پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاح مبارک
(Dr. Muhammed Husain Mushahid Razvi, Malegaon)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسوں میں
اگرچہ وقار، سنجیدگی اور متانت کی فضا ہر وقت قائم رہتی یہاں تک کہ خود
صحابہ کرام رضہ اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی صحبت بابرکت میں ایسے باادب اور باتمکین ہو کر بیٹھتے کہ گویا ہمارے
سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ ادنیٰ سی حرکت سے اڑ جائیں گے۔ مگر
پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش طبعی کی جھلک ان مبارک صحبتوں کو
خوشگوار بناتی رہتی، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ایک طرف نبی و مرسل
کی حیثیت سے احترام رسالت کو ملحوظ رکھتے ہوئے وعظ و تلقین میں مصروف رہتے
تو دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک
بے تکلّف دوست اور ایک خوش مزاج ساتھی کی حیثیت سے بھی میل جول رکھتے، بے
تکلفی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اور صحابہ رضی
اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتے مگر آج ہمارے بہت سے کاموں
سے ہمارے خود کے عمل سے نظریات بدل چکے ہیں، ہماری سوچ کہاں سے کہاں چلی
گئی ہے ہم ہر معاملے میں میانہ روی کو بھول چکے ہیں۔
اگر ہم سنجیدہ اور متین ہنستے ہیں تو خوش طبعی ہم سے کوسوں دور رہتی ہے اور
اگر خوش طبع بنتے ہیں تو اس قدر کہ تہذیب ہم سے کوسوں دور رہتی ہے اسی لیے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ہمیں ایک خاص معیار اپنے سامنے رکھنا ہے
آپ کے مذاق کی تعریف خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی زبان سے سن لیجیے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ بھی
مذاق کرتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں، بے شک،مگر
میرا مذاق سراسر سچائی اور حق ہے۔
اس کے مقابلے میں آج کل مذاق وہ ہے جس میں جھوٹ، غیبت، بہتان، طعن وتشنیع
اور بیجا کی مبالغہ آرائیوں سے پورا پورا کام لیا گیا ہو۔
اب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظرافت (یعنی مزاح) کے چند واقعات قلم بند
کرتا ہوں تاکہ ہم حسن مزاح کی صحیح رائے قائم کرسکیں۔
ایک شخص نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر سواری کے لیے درخواست کی تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ، تم کو سواری کے لیے اونٹنی کا بچّہ دوں
گا۔ وہ شخص حیران ہوا کیوں کہ اونٹنی کا بچّہ سواری کا کام کب دے سکتا ہے،
عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، میں اونٹنی کا بچّہ کا کیا کروں
گا؟ آپ نے ارشاد فرمایا۔ کوئی اونٹ ایسا بھی ہوتا ہے جو اونٹنی کا بچّہ نہ
ہو۔
ایک مرتبہ ایک ضعیف خاتون خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ اے اللہ
کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو
جنّت نصیب کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ بوڑھی عورتیں جنّت
میں نہیں جائیں گی۔ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے
گئے اور ضعیف خاتون نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مبارک سنتے ہی رونا
شروع کردیا، جب آپ نماز سے فارغ ہو کر تشریف لائے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، جب سے آپ نے
فرمایا ہے کہ بوڑھی عورتیں جنّت میں نہیں جائیں گی تب سے یہ بڑھیا رو رہی
ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس سے کہہ دو بوڑھی عورتیں جنّت
میںجائیں گی مگر جوان ہو کر۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک دیہاتی صحابی جن کا نام ذاہر تھا جو اکثر آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیے بھیجا کرتے تھے ایک روز بازار میں وہ اپنی کوئی
چیز بیچ رہے تھے، اتفاق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ادھر سے گزرے جب آپ
نے ان کو دیکھا تو بطور خوش طبعی چپکے سے پیچھے سے جا کر ان کو گود میں
اٹھالیا اور بطور ظرافت آواز لگائی کہ، اس غلام کو کون خریدتا ہے۔ ذاہر نے
کہا چھوڑ دو مجھے، کون ہے؟ مڑ کر دیکھا تو سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم
تھے۔ حضرت ذاہر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، مجھ
جیسے غلام کو جو خریدے گا نقصان اٹھائے گا۔ |
|