نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن
السلام علیکم پیارے بچّو! استانی نے کمرہ جماعت میں داخل ہوتے ہوئے کہا تو وعلیکم السلام بچّوں کی ایک ساتھ بلند ہوتی ہوئی آواز سے کلاس گونج اٹھی۔
شاباش، استانی نے بچّوں کی اس اچھّی عادت پر شاباشی دی۔
آپ میں سے کسی کو معلوم ہے کہ ہمیشہ کلاس میں داخل ہونے سے پہلے میں ہی کیوں سلام کرتی ہوں؟۔
حالاں کہ میں آپ سے بڑی ہوں پھر بھی سلام میں ہی کرتی ہوں، آپ لوگ سلام نہیں کرتے۔ سلام تو بچّوں کی طرف سے ہونا چاہیے۔
عمر! کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایسا کیوں؟ استانی نے عمر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
مس، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّتوں میں سے ایک سنّت یہ بھی ہے کہ ہر آنے والاسلام کرے اگرچہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ عمر نے کہا۔
شاباش عمر بیٹا، شاباش ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے سلام کرنا اور اس کا جواب دینا ہم پر واجب ہے، اگر ہم سلام کا جواب نہ دیں گے تو ہم کو گناہ ملے گا۔
استانی نے بچّوں کو سلام اور اس کے جواب کی مزید اہمیت دلاتے ہوئے کہا۔
چلو شاباش، اب کتابیں نکالو، ہم اپنا اگلا سبق پڑھتے ہیں، استانی نے کہا۔
نہیں، سب بچّوں نے باآواز بلند یہ جملہ دہرایا۔
کیوں، استانی نے غصیلے انداز میں پوچھا۔
مس، آپ آج ہمیں ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کے بارے میں کچھ بتائیں، ان کی سچائی، ان کی امانت داری کے کچھ واقعات سنائیں۔ عبداللہ نے کہا۔
تمام بچّوں نے عبداللہ کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے ٹیچر کو اس موضوع پر گفتگو کرنے کو کہا۔
ٹھیک ہے بچو، آپ لوگوں کا اتنا اصرار ہے تو میں ضرور نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کی کچھ جھلکیوں پر گفتگو کرنا پسند کروں گی لیکن۔
لیکن کیا مس، تمام بچّوں نے پھر سے بلند آواز میں کہا۔
لیکن یہ کہ صرف میں نہیں بلکہ آپ لوگ بھی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کے واقعات سنائیں گے۔ ٹھیک ہے ناں۔ استانی نے بچّوں کی دلچسپی بڑھاتے ہوئے کہا۔
تمام بچّوں نے مس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
تو سنو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن انتہائی دلکش، بہت مثالی کردار اور سب سے الگ ہے۔
آپ کو پتا ہے کہ انسان جب بچّہ ہوتا ہے تو وہ بالکل ہی تربیت یافتہ نہیں ہوتا، اس کا ذہن کچا ہوتا ہے جو کچھ اس کے ذہن میں ڈالا جائے وہ اسی کے مطابق عمل کرنے لگ جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جو والدین اور اساتذہ اپنے بچّوں کی صحیح تربیت نہیں کرتے ان کو غلط صحبت میں چھوڑ دیتے ہیں تو بچّے بالکل بگڑ جاتے ہیں، جھوٹ، چوری، ضد اور دیگر غلط حرکتوں کو اپنی عادت بنالیتے ہیں۔
لیکن ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن ان سب سے بالکل الگ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہونے سے پہلے ہی والد محترم کی تربیت و محبّت سے محروم ہوگئے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھ سال کے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ بھی انتقال فرماگئیں، آٹھ سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔
سوچو اتنی چھوٹی سی عمر میں والدین اور داد کا سایہ سر سے اٹھ جانا اور اس لاڈ پیار کی عمر میں تن تنہا ہوجانا، تربیت و محبّت سے دور ہوجانا، کتنی مشکلات والی باتیں ہیں، ایک ساتھ غم پر غم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو زخم سے بھر چکے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اکثر نم ہوجایا کرتیں، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کے زیر تربیت ہوگئے، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی اچھّی تربیت کی، مالی حالات نامناسب ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں کمی نہ آنے دی۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بچپن ہی سے انتہائی خوش مزاج اور من کے سچّے تھے، بچپن ہی سے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرافت، صداقت، دیانت اور امانت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، یہی وجہ تھی کہ جوانی میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین کا لقب مل گیا، ہر شخص صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شرافت سے بے حد متاثر ہوا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی جھوٹ کا ساتھ دے سکتے ہیں۔
