عظمت کے مینار(۲)
(Dr. Muhammed Husain Mushahid Razvi, Malegaon)
اسلام کی روشنی حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کے دل میں پھیل چکی تھی، آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پتا پوچھا، کوہ صفا میں دعوت اسلام کے
مرکزی دار ارقم پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے
دروازے کی جھری سے جھانک کر دیکھا تو عمر رضی اللہ عنہ ننگی تلوار ہاتھ میں
لیے کھڑے ہیں۔ پلٹ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی، اس مجلس
میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، انہوں نے کہا کہ آنے دو، اگر
اچھّی نیت سے آیا ہے تو ٹھیک ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا کام تمام کردوں
گا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے صحابہ رضی اللہ عنہ نے
دروازہ کھولا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اندر تشریف لائے، نبی صلی اللہ علیہ
وسلم ان کی طرف بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا ”عمر! کس نیت سے آئے ہو؟
کیا تم باز نہیں آؤ گے، یہاں تک کہ اللہ تم پر کوئی آفت نازل کردے“ حضرت
عمر رضی اللہ عنہ نہایت عاجزی اور انکساری سے بولے ”یارسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم! میں ایمان لانے کے لیے آیا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے
علاوہ کوئی معبود نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سچے اور برحق رسول
ہیں“۔ ۔آپ رضی اللہ علیہ کی زبان سے قبول اسلام کا اعلان سن کر صحابہ رضی
اللہ عنہ نے اس زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ وادی مکّہ کی پہاڑیاں گونج
اٹھیں۔
قبول اسلام کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
سے عرض کیا ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم حق پر نہیں؟“۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ عرض کیا ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!
جب ہم حق پر ہیں تو اپنا دین کیوں چھپائیں؟“۔
اس وقت تک مسلمان چھپ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی
طبیعت کو یہ بات گوارہ نہ تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ مسلمان علی
الاعلان بیت اللہ میں نماز ادا کریں۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے
جواب میں مسلمانوں کی کم تعداد اور کمزوری کا ذکر کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ
عنہ نے عرض کیا کہ ”خدا کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ
نبی بنا کر بھیجا ہے، میں کوئی ایسی مجلس نہ چھوڑوں گا جہاں میں پہلے کفر
کے ساتھ بیٹھا تھا اور اب اسلام کے ساتھ نہ بیٹھوں“۔
پھر ایسا ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ بیت
اللہ شریف تشریف لے گئے، وہاں مشرکین مکّہ مجلس لگائے بیٹھے تھے۔ حضرت عمر
رضی اللہ عنہ نے قریش کے اس مجمع میں اعلان کیا کہ میں مسلمان ہوچکا ہوں
اور یہاں نماز پڑھنے آیا ہوں، جسے اپنے بچّوں کو یتیم اور بیوی کو بیوہ
بنانا پسند ہو تو وہ مقابلے پر آجائے“۔ عمر رضی اللہ عنہ کی بات سن کر اہل
قریش بہت تلملائے لیکن کسی میں ہمّت نہ ہوئی کہ مقابلے پر آئے۔ آپ رضی اللہ
عنہ نے دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر بیت اللہ میں نماز ادا کی۔
یہ پہلا موقع تھا جب مسلمانوں نے کھل کر بیت اللہ شریف میں نماز ادا کی
تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام سے مسلمانوں کی قوت میں اضافہ
ہوا اور اسلام کی دعوت کھل کر دی جانے لگی، جس کی بدولت اسلام تیزی سے
پھیلنے لگا اور قریش کے ظلم و ستم کے مقابلے میں کمزور مسلمانوں میں عزم و
حوصلہ پیدا ہوا، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو
”فاروق اعظم“ کا لقب عطا کیا جس کے معنی حق اور باطل میں فرق کرنے والا ہے۔
جب نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کا حکم
دیا تو اس موقع پر بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چھپ کر ہجرت کرنے کے بجائے
علی الاعلان ہجرت کی اور کسی میں آپ رضی اللہ عنہ کو روکنے کی ہمّت نہ
ہوئی، مدینہ پہنچ کر آپ رضی اللہ عنہ نے کاروباری سرگرمیاں شروع کیں اور اس
کے ساتھ ساتھ روز و شب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر اور
مشوروں میں شامل رہنے لگے، کئی موقع پر آپ رضی اللہ عنہ کی رائے کو تائید
خداوندی حاصل ہوئی، ایسے ہی کسی موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا کہ ”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا“۔ آپ رضی اللہ عنہ کے
مشورے بڑے کارآمد ہوتے، چنانچہ ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: ”میرے دو آسمانی وزیر جبرئیل اور میکائیل ہیں، جب کہ دو زمینی وزیر
ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ ہیں“۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام غزوات میں شرکت کی اور بہادری اور شجاعت کے
نمایاں کارنامے سر انجام دیے، غزوہ بدر، احد، خندق، خیبر، ہر ایک غزوہ میں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ رہے، غزوہ تبوک میں جب مسلمانوں کو
مال اسباب کی ضرورت پڑی تو حضرت عمر فاروق نے اپنے گھر کا آدھا سامان اللہ
