امام اہلسنت کا فتویٰ بیمہ(انشورینس)پر کتاب بنام"احکام شرعت " کی وضاحت
(syed imaad ul deen, samandri)
بات یہ کہ عام لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے
بیمہ کمپنی والوں نے یہ شیطانی کا م کیا کہ مشہور اور مقتدر علماء کر ام کے
بیمہ پالیسی کے جواز کے فتوے دیکھاتے ہیں اور کہتے ہیں اتنے بڑے علماء دین
نے جائز کہا ہے تو یہ جائز ہی ہے آج کل کے علماء کے کہنے سے حرام تھوڑی ہو
جائے گا ؟ جس میں ایک فتوی کے یہ الفاظ ہیں۔(۱)زندگی بیمہ یا لائف انشورنس
اصولی طور پر ایک مفید اسکیم ہے جس سے کوئی شہری اپنا اور اپنے بچوں کا
معاشی تحفظ حاصل کرتا ہے ۔اسی پہلو کو پیش نظر رکھ کر علماء کرام نے اسے
جائز رکھا ہے چنانچہ امام شاہ احمد رضاخان بریلوی نے بھی اسے جائز قرار دیا
ہے ۔دیکھو ان کی کتاب احکام شریعت صفحہ ۲۰۲ جلد اول لہذا ہم بھی اسے جائز
سمجھتے ہیں ۔(۲)براہ راست چونکہ اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں لہذا جائز ہے)
یہ انشورنس کمپنی والوں کا بہت بڑا دھوکہ ہے ۔ وہ احکامات امام اہلسنت کے
اس فتویٰ پر دیئے گئے ہیں جس میں امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ الرحمہ
سے گورنمنٹ کی طرف سے بیمہ کا اعلان ہوا تھا اور گورنمنٹ ہی اس کو چلا رہی
تھی اس کے بارے میں سوال کیا گیا اور گورنمنٹ خالصتاً کفار کی تھی تو امام
اہلسنت نے اس کے جواب فرمایا’’ جب بیمہ گورنمنٹ کر تی ہے اور اس میں نقصان
کی کوئی صورت نہیں تو جائز ہے کوئی حرج نہیں مگر شرط یہ ہے کہ اس کے سبب اس
کے ذمہ کسی خلاف شرع احتیاط کی پابندی نہ عائد ہو تی ہو جیسے روزوں یاحج کی
ممانعت‘‘۔ [احکام شریعت ،حصہ دوم ،ص:۱۸۹،مکتبہ بک کارنر پرنٹرز پبلشرز مین
بازار جہلم]۔
اس فتوی میں امام اہلسنت نے ارشاد فرمایا’’ جب بیمہ گورنمنٹ کر تی ہے ‘‘
تواس وقت کی گورنمنٹ کفار کی تھی جس پر اس فتوی میں ہی امام اہلسنت نے ان
کے کافر ہو نے کی طرف اشارہ فرمادیا وہ اس طرح کہ آپ نے فرمایا ’’ اس میں
(مسلمانوں کے لئے) نقصان کی کوئی صورت نہیں تو جائز ہے کوئی حرج نہیں مگر
شرط یہ ہے کہ اس کے سبب اس کے ذمہ کسی خلاف شرع احتیاط کی پابندی نہ عائد
ہو تی ہو جیسے روزوں یاحج کی ممانعت‘‘ یہ فتوی فتاوی رضویہ جلد ۲۳،ص:۶۰۱ پر
موجود ہے اس میں روزوں یاحج کی ممانعت کا ذکر ہے ان چیزوں سے منع مسلمان تو
کرتے نہیں ظاہر ہے جو کافر ہو گا وہی اللہ تعالی کی عبادت روزوں اور حج سے
منع کر ے گا۔اور اس کے علاوہ امام اہلسنت کے واضح الفاظ میں فتاوی موجو
دہیں جس میں مسلمانوں کو اس کے بارے میں احکام بتائے ہیں چنانچہ مذکورہ
فتوے سے چند صفحے پہلے بیمہ پالیسی کے سوال کے جواب میں امام اہلسنت امام
احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں ’’ جس کمپنی سے
یہ معاملہ کیا جائے اگر اس میں کوئی مسلمان بھی شریک ہے تو مطلقاً حرام
قطعی ہے قمار (جوا)ہے اور اس پر جو زیادت ہے ربا( سود )ہے اور دونوں حرام
وسخت کبیرہ ہیں ۔اور اگر اس میں کوئی مسلمان اصلاً نہیں تو یہاں جائز ہے
جبکہ اس کے سبب حفظ صحت وغیرہ میں کسی معصیت پر مجبور نہ کیا جاتا ہو جواز
اس لئے کہ اس میں اپنے نقصان کی شکل نہیں ،اگر بیس برس زندہ رہا پورا روپیہ
بلکہ مع زیادت ملے گا ،اور پہلے مر گیا تو ورثہ کو اور زیادہ ملے.....مزید
ایک سطر کے بعد فرماتے ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ جو زائد ملے ربا(سود) سمجھ کر
نہ لے بلکہ یہ سمجھے کہ غیر مسلم کا مال اس کی خوشی سے بلا
غدر(دھوکہ)ملا،یہ حلال ہے ۔ اس کے بعد امام اہلسنت نے حضرت ابو بکر صدیق
رضی اللہ تعالی عنہ کی اس شرط کا ذکر فرمایا جو کفار قریش کے ساتھ لگائی
تھی رومی ایرانیوں پرغالب آئیں گے اورشرط پوری ہو نے پر آپ نے وہ شرط وصول
کر لی اور حضور ﷺ نے اس کی اجازت دی تھی ‘‘ملخصاً۔[فتاوی رضویہ ،ج:۲۳،ص
:۵۹۵،رضافاؤنڈیشن ،لاہور]۔
اس بحث کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جس فتوی میں امام اہلسنت امام احمد
رضاخان علیہ الرحمہ نے بیمہ پالیسی کو جائز قرار دیا ہے یہ وہ پالیسی ہے
جوکفار کی طرف سے جاری تھی اور اس میں کو ئی مسلمان حصہ دار نہیں تھا ۔آج
بھی اگر دارالحرب میں کفار کی کمپنی جس میں کوئی مسلمان حصہ دار نہ ہو میں
زندگی کا بیمہ کرانا جائز ہو گا۔اور اس پر ملنے والا نفع بھی حلال ہوگا اور
یہاں پاکستان میں اولاً تو کمپنیاں مسلمانوں کی ہیں ۔ثانیاً کفار کی ہوں
بھی تو اس وقت تک حکومت ان کو جاری نہیں کرنے دیتی جب تک اس ملک کے اندر اس
کے شیئر فروخت نہ ہو جائیں اور یہاں اگر کوئی کمپنی شیئر فروخت کرتی ہے تو
خریدنے کے لئے کفار تھوڑی آئیں گے بلکہ یہاں کے مسلمان ہی خریدیں گے اور اس
کمپنی میں حصہ دار ہو جائیں گے اس طرح پاکستان میں کسی بھی بیمہ کمپنی میں
کسی قسم کا بیمہ کرانا ناجائز اور حرام ہے ۔اورمسلمانوں کو ہرقسم کی بیمہ
پالیسیوں سے حتی المقدور بچنا لازم ہے اس لئے کہ مروجہ بیمہ پالیسی محرمات
کا مجموعہ ہیں ۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس برائی سے بچائے۔ واللہ تعالیٰ
اعلم ورسولہ اعلم |
|