فن تحریراور اس کی باریکیاں

زبان کی تدریس کا اہم اور بنیادی مقصد، تحریر و تقریر کے ذریعے، اظہار خیال پر قدرت حاصل کرنا ہے۔ یہ اظہار جس قدر مربوط، واضح، بھرپور اور خوبصورت ہو گا اسی قدر کسی طلباء یا سیکھنے والے کو زبان کا اچھا طالب علم سمجھا جائے گا۔ اظہارِ خیال پر قدرت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ طالب ِعلم کے ذہن میں، اس کی معلومات و خیالات کی وسعت کے مطابق الفاظ کا ایک بڑا ذخیرہ محفوظ ہو۔ یہاں ذخیرۂ الفاظ کی موجودگی سے یہ مراد نہیں کہ طالب علم نے کسی لغت یا کسی نصابی کتاب کے آخر میں دی ہوئی لغت سے الفاظ کے معنی رٹ لیے ہوں بلکہ یہ مفہوم ہے کہ اُس کے حافظے میں الفاظ کا جو ذخیرہ موجود ہو، وہ روزمرہ کی تحریرو تقریر میں اسے صحیح طو رپر استعمال کرنے پر دسترس بھی رکھتا ہو۔
محترم قارئین :یہاں میں کوئی مقالہ پیش نہیں کررہابلکہ اردو کے حوالے سے چند نظائر پیش کررہاہوں ۔جس کے ذریعے آپ اپنی بول چال اور تحریر میں مناسب سے بہتر اور بہتر سے بہترین کے مدارج طے کرسکتے ہیں ۔

میں چند مثالیں آپ کے سامنے پیش کر تا ہوں ۔جس سے آپ پر یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ بعض مرتبہ فقط الفاظ اور اس کے مترادف طالب علم کو بتائے جائیں اور جملے میں اس کا استعمال واضح نہ کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ شاید اردو کے اس طالب علم کے لیے مشکل ہوگی ۔میں آپ کو مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتاہو ں ۔مثلاً اگر کسی طالب علم کو چشم، گوش، گُل، شکم اوردندان کے صرف مترادف الفاظ علی الترتیب آنکھ، کان، پھول، پیٹ اور دانت بتا دیے جائیں تو یہ بات لغت و فرہنگ کے لحاظ سے درست ہو گی لیکن جب تک مختلف عبارتوں یا جملوں کے ذریعے ان کے استعمالات کا فرق ذہن نشین نہ کرایا جائے اوپر بتائے ہوئے معنی روز مرہ کی تحریر و تقریر میں مضحکہ خیز اور بے معنی ثابت ہو ں گے۔ طلبہ و طالبات کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ جیسے ہی نئے الفاظ سیکھتے ہیں انھیں اپنی گفتگو یا تحریر میں استعمال کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی طالب علم اوپر دئیے ہوئے مترادف الفاظ کی مدد سے چشم، گوش، گل، شکم اور دندان کو استعمال کرے گا تو امکان یہ ہے کہ وہ اس قسم کے جملے بنائے گا۔
۔ میری چشم میں درد ہے۔
۔ استاد نے میرے گوش کھینچ دیئے۔
۔ گل مسلنااچھی بات نہیں ۔
۔ شکم پھول گیا۔
۔ دندان سے میں شدید درد ہے ۔

محترم قارئین :میرامقصود عمیق بحث میں الجھنانہیں۔مذکورہ بالا تمام جملے درست قرار پاتے ہیں ۔کوئی ان الفاظ کو ان جملوں میں اس انداز سے استعمال کرنے کو غلط نہیں کہتا۔بلکہ اردو کے اساتذہ بھی شاید انھیں درست ہی جانتے ہیں۔ظاہر ہے جب مدرسین اتفاق کرتے ہیں تو اعتراض کا محل باقی نہ رہا۔ کام کی بات بتاؤں ۔احقرالحقیر پُر تقصیر ماہر لسانیات تو نہیں لیکن ادیب اور اہلِ علم کی صحبت ضرور میسر آئی۔جس کی بدولت چند ایسے نکات اور معلومات ذہن کی تختی پر ثبت ہوگئیں ۔سوچا !قارئین تک پہنچائی جائے ۔

