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے خلافت کے معاملات کی طرف توجہ کی اور
خلافت اسلامیہ کے طول و عرض پر پھیلے ہوئے خطے میں گورنروں اور والیوں کا
تقرر فرمایا اور ان کے لیے ہدایات جاری فرمائیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تمام
ذمّہ داروں کو امانت،دیانت اور خدمت پر عمل پیر اہونے کی تلقین کی۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی زمانہ میں کئی علاقے فتح
ہوئے اور خلافت اسلامیہ میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلاگیا۔ مصر،
ایران، آذر بائیجان، آرمینیہ، قسطنطنیہ غرض مشرق اور مغرب میں اسلامی افواج
نئے علاقوں کو فتح کرتے ہوئے پیش قدمی میں مصروف تھیں۔
عہد عثمانی کا ایک اہم کارنامہ بحری بیڑے کا قیام تھا۔ رومی افواج سمندر کے
راستے سے شام اور مصر کے ساحلی علاقوں پر حملہ آور ہوتی تھیں چوں کہ ان کا
بحری بیڑہ بڑا مضبوط اور منظم تھا اس وجہ سے وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے
میں کامیاب رہتے تھے۔ اس اہم ضرورت اور دشمن کے خطرات سے بچنے کے لیے
مسلمانوں نے ایک مضبوط بحری بیڑہ تشکیل دیا جس نے کئی مواقع پر دشمن کے
حملوں کو پسپا کیا۔ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلامی خلافت وسطیٰ
ایشیا اور شمالی افریقا تک پھیلتی چلی گئی۔ مشرق میں ترکستان اور چین اور
جنوب میں خراسان سے گزر کر کابل نیشا پور تک پہنچ چکی تھی۔ ہر رنگ، نسل،
زبان اور تہذیب و تمدن کے حامل افراد دائرہ اسلام میں بغیر کسی زور زبردستی
کے داخل ہوئے اور خلافت کی حدود میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
اس سارے عرصے میں حکومت کا نظم و نسق بحسن خوبی سرانجام پاتا رہا۔ حضرت
عثمان رضی اللہ عنہ اہم امور میں سرکردہ صحابہ رضی اللہ عنہم اور حکومت کے
ذمّہ داروں سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ ان عسکری مہمات کے علاوہ خلافت عثمانی
رضی اللہ عنہ کا ایک کارنامہ ملت اسلامیہ کو قرآن مجید کی ایک قرات پر جمع
کرنا ہے۔ یہ آپ رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت کے دوسرے سال کا واقعہ ہے کہ
مسلمان آرمینا اور آذر بائیجان کے علاقے میں جہاد کررہے تھے۔ اس زمانے میں
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد بہت تھوڑی رہ گئی تھی۔ عموماً یہ ہوتا
کہ جب کوئی فوج جہاد کے لیے کسی علاقے میں بھیجی جاتی تو اس کے ساتھ کسی
جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ کو ضرور بھیجا جاتا تاکہ ان کی برکت سے اللہ
تعالیٰ فتح عطا فرمائے۔ حضرت خذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ جنہیں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کا راز دار بھی کہا جاتا تھا اور وہ بڑی شان کے مالک
تھے۔ فوج کے مختلف دستوں میں شریک ہوئے اور مصروف جہاد رہے۔ ایک روز وہ ایک
دستے میں شریک تھے کہ نماز کا وقت ہوگیا۔ غالباً یہ مغرب یا عشاءکی نماز
تھی۔ نماز کھڑی ہوگئی، امام صاحب نے ایک خاص لہجے میں قرآن مجید کی تلاوت
فرمائی۔ نماز کے بعد کچھ لوگوں نے امام صاحب سے کہا کہ آپ کی تلاوت درست
نہیں ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے بالکل صحیح پڑھا ہے اور میں نے فلاں
صحابی رضی اللہ عنہ سے قرات سیکھی ہے۔ اعتراض کرنے والے صاحب نے کہا میں نے
بھی فلاں صحابی رضی اللہ عنہ سے سیکھا ہے اور اس لیے میرا کہنا بھی درست ہے۔
یہ فرق اور اختلاف دراصل لہجوں کا تھا۔ اس وجہ سے ان دونوں میں اختلاف پیدا
ہوگیا تھا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ منظر دیکھا تو انہیں اس میں
خطرہ محسوس ہوا کہ دوسری قوموں کی طرح کہیں مسلمان میں بھی قرآن پر اختلاف