کی راہ میں دے دیا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبّت
تھی اور آپ رضی اللہ عنہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت عزیز
تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر تمام صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ
اجمعین کے لیے ناقابل یقین اور دکھ کا باعث تھی، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ
نے یہ روح فرسا خبر سنی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی اسی گہری عقیدت
اور محبّت کی بناءپر تلوار ہاتھ میں لی اور کہنے لگے کہ جو یہ کہے گا کہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں اس کا سر قلم کردوں گا، لیکن جب حضرت ابو
بکر صدّیق رضی اللہ عنہ نے قرآنی آیات پڑھ کر سنائیں اور تقریر کی تو تمام
صحابہ رضی اللہ عنہ نے یقین کرلیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ غم سے نڈھال
ہو کر بیٹھ گئے۔
جب حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہیں کئی مسائل کا سامنا
تھا، ان حالات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے بھرپور تعاون کیا اور ہر
موقع پر انہیں مخلصانہ اور انتہائی قیمتی مشورے دیتے رہے۔ خاص طور پر قرآن
مجید کی جمع اور تدوین کرنے کا مشورہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تھا۔ آپ رضی
اللہ عنہ نے اصرار کرکے اس کام کو مکمل کروایا اور بھرپور انداز میں اس
سارے کام میں حصّہ لیا۔
حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کردیا تھا، چنانچہ صدّیق اکبر رضی اللہ عنہ کے
انتقال کے بعد خلافت کی بھاری ذمّہ داریاں آپ رضی اللہ عنہ کو سنبھالنا
پڑیں۔ بیعت کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور فرمایا ”لوگو! میں تمہی
میں سے ہوں، اب میں تمہارے معاملات کا ذمّہ دار بنادیا گیا ہوں، نیکی کے
کاموں میں میرے ساتھ تعاون کرو اور برائی کو روکنے میں میری مدد کرو“۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلافت مسلمانوں کی تاریخ کا زریں دور
تھا، اس دور میں خلافت اسلامیہ کی سرحدیں چہار سو پھیل گئیں اور مسلمان
فوجوں نے کئی فتوحات حاصل کیں، جن میں عراق، ایران، مصر، شام اور فلسطین کی
فتوحات نمایاں ہیں، ان فتوحات کے اثرات سے نہ صرف کئی علاقے مسلمانوں کے
زیر اثر آگئے، بلکہ بڑی تعداد میں لوگ مسلمان بھی ہوئے۔
خلافت فاروقی اس حوالے سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اپنے دور خلافت میں حضرت
عمر رضی اللہ عنہ نے کئی ادارے اور محکمے قائم کیے، جن میں فوج کی تنظیم،
پولیس اور ڈاک کے محکمے کو مربوط کرنا شامل ہے، اس کے علاوہ مسلمان بچّوں
اور غریب غرباءکے لیے وظائف شامل ہیں، آپ رضی اللہ عنہ نے مرکزی بیت المال
کو مضبوط کیا اور آب پاشی کے نظام کو ترقی دی، آپ رضی اللہ عنہ کے دور
خلافت کی نمایاں خصوصیات میں نئے شہر بسانا بھی ایک اہم قدم ہے۔ بصرہ،
کوفہ، فسطاط، موصل آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلاف میں آباد ہوئے، آپ رضی اللہ
عنہ ہی کے دور بابرکت میں حرم کعبہ اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں
توسیع کرائی گئی، آپ رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں جہاں مسلمانوں کے حقوق
کا خاص خیال رکھا جاتا، وہیں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق اور ان کی جان و مال
کا بھی خاص خیال رکھا جاتا، آپ رضی اللہ عنہ کے حسن انتظام اور اللہ کے
احکامات کے مطابق حکومت کرنے کا نتیجہ تھا کہ اللہ کی رحمتوں کا نزول آسمان
سے بھی ہورہا تھا اور زمین بھی اپنے خزانے اگل رہی تھی، لوگ معاشی حوالے سے
اس قدر خوشحال ہوگئے تھے کہ وہ زکوٰة کی رقم لے کر نکلتے، لیکن انہیں کوئی
زکوٰة لینے والا نہ ملتا، آپ رضی اللہ عنہ کے دور میں امن و امان کا دور
دورہ تھا، عدل اور انصاف کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی شخص کھڑا ہو کر خلیفہ
سے سوال کرسکتا تھا اور کوئی اسے روکنے والانہ تھا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا گیارہواں سال تھا۔ ذی الحجہ
۳۲ہجری کے آخری ایام تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حج ادا کیا۔ حج سے واپس ہوئے
تو ایک روز مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں فجر کی نماز کی امامت کرنے
کھڑے ہوئے، ابھی تکبیر کہی تھی کہ ”ابو لولو فیروز“ جو ایک ایرانی النسل
غیر مسلم غلام تھا، صفوں کو چیرتا ہوا آپ رضی اللہ عنہ پر ایک خنجر سے حملہ
آور ہوا، آپ رضی اللہ عنہ پر خنجر کے پے در پے وار کیے اور پھر اسی خنجر سے
خودکشی کرلی، اس حملہ سے آپ رضی اللہ عنہ کے جسم پر چھ زخم آئے، اس واقعہ
سے مسلمان بڑے غمگین اور دل گرفتہ ہوئے، آپ رضی اللہ عنہ کچھ دن زخمی رہے
اور بالآخر انہی زخموں کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت واقع ہوئی،
حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور
حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ،
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ
نے قبر میں اتارا۔ آپ رضی اللہ عنہ کو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے
پہلو میں حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ عنہ کی قبر کے ساتھ سپرد خاک کیا
گیا۔
|
|