یہ بات بھی مشاہدے میں آتی ہے کہ طویل عرصہ فنِ تدریس سے وابستہ اساتذہ بھی ایسے جملوں کی نوک پلک سنوارنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔اُردو ادب ایک وسیع موضوع ہے ۔جس پر دیوان کے دیوان لکھے جاسکتے ہیں ۔خیر اُردو میں بعض الفاظ یا فارسی عربی کے بعض دوسرے الفاظ، تنہا نہیں بلکہ کسی دوسرے عربی یا فارسی لفظ سے مرکب کر کے استعمال کیے جاتے ہیں۔ہماری ادب کی کتابوں میں اس پر غور کرلیا جائے یا اشارۃًو کنایۃً ہی بیان کردیا جائے تو اردوبولنے اور لکھنے والے ایسی غَلطی سے محفوظ رہتے ۔اب چونکہ ایسے الفاط مفرد بھی استعمال کئے جاتے ہیں اور اس پر گرفت بھی نہیں ۔میں چند مثالیں آپ کے سامنے پیش کردیتاہوں ۔
جیسے :۔ نورِ چشم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چشم و چراغ
۔ گوشِ دل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوش و گوش
۔ رنگِ گُل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گل و بلبل
۔ دردِ شکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پشت و شکم
۔ دندان شکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لب و دنداں

اب مذکورہ بالا الفاظ پر غور کیجئے۔میری بات آپ کو سمجھ آجائے گی ۔

محترم قارئین!!!اردو تحریروں کا مطالعہ کریں توہمیں نئے لکھنے والوں میں قدرے بے احتیاطی نظر آتی ہے۔ مثلاً عام طور پر فارسی کے حاصل مصدر ہمزہ سے لکھے جاتے ہیں ، جیسے آزمائش، ستائش افزائش وغیرہ۔یہاں ہمزہ غلط ہے، یہ تمام الفاظ ’’یا‘‘(ے) کے استعمال کے ساتھ ہیں ۔جیسے آزمایش، ستایش، افزایش وغیرہ۔

محترم قارئین ۔تحریر لکھنے کے حوالے سے اہم معلومات آپ تک پہنچانے کی کوشش کررہاہوں۔شعبہ ابلاغ سے تعلق رکھنے والے احباب کے لیے نہایت ہی مفید معلومات ہے ۔آپ جب بھی آپ کچھ تحریر کرنے لگیں ۔چند اہم نکات ہیں ۔جو بنیادی نکات ہیں ۔آپ عمل کرلیں گے تو قوی امید ہے کہ آپ بہت سی اغلاط سے محفوظ اور ایک اچھی تحریر رقم کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے ۔ان ذریں اصول کو ہم درجہ بہ درجہ پیش کررہے ہیں!!!!

پہلی اہم بات !!
ہمیشہ جو کچھ لکھیں اسے کم سے کم ایک بار ضرور پڑھ لیں۔ جب آپ لکھنے بیٹھتے ہیں تو آپ کا خیال ، آپ کے قلم یا کی بورڈ پر انگلیوں کی رفتار سے زیادہ تیز چلتا ہے۔انگلیاں جب خیال کے ساتھ دوڑ لگاتی ہیں۔ تو غلطیاں کرجاتی ہیں۔ ان میں صرف زبان کی غلطیاں نہیں ہوتیں بلکہ تعداد ،معیار،اکائی وغیرہ کی غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں۔اگر آپ اپنے لکھے ہوئے کو دوبارہ پڑھ لیں توان غلطیوں کو خود ہی ٹھیک کرلیں گی/ کرلیں گے۔اس بات میں ایک مثال سے آپ کو سمجھاتا ہوں ۔
’’ناظرین : کچھ ھی دیر میں آپ کے لیے ایک دلچسپ خاکا پیش کیا جائے گا۔

اب اس جملے پر آپ غور کریں ۔آپ کو کمپوزنگ یا لکھنے کی غلطی نظر آئے گی ۔جی ہاں مذکورہ جملے میں لفظ ہی کو ھی لکھا گیا اور لفظ خاکہ کو خاکا لکھاگیا۔تھوڑا سا غور کرلیاجاتا ۔یا لکھنے کے بعد ایک مرتبہ پڑھا لیاجاتا تو یہ غلطی سرزد نہ ہوتی ۔

دوسری اہم بات:

غیر ضروری الفاظ کا استعمال نہ کیجیے۔

اصلاح امّت کے لیے کوشاں افراد ہمارے لیے قابلِ تحسین ہی نہیں بلکہ ہمارے لیے قابل تقلید بھی ہیں ۔
غور کیجئے ۔مذکورہ عبارت میں ’’ہمارے لیے ‘‘لفظ دو مرتبہ استعمال ہوا۔اس کے بنا بھی عبارت اپنے معنٰی و مفہوم کے اعتبار سے کام تھی ۔

بہترین ابلاغ وہ ہے جس میں سننے یا پڑھنے والے کواس بات یا اس تحریر کا مافی الضمیر سمجھ میں آجائے ۔