شروع نہ ہوجائے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے فوراً لشکر کے سپہ سالار سے
اجازت طلب کی اور فوری طور پر مدینہ پہنچے۔ گرمی کا موسم تھا۔ کئی ماہ کا
سفر کرکے مدینہ پہنچے اور گھر جانے سے پہلے خلیفہ سوّم حضرت عثمان غنی رضی
اللہ عنہ کے پاس گئے اور انہیں سارا واقعہ سنایا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
نے فوری طور پر ایک کمیٹی تشکیل دی اور اس کے ذمّہ یہ کام لگایا کہ وہ قرآن
مجید کو قریشی لہجہ میں تحریر کرے، کیوں کہ یہ سب سے معیاری لہجہ تھا اور
قرآن مجید قریش مکّہ کی زبان ہی میں نازل ہوا تھا۔
اس طرح قرآن مجید کو قریش مکّہ کے اسلوب، ہجے اور لہجے میں لکھا گیا اور
تاکید کی گئی کہ اب تمام قرآن مجید کی اسی لہجہ میں کتابت ہوگی۔ اس موقع پر
ایک خاص اسلوب سے قرآن کی کتابت کی گئی جو رسم عثمانی رضی اللہ عنہ کہلاتی
ہے۔ اس کے بعد سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا لقب جامع الناس علی
القرآن یعنی قرآن پر لوگوں کو جمع کرنے والے، ہوگیا۔
اس کے علاوہ بھی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں متفرق کارنامے
سرانجام پائے۔ حج کے موقع پر حاجیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا
جارہا تھا۔ اس کے پیش نظر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مسجد الحرام میں
توسیع کی غرض سے آس پاس کے مکانات خرید کر مسجد میں شامل کردیے۔ اس طرح
مدینہ منوّرہ میں آبادی بڑھ جانے اور نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہونے سے
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں گنجائش کم ہوگئی تھی۔ حضرت عثمان رضی
اللہ عنہ نے ملحقہ مکانات خرید کر مسجد کی توسیع کی اور اسے پختہ اور
خوبصورت بنوایا۔
مدینہ منوّرہ کو سیلابوں سے محفوظ رکھنے کے لیے حضرت عثمان غنی رضی اللہ
عنہ نے ایک حفاظتی بند تعمیر کرایا۔ مفتوحہ علاقوں کی حفاظت اور استحکام کے
لیے متعدد چھاؤنیاں اور قلعے تعمیر کرائے اور ان میں فوجی دستے تعینات
کیے۔ جوں جوں خلافت اسلامیہ کی حدود میں توسیع ہورہی تھی عثمان غنی رضی
اللہ عنہ نے اس کے مطابق انتظامیہ میں بھی توسیع فرمائی۔ مختلف دفاتر قائم
کیے گئے اور صوبوں میں عمارتیں بنوائی گئیں۔ عوام کی سہولت کے لیے سڑکیں،
پل، مساجد اور مہمان خانے تعمیر کیے گئے۔ راستوں میں جگہ جگہ چوکیاں، سرائے
اور کنوئیں تعمیر کرائے گئے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ذاتی طور پر رحم دل شخصیت کے مالک تھے اور اپنے
عزیز و اقارب اور رشتہ داروں کے ساتھ صلح رحمی کا رویہ اختیار کرتے تھے۔
بعض لوگوں کو ان کے اس رویہ سے شکایت ہوئی تو ان کے خلاف کچھ لوگوں نے
بغاوت کی اور ہنگامہ کھڑا کردیا۔ اصل میں آپ رضی اللہ عنہ کے خلاف یہ
منصوبہ ایک یہودی عبداللہ بن سبا نے تیار کیا۔ اس کا یہ منصوبہ خلیفہ کے
خلاف نہیں بلکہ اسلام کے خلاف تھا۔ اس نے سازش تیار کی جس کا شکار کچھ سادہ
لوح مسلمان بھی ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں کچھ باغیوں نے مدینہ کا محاصرہ کیا
اور بالآخر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو خلافت سے دستبردار ہونے کا کہا
لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے انکار کردیا، کیوں کہ آپ رضی اللہ عنہ
مسلمانوں کے منتخب خلیفہ تھے۔ بالآخر باغیوں نے آپ رضی اللہ عنہ کو اس حالت
میں کہ آپ رضی اللہ عنہ روزہ سے تھے اور قرآن مجید کی تلاوت فرمارہے تھے،
شہید کردیا۔ شہادت کے وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی عمر بیاسی سال تھی۔
آپ رضی اللہ عنہ نے تقریباً بارہ سال حکومت کی۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین |
|