مس، اگر میں بھی سچ بولوں، والدین کا کہنا مانوں، ان سے ضد نہ کروں تو کیا میں بھی لوگوں کا پسندیدہ بن جاؤں گا۔ کیا سب مجھ سے بھی محبّت کرنے لگیں گے۔
کلاس کے کونے سے آواز آئی اور سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔
جی ہاں میرے بیٹے، اگر آپ بھی سچ بولو گے، والدین سے ضد نہ کرو گے، سب کا کہنا مانو گے تو ضرور سب آپ کو پسند کریں گے۔ سب آپ سے محبّت کریں گے، ہر کوئی آپ کی تعریف کرے گا۔
ہاں تو بیٹا خبیب، آپ کچھ بتائیں گے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں، استانی نے عارف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
مس، مجھے میری امّی جان نے بتایا تھا کہ پہلے عرب میں بہترین تربیت کے لیے بچّوں کو دیہاتی علاقوں میں بھیجا جاتا تھا،وہاں بچّے ایک اچھّے ماحول میں رہ کر تربیت یافتہ شخصیت بن جاتے تھے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حلیمہ سعدیہ کے زیر تربیت رہے، بی بی حلیمہ انتہائی غریب تھیں، ان کے پاس ایک بکری تھی وہ بھی کمزور، انتہائی غربت کی حالت میں بھی انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گود لے لیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں آن پڑیں، وقتاً فوقتاً ان کی تمام تر مشکلات دور ہوگئیں، ان کی غریبی خوشحالی میں بدل گئی اور بہترین گزر بسر ہونے لگی۔ خبیب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت اور پیدائش پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک مختصر واقعہ سنایا۔
دیکھا بچو آپ نے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بچپن ہی سے کتنی رحمتوں اور برکتوں والے تھے کہ کئی سالوں سے تنگ حال خاندان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے خوشحال بن گیا۔
پھر استانی نے تمام بچّوں کے چہروں کی طرف نظر دوڑاتے ہوئے زاہد کو مخاطب کیا۔ بیٹا زاہد، آپ بھی کچھ سنانا پسند کریں گے۔
زاہد اپنی باری آنے پر بہت خوش ہوگیا کیوں کہ وہ اسی لمحہ کا انتظار کررہا تھا کہ مس بولیں اور وہ ایک واقعہ سنادے۔
مس،میں نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب میں پڑھا تھا کہ ایک دن محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رضاعی بھائی عبداللہ کے ساتھ بکریاں چرانے کے لے گئے، جب ان کے بھائی چلتے چلتے آگے بڑھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے تو اچانک سفید کپڑے پہنے ہوئے دو آدمی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لٹا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ چاک کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ سے خون کا ایک ٹکڑا نکالا اور اسے آب زم زم سے دھو کر دوبارہ اسی جگہ پر لگادیا۔
عبداللہ نے بھی دور کھڑے یہ واقعہ دیکھ لیا اور دوڑ کر گھر کی طرف پلٹے اور سارا واقعہ حلیمہ سعدیہ سے بیان کیا، آپ گھبراہٹ میں بھاگی بھاگی آئیں اور چھوٹے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح اور تندرست پاکر فوراً گلے لگالیا۔
زاہد کے چپ ہوتے ہی عبید بول پڑا۔ مس میری دادی نے مجھے بتایا تھا کہ مکّہ کے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑی بڑی جنگیں لڑا کرتے تھے۔ اسی بات سے جڑاہوا انہوں نے مجھے ایک واقعہ سنایا تھا کہ ایک مرتبہ مکّہ مکرمہ میں شدید بارش ہوئی جس کی وجہ سے مکّہ میںسیلاب آگیا اور کافی تباہی کا سامنا مکّہ والوں کو پیش آیا، اس موقع پر خانہ کعبہ کی دوبارہ تعمیر بھی ہوئی لیکن جب حجر اسود کو نصب کرنے کا معاملہ آیا تو مکّہ کے لوگوں میں جنگ چھڑ گئی، ہر قبیلہ یہ اعزاز حاصل کرنا چاہ رہا تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت دیانتداری اور ہوشیاری سے اس بڑے جھگڑے کو ختم کردیا اور بغیر کسی لڑائی جھگڑے کے حجر اسود نصب کردیا گیا۔
شاباش، مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ بچّے شوق سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں، میں اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کروں گی کہ اللہ ہمیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
چلو بچّو! اب چھٹی کا وقت ہوگیا ہے سب اپنے اپنے بستے تیار کرلو اور اپنے اپنے گھروں کی طرف چل پڑو۔
اور ہاں! سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا مت بھولنا۔
چ
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 595487 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More