انوار الحسن وسطوی
زیر مطالعہ نظم ’’مجھے آزاد ہونا ہے‘‘ اردو کے ابھرتے ہوئے جواں سال شاعر
اور صحافی کامران غنی صباؔ کی تخلیق ہے۔ مسٹر کامران ایک سنجیدہ صحافی کے
ساتھ ساتھ ایک صالح فکر شاعر کی حیثیت سے بھی اپنی شناخت قائم کر چکے ہیں۔
موصوف صحافت سے زیادہ قربت رکھتے ہیں یا شاعری سے، اس کا تعین کرنا ابھی
قبل از وقت ہوگا لیکن اتنی بات تو میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتا ہوں
کہ کامران غنی بحیثیت صحافی تو نووارد ضرور ہیں لیکن ان کی شاعری دیکھ کر
کوئی انھیں نووارد نہیں کہہ سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ ان کا مشق سخن جاری رہا
تو وہ بہت جلد اردو کے کہنہ مشق شاعروں کی صف میں شمار کیے جائیں گے۔ یہ
کہنے کے لیے میرے پاس ایک پیمانہ ہے۔ ’’بزرگی بعقل ست نہ بسال‘‘۔ راقم
السطور کو اخبارات و رسائل میں کامران غنی صباؔ کی نظموں اور غزلوں کو
دیکھنے کا اکثر اتفاق ہوا ہے۔ ان کی شاعری میں زبان و بیان کی جو پختگی اور
فکر کی جو بلندی ملتی ہے اس سے میں بے حد متاثر ہوں۔ امید قوی ہے کہ مستقبل
قریب میں صباؔ کی شاعری اور زیادہ نکھر کر سامنے آئے گی اور وہ ناقدین ادب
سے خراج تحسین حاصل کرے گی۔ چند دنوں قبل کامران غنی صباؔ کی مذکورہ نظم’’
مجھے آزاد ہونا ہے‘‘ میرے مطالعہ میں آئی۔ یہ نظم سہ ماہی ’دربھنگہ ٹائمز‘
کے ایڈیٹرعزیزی ڈاکٹر منصور خوشتر نے مجھے بذریعہ ای میل بھیج کر مجھے اس
نظم پر اپنے تاثرات لکھ بھیجنے کی فرمائش کر دی۔ عزیزم موصوف مجھے اکثر کسی
نہ کسی آزمائش میں ڈال دیا کرتے ہیں۔ نہ میں شاعر، نہ ادیب اور نہ ناقد پھر
بھی موصوف مجھ سے ایسی ایسی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں کہ جس کی تکمیل پر
میرے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں لیکن انھیں ذرا بھی مجھ پر ترس نہیں آتا۔
بہرکیف میں عزیزم موصوف کا ممنون ہوں کہ انھوں نے کامران غنی صباؔ کی ایک
فکر انگیز نظم کے مطالعہ کا شرف بخشا۔ جہاں تک نظم پر اپنے تاثرات قلم بند
کرنے کی بات ہے تو سچائی یہ ہے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ میر اعلم اتنا
وسیع نہیں ہے کہ میں اس نظم کے تعلق سے اپنے تاثرات کو الفا ظ کا جامہ پہنا
سکوں اور اس کے تجزیے کا حق ادا کر سکوں۔ لیکن مجھے یہ خوشی ہے کہ جب
ناقدین ادب اس نظم کا تجزیہ کریں گے اور اس کا فنی و فکری جائزہ لیں گے تو
دیگر قارئین ادب کے ساتھ ساتھ راقم السطور کو بھی ان تحریروں سے مستفیض اور
محظوظ ہونے کا موقع میسر ہوگا۔
کامران غنی صباؔ کی نظم پر اپنا مطالعہ پیش کرنے سے قبل میں موصوف کا ایک
مختصر تعارف کرانا ضروری سمجھتا ہوں۔ آن لائن میڈیا اور ادبی صحافت سے
وابستگی کے سبب موصوف نہ صرف برصغیر کے ادباء و شعراء کے درمیان جانے
پہچانے جاتے ہیں بلکہ دیگر ممالک کے شائقین اردو شعر و ادب بھی ان کے نام
اور کام سے واقف ہیں۔ کامران غنی صباؔ کی ادبی صحافت سے دلچسپی کو دیکھتے
ہوئے جاپان سے شائع ہونے والے آن لائن اخبار ’اردو نیٹ جاپان‘ میں انہیں
مدیر اعزازی کی ذمہ داری سے سرفراز کیا گیا۔ اردو کے مقبول روزنامہ’’پندار،
پٹنہ‘‘ کے پرنسپل ایڈیٹر جناب اے کے احسانی نے انھیں ہر ہفتہ(اتوار) شائع
ہونے والے’’گوشۂ ادب‘‘ ایڈیشن کے انچارج کی ذمہ داری سونپی۔ سہ ماہی
’دربھنگہ ٹائمز‘ کے ایڈیٹر ڈاکٹر منصور خوشتر جو خود اردو کے جواں سال
صحافی اور شاعر ہیں، اس طرف کچھ دنوں سے کامران غنی صباؔ کی طرف للچائی
ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ بلآخر وہ بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور
اپنے مقبول رسالہ سہ ماہی ’دربھنگہ ٹائمز‘ کے لیے ان کی خدمات حاصل کر لیں
اور انھیں اپنے رسالہ کا معاون مدیر مقرر کر لیا۔ گذشتہ دنوں یہ مژدہ سننے
کو ملا ہے کہ کولکاتہ سے شائع ہونے والے ادبی ماہنامہ ’’کائنات‘‘ کے چیف
ایڈیٹر جناب خورشید اقبال نے جناب صباؔ کی ادبی وصحافتی خدمات کو دیکھتے
ہوئے انھیں اپنے رسالہ’’کائنات‘‘ کا ایسوشی ایٹ ایڈیٹر مقرر کیا ہے۔ واضح
ہو کہ ’’کائنات‘‘ عالمی معیار کا خالص ادبی رسالہ ہے، جس میں ادبی تخلیقات
اور مضامین شائع کیے جاتے ہیں۔ جناب کامران غنی صباؔ مذکورہ تمام ذمہ
داریاں احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔
’مجھے آزا دہونا ہے‘ اسی باکمال نوجوان کی ایک فکر انگیز نظم ہے ۔ جس میں
دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ اتنی عمدگی سے کھینچا گیا ہے کہ اس کے مطالعہ سے
انسان غور و فکر کے سمند رمیں ڈوب جاتا ہے۔ یہ نظم دنیا کے ان تمام لوگوں
کے لیے ایک تازیانۂ عبرت ہے جو عزت، شہرت، علم و حکمت اور مال و دولت کو
بہت اہمیت دیتے ہیں اور اس کے حصول کو بہت بڑی چیز سمجھتے ہیں۔ شاعر کا یہ
ماننا ہے جو بالکل بجا بھی ہے کہ عزت، شہرت، علم و حکمت اور مال و دولت یہ
سب چیزیں چند روزہ ہیں۔ ان میں کوئی بھی چیز انسان کے ساتھ جانے والی نہیں
ہے۔ زیادہ سے زیادہ چند دنوں اور چند مہینوں تک ہی اس کا چرچا کسی اخبار یا
کسی محفل میں رہے گا۔ اگر کوئی بہت بڑی شخصیت کا مالک ہے تو اس پر کوئی
محقق اپنا تحقیقی مقالہ لکھ ڈالے گا جس سے ممدوح کی شخصیت کی کچھ شہرت ہو
جائے گی لیکن اس سے اس کو کچھ فائدہ حاصل ہونے کو نہیں ہے۔ اس کے نام کا
غلغلہ جلد ہی تھم جائے گا اور بلآخر لوگ اسے فراموش کر دیں گے۔ یہ سانحہ
زندگی کے ہر شعبۂ حیات سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ خواہ کوئی
سیاست کے میدان کا کھلاڑی ہو یا صحافت و ادب کے میدان کا شہسوار یا کثیر
مال و متاع کا مالک۔ سب کا نام و نشان ایک دن مٹ جائے گا اور سب کو ایک دن
اس دار فانی کو چھوڑ کر سوئے عدم روانہ ہو جانا ہے۔ شاعر نے اس بات کو بڑی
عمدگی سے یوں شعری جامہ پہنایا ہے:
ہزاروں نام ایسے ہیں
کہ جن کے سامنے سورج دیے کی لو سالگتا تھا
مگر کوئی کہاں باقی رہا دائم رہا
سارے عدم کی راہ کے راہی
کسی ایسے جہان بے نشاں میں جا بسے
جانو، کسی کا نام تک کوئی نہیں ہوتا
شاعر کوجب دنیا کی فنا ہونے والی تمام چیزوں کا اداراک حاصل ہوتا ہے تو وہ
دنیا کی بے ثباتی اور دنیا کے عارضی رنگ و روغن سے اپنی بے اعتنائی کا
اظہار کرتے ہوئے اس سے دوری کا کنارہ کشی اختیار کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔ وہ
کسی ایسی گمنام بستی میں جا کر رہنے کا عزم کرتا ہے جہاں اسے کوئی جاننے
اور پہچاننے والا بھی نہ ہو۔ وہ بالکل گمنامی کی زندگی گزارنے اور گوشۂ
تنہائی میں رہنے کا عزم کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے :
مرا جی چاہتا ہے تیاگ کر سب کچھ
کسی گمنام بستی میں چلا جاؤں
جہاں میرے کسی پہچاننے والے
کسی بھی جاننے والے کے جانے کا
کوئی امکاں نہ ہو
اس گوشۂ عزلت میں، اس پاتال میں
گمنام ہو جاؤں
مجھے آزا دہونا ہے
زمانے بھر کی ہر خواہش سے
ہر رعنائی سے، جھوٹی نمائش سے
مجھے آزاد ہونا ہے
شاعر کا یہ عزم اور یہ سوچ بڑی بات ہے۔ وہ اپنے اس عزم کو عملی جامہ
پہناسکے گا؟ اپنی اس سوچ پر عمل پیرا ہو سکے گا؟ سچ مچ اس دنیا کو تیاگ کر
وہ گمنام بستی میں پناہ گزیں ہو سکے گا؟ یہ کہنا مشکل ہے مگر شاعر کا عزم
اور اس عزم کا طاقت ور اظہار قابل ستائش ہے۔ زبان و بیان کی عمدگی اور فکر
کی پختگی اس نظم کو اعلیٰ درجہ کی تخلیق کا درجہ عطا کرتی ہے۔آزادنظم ہونے
کے باوجود ا س میں بے حد روانی ہے ۔ نظم اوپر سے نیچے تک یعنی شروع سے آخر
تک مربوط اور مسلسل ہے۔ یہی ربط و تسلسل اور موضوع کا ارتکاز نظم کو پر اثر
بناتا ہے۔ مصروں کی ترتیب اور بندشوں کے در و بست سے شاعر کی پختگی کا
اندازہ لگتا ہے۔ اتنی عمدہ اور فکر انگیز نظم کی تخلیق پر میں عزیزی کامران
غنی صباؔ کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں اور دعا کرتا ہوں:
اﷲ کرے زور قلم اور زیادہ |