غور کیجئے :مذکورہ بالاعبارت میں ’’اس بات یا اس تحریرکا ‘‘اور ’’میں ‘‘اضافی الفاظ ہیں ۔ان کے بغیر بھی بات مکمل ہوسکتی ہے اور مفہوم واضح ہوجاتا ہے ۔

تیسری اہم بات :
جب بھی تحریرلکھیں اس میں جہاں الفاظ کا چناؤ ایک مہارت ہے ۔وہیں ان الفاظ پر مشتمل جملوں کی ترتیب بھی ایک مہارت طلب کام ہے ۔کوشش کریں چھوٹے چھوٹے جملے، چھوٹے چھوٹے پیراگراف، ایک پیرے میں ایک سے زیادہ باتوں سے اجتناب کریں ۔آپ اگر اس اصول پر عمل کریں گے تو اس اصول کی مدد سے آپ کی تحریر میں روانی آجاتی ہے۔ اسے پڑھنا آسان ہو جاتا ہے۔ قاری کو بار بار واپس جاکر بات سمجھنے کی تکلیف برداشت نہیں کرنی پڑتی اور سب سے بڑھ کر قاری کا ذہن آپ کی فراہم کردہ معلومات کو قبول کرتا جاتا ہے۔ یہاں صرف ایک مثال اس لیے دے رہا ہوں تاکہ آپ کو اندازہ ہوجائے کہ طویل جملے کیسی مشکل پیدا کرسکتے ہیں۔ایک خبر کوآپ کے لیے پیش کررہاہوں ۔فیصلہ خود کیجئے گا۔

’’یاد رہے کہ پاکستان میں جنرل مشرف نے بطور آرمی چیف اپنے صدر بن جانے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پیشتر ہی تین نومبر کو آئین معطل کرکے چیف جسٹس افتخار چودھری سمیت عدالت عظمی اور ہائی کورٹوں کے ساٹھ ججوں کو برطرف کردیا تھا جس کے خلاف وکلاء اب تک احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
یہ عبارت پڑھتے ہوئے آپ کو اصل بات کو سمجھنے میں قدرے مشکل پیش آئی ہوگی۔آئیے اب اس عبارت کو اس انداز میں ترتیب دیتے ہیں ۔

’’یاد رہے کہ تین نومبر کو صدر شرف نے اس وقت آئین معطل کردیا تھا جب وہ بطور آرمی چیف صدر تو بن چکے تھے لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ ابھی تک نہیں آیا تھا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے چیف جسٹس افتخار چودھری سمیت عدالت عظمیٰ اور ہائی کورٹوں کے ساٹھ ججوں کو بھی برطرف کردیا تھا۔ اس کے خلاف وکلاء اب تک احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

امید ہے اس پیراکو ترتیب دینے کا مطلوب سمجھ گئے ہوں گے ۔

چوتھی اہم بات :
جب تحریر لکھیں تو کوشش کریں کہ جملے کے اندر جملہ ترتیب نہ دیں بلکہ چھوٹے چھوٹے جملوں پر اکتفاء کریں ۔جتنا طویل جملہ ترتیب دیں گے ۔قاری فاعل ،مفعول ،ظرف ِ زماں و مکاں کے حوالے سے تحریر میں الجھ جائے گا۔

مثال سے سمجھئے!!

’’رمضان المبارک 1437؁ ھ میں انہوں نے پاکستان ،بنگلہ دیش سے نشریات کے آغاز کے ساتھ ساتھ انہوں نے برمنگھم کے رہنے والوں کے لیے بھی انگریزی میں اپنی نشریات کو کچھ اسطرح ترتیب دیا کہ سب ہی نے رمضان میں بہت سی دینی معلومات حاصل کی ‘‘۔

اب اس عبارت کو آپ پڑھیں گے تو آپ کو خود انداز ہ ہوجائے گا کہ قاری کو حقیقی مقصود تک پہنچنے میں کس قدر تکلف سے کام لینا پڑے گا۔اگر آپ کو مشکل پیش آرہی ہے تو ایسی ہی مشکل آپ کی تحریر کا مطالعہ کرنے والے کو بھی پیش آسکتی ہے ۔

تو یہ بات ذہن نشین کرلیجئے کہ اردو میں طویل جملے، خاص طور سے وہ جن میں جملوں کے اندر جملے ہوتے ہیں، قابل قبول نہیں ہوتے۔ ایسے جملوں کو توڑ کے کئی فقرے بنا لینے چاہئیں۔

پانچویں اہم بات :
جب بھی کسی موضوع پر تحریر لکھنے لگیں تو آپ کہ پیش نظر یہ بات ضرور ہونی چاہیے کہ جس عنوان کاآپ نے انتخاب کیا اس میں کئی مقامات ، کئی شخصیات و کئی کتب اور چیزوں کے نام بھی تحریر کا حصّہ بن سکتے ہیں تو ایسے میں کوشش کریں کہ مقامات ،شخصیات ،کتب و چیزوں کے نام درست لکھنے کی کوشش کریں ۔اس حوالے سے فقط اپنے حافظے پر اکتفاء نہ کریں بلکہ اس حوالے سے معاون کتب سے مدد ضرور لیجئے ۔کہیں ایسی نہ ہو کہ انشاء پردازی کی عمدہ نظیر پیش کرنے کے بعد معلوم ہو کہ موصوف نے اپنی تحریر میں جو نام لکھے ہیں ۔وہ درست نہیں یا جن شہروں کے نام درج کئے ہیں۔ وہ غلط ہیں تو یہ مقامِ مدح کی بجائے مقام ِذم بھی بن سکتا ہے کہ کوئی اسے مطالعہ کی کمی سے بھی موسوم کرسکتا ہے ۔چنانچہ ایسے میں کوشش کریں کہ ناموں کے ہجے spellings اور ان کے تلفظ کی درستی کا خیال رکھیئے۔

چھٹی بات:
جہاں تک ممکن ہو تحریر کرتے وقت، خط لکھتے وقت قواعد اِملا کا لحاظ رکھنا چاہئے۔
محترم قارئین :میں کچھ چیزیں املا کے حوالے سے آپ کے لیے پیش کررہاہوں ۔غور کیجئے !!
٭ دھوکا، بھروسا، چکما وغیرہ جتنے ہندی الفاظ ہیں ان سب کے آخر میں’’ الف‘‘ ہے ’’ہ‘‘ نہیں اس لئے انہیں دھوکہ، بھروسہ، چکمہ وغیرہ لکھنا غلط ہے۔
٭اصل لفظ پروا ہے پرواہ نہیں، اس کے آخر میں ہ نہیں لکھنی چاہئے۔
٭نون غنّہ جب لفظ کے آخر میں آئے تو اس میں نقطہ نہیں لگانا چاہئے اور اگر بیچ میں آئے تو اس پر الٹا جزم لگانا چاہئے۔
٭یائے معروف کو گول (ی)لکھنا چاہئے جیسے گولی اور یائے مجہول کو لمبی (ے)سے تحریر کرنا چاہئے جیسے گولے لیکن جب کسی لفظ کے درمیان آئے تو اس سے پہلے حرف کے نیچے زیر یا زبر لگانا چاہئے جیسے تِیر، تَیرنا۔
٭ جو حرف واؤ معروف سے پہلے ہو، اس پر پیش ( ُ) ضرور لگانا چاہئے جیسے طُور، حُور، نُور وغیرہ۔
٭ وہ عربی الفاظ جن کے آخر میں ہمزہ آتا ہے، وہ الفاظ اردو میں ہمزے کے بغیر لکھے جاتے ہیں جیسے انبیا، اولیا، ادبا، دعا وغیرہ مگر مضاف ہونے کی صورت میں ہمزہ لکھا جائے گا جیسے اولیاء کرام۔
٭ چودھری کو بعض لوگ چوہدری لکھتے ہیں یہ غلط ہے، صحیح املا چودھری ہے۔
٭معمّا کو تقریباً سب ہی لوگ معمّہ ہی لکھتے ہیں جو غلط ہے، صحیح لفظ معمّا ہے۔
٭ عربی الفاظ کی تانیث عموماً آخر میں’’ ہ‘‘ بڑھانے سے بنتی ہے جو اردو میں ’’ہ ‘‘پڑھی جاتی ہے جیسے سلیم سے سلیمہ، سلطان سے سلطانہ، عاقل سے عاقلہ وغیرہ، لیکن ہندی یا فارسی الفاظ کی تانیث میں یہ قاعدہ برتنا غلط ہے۔ جیسے خورشید سے خورشیدہ، ہمشیر سے ہمشیرہ، خورشید اور ہمشیر ہی صحیح لفظ ہیں، بعض لوگ بھاوج کو بھاوجہ بھی کہہ دیتے ہیں حالانکہ بھاوج خود مؤنث ہے۔

محترم قارئین:ادب کے طالب ِ علم کی حیثیت سے مطالعہ اور اساتذہ کی شفقت سے فن تحریر کے متعلق معقول معلومات پیش کرنے کی کوشش کی ۔امید ہے کہ آپ پیش کردہ معلومات کو عملی مشق کا حصّہ بنائیں تو تحریر کے حسن میں بہتری پائیں گے ۔اپنی قیمتی آراء سے ضرور نوازئیے گا۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 547996 views i am scholar.serve the humainbeing